• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلائی مخلوق کا میاں نواز شریف نے کیا نام لیا کہ جس جس کو موقع مل رہا ہے وہ اپنی بھڑاس نکال رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے تو میاں صاحب کو یاد دلایا کہ خلائی مخلوق کے ہی زور پر تو ماضی میں اُن کی سیاست چمکتی رہی۔یہ تمام باتیں اشارتاً ایک ہی ادارہ کی طرف مرکوز تھیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی عادت کے مطابق نہ سوچا نہ سمجھا اور سیدھا سیدھا فوج کا نام لے کر اُسے 2013 کے انتخابات میں پنجاب میں ن لیگ کو جتوانے کے لیے دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے تمام الزامات اگرچہ غلط ثابت ہوچکے لیکن خان صاحب کے ذہن سے یہ بات نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب نے مل کر اُنہیں ہرایا اور نواز شریف کو جتوایا۔ ماضی میں وہ بنیادی طور پرسپریم کورٹ سمیت ججوں، الیکشن کمیشن، جنگ گروپ سمیت جس کو دل چاہا یا جو اُن کے سامنے آیا اُس پر دھاندلی کی ـ’’سازش‘‘ میں شامل ہونے کا الزام لگا دیا۔ اب انہیں فوج بھی یاد آگئی کہ وہ بھی ن لیگ کو جتوانے کے لیے ووٹوں پر ٹھپے لگانے میں شامل تھی۔ نہ ماضی میں خان صاحب کے پاس ایسے الزامات کا ثبوت تھا اور نہ ہی اب اُن کے پاس کچھ ثابت کرنے کے لیے موجود ہے۔ دنیا جانتی ہے اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن نے یہ ثابت بھی کیا کہ کوئی منظم دھاندلی گزشتہ الیکشن میں نہیں ہوئی۔ کچھ بھی کر لیں عمران خان نے تو بغیر تصدیق کے بات وہی کرنی ہے جو اُن کے کان میں کوئی کھسر پھسر کر دے ورنہ یہ حقیقت ہے اور اسے جوڈیشل کمیشن نے ثابت بھی کیا کہ 2013 کے انتخابات کے پیچھے نہ تو فوