• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ سال قبل حوا کی ایک کمزور بیٹی انیتا تراب نے عدالت عظمیٰ کے سامنے سرکاری افسران کی حالت زار اور بے توقیری کا مقدمہ پیش کیا تھا۔یہ خاکسار سپریم کورٹ آف پاکستان کے کورٹ روم نمبر 1 میں موجود تھا۔گریڈ 19کی سرکاری ملازم انیتا تراب کا موقف تھا کہ سول افسران جو حکمرانوں کی پسند ناپسند کا شکار ہوتے ہیں،اپنے فرائض حقیقی طور پر سر انجام نہیں دے سکتے ،معاشرے میں بگاڑ اپنی جگہ قحط الرجال بھی حقیقت ۔مگر ابھی ایسےسرکاری افسران موجود ہیں جو معاشرے کے کسی بھی باوقار شخص کی طرح قوم و ملک کا درد دل میں سموئے پھرتے ہیں۔عدالت عظمی نے انیتاتراب کیس میں یہ اصول واضح کردیا تھا کہ کسی بھی سرکاری افسر کو اس کی تعیناتی کی مقررہ مدت پوری کئے بغیر عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ اگر ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو تحریری وجوہات بیان کرنا ہونگی۔جب یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے آیا تو پی پی پی کا دور ختم ہوکر نگران حکومت کا دور دورہ تھا۔مجھے یاد ہے کہ حالیہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف اس معاملے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ۔مقدمے کی سماعت کے دوران معزز عدلیہ کے چیف جسٹس(ر) جناب افتخار امحمد چوہدری نے خواجہ صاحب پر واضح کیا کہ کل اگر آپ حکومت میں آئے تو آپ بھی اس اصول پر کاربند ہونگے کہ ذاتی پسند پر سرکاری افسران کو تبدیل نہ کیا جائے۔اسی طرح چند ماہ بعد اسلام آباد ائیرپورٹ کا مقدمہ زیر سماعت تھا کہ ایک فرض شناس اور دیانت دار افسر محمد علی گردیزی کو ان کے عہدے سے بغیر کوئی سمری بھیجے ہٹا دیا گیا۔اور قرعہ فال ایک مرتبہ پھر ایک خاتون افسرکی جھولی میں آگرا۔یہ وہی سیکرٹری تھیں جنہوں نے سابقہ دور حکومت میں بطور پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر سابقہ حکومت کے ہر غیر قانونی فیصلے پر عملدرآمد میں اہم کردار ادا کیا۔بہت ساری تقرریاں تو سیٹھی صاحبہ نے یہ کہہ کر کرائیں کہ ’یہ وزیراعظم کا زبانی حکم ہے‘جبکہ بطور پرنسپل سیکرٹری کئی سینئر افسران کو کراس کرتے ہوئے گریڈ 22 میں پرموشن حاصل کی۔جس پر معزز اعلیٰ عدلیہ کو گریڈ 22 میں ترقی کے حوالے سے احکام وضع کرنا پڑے۔مگر سپریم کورٹ آف پاکستان کے وضع کردہ اصولوں کو آج ایک مرتبہ پھر ہوا میں اڑایا جارہا ہے۔سرکاری افسران کی ترقیاں وفاداریوں سے مشروط ہیں۔انتیا تراب کیس کی دھجیاں اڑانے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔آج سپریم کورٹ آف پاکستان کے مختلف معاملات پر لئے گئے از خود نوٹسز پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن اگر سپریم کورٹ آف پاکستان بھی ناانصافی اور من مانیوں میں رکاوٹ نہ بنے تو پھر انصاف کون کرے گا؟ عدلیہ کا ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کرنا نامناسب ہے مگر ایگزیکٹو کے بعض ادارے عدلیہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ غیر قانونی اقدامات پر نوٹس لے۔سول افسران میں ناانصافی کے ذمہ دار بھی خود سول افسران ہیں۔اوپر سے نیچے ناانصافی ہوتی ہے۔اگر صوبے کا چیف سیکرٹری اور وفاق میں سیکرٹری کیبنٹ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طے کرلے کہ اس نے کسی ماتحت کے حوالے سے حکمرانوں کا کوئی غیر قانونی حکم نہیں ماننا تو پھر یہ سلسلہ بند ہوسکتا ہے۔مگر ہمارے پی اے ایس (ڈی ایم جی) کے بابو ؤں کی دم پر جب پاؤں آتا ہے تو یہ بہت چیختے ہیں کہ سارا سارا دن سپریم کورٹ میں کھڑے رہنا پڑتا ہے مگر پنجاب کے چند سیکرٹریز کے ساتھ اگر کچھ ہورہا ہے تو یہ ان ماتحت لوگوں کی بدعائیں ہیں جن سے یہ افسران پورے ہاتھ سے بھی سلام نہیں کرتے۔سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے پنجاب کے چند سیکرٹریز انسان کو انسان نہیں سمجھتے تھے،وزیراعلیٰ پنجاب سروے کروا کر دیکھ لیں،پنجاب کے 90فیصد ایم پی اے اور ایم این ایز کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ فلاں سیکرٹری کام تو دور کی بات ہے کم ازکم ہمارا فون ہی سن لے۔آج وہی افسر سپریم کورٹ میں اپنا اعمال نامہ اٹھا کر پیش ہوتے ہیں تو انہیں اپنی رعونت اور تکبر یاد ضرور آتا ہوگا۔میں نے کسی ایماندار اور شریف النفس افسر کو عدالتو ں میں جواب دہی کے لئے کھڑا نہیں دیکھا،صرف وہی افسر ہر پیشی پر کھڑے ہوتے ہیں،جن کے بارے میں پورا پنجاب جانتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ دو سالوں میں غرور و تکبر کی اولین مثالیں قائم کیں۔حالانکہ سول سرونٹس کے لئے قائداعظم محمد علی جناح کا واضح پیغام موجو د ہے جو سول اکیڈمی میں پڑھائے جانے کے ساتھ ساتھ دفاتر کی دیواروں پر بھی چسپاں ہوتا ہے کہ ’ آپ ریاست کے ملازم ہیں،اور عوام کے خادم ہیں۔آپ نے پولیٹکل ماسٹرز نہیں بننا ۔مگر یہ لوگ پولیٹکل ماسٹرز بنے رہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اگر بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پر نوٹسز لئے ہوئے ہیں اور ہر ہفتے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کرتے ہیں تو انہیں داد دینی چاہئےکہ انہوں نے واضح کیا کہ مملکت خداداد میں کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔پنجاب کے ان افسران پر آئندہ کسی کالم میں تفصیل سے لکھوں گا مگر ایسی صورتحال میں اے ۔کے لودھی جیسے معروف بیوروکریٹس کا خیال آتا ہے ،جب اے کے لودھی چیف سیکرٹری سندھ تھے تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق نے سکھر کے انتخابات میں مہران برادران کی حمایت نہ کرنے پر چیف سیکرٹری کو کہا کہ آپ ڈپٹی کمشنر سکھر کا ٹرانسفر کردیں۔
تو اے کے لودھی نے جام صادق پر واضح کیا کہ وہ ڈی سی کا ٹرانسفر نہیں کریں گے،بلکہ اگر حکومت کو ٹرانسفر مقصود ہے تو ان کا ٹرانسفر کردیا جائے۔اسی طر ح جب وہ چیف سیکرٹری پنجاب بنے تو انہوں نے ایک میٹنگ میں منظور وٹو کو برملا کہہ دیا کہ اگر بطور صوبے کے چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ بھی مجھے کوئی غیر قانونی کا م کا کہیں گے تو میں ہر گز نہیں کروں گا،جس پر فوراََ ان کا ٹرانسفر کردیا گیا حالانکہ ابھی ان کی تعیناتی کو صرف چار ماہ ہوئے تھے۔ماضی میں ایماندار بیورو کریٹس جو قائد کے فرمان کی پاسداری کرتے رہے ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ شاہد رشید کوہلو میں ڈپٹی پولیٹکل ایجنٹ تھے کہ چیف سیکرٹری شیخ جمیل سے ان کے ٹرانسفر کا کہا گیا تو انہوں نے واضح کردیا کہ وہ کسی طور پر بھی ایماندار افسر کا تبادلہ نہیں کریں گے۔ایسے عظیم بیوروکریٹس بھی پاکستان کی تاریخ میں گزرے ہیں جن کا نام سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔عبداللہ صاحب چیف سیکرٹری خیبر پختونخوارہے ہیں۔جس وقت ان کی مدت ملازمت پوری ہوئی تو ذاتی قلم سے سرکاری سیاہی بھی نکال کر دوات میں ڈالی اور کسی دوست کے ساتھ گھر چلے گئے اور سرکاری گاڑی بھی استعمال نہ کی۔ اب ایسے افسران کہاں چلے گئے ہیں،تلاش کرو تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔آج ایک مرتبہ پھر سول افسران کی تعیناتیوں اور ترقیوں میں سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف کیا جارہا ہے۔کچھ لوگ سالہا سال سے گریڈ 22میں ترقی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔مگر حکومت کو اس حال میں پہنچانے والا ایک شخص ہر چیز پر قابض ہوا بیٹھا ہے۔اس افسر نے وزیراعظم ہاؤ س میںبیٹھ کر صرف لوگوں کو ناراض کیا ہے۔مگر منصب پر بیٹھ کر شاید ہم بھول جاتے ہیں۔۔۔
آج جو صاحب مسند ہیں ،کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ،ذاتی مکان تھوڑی ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین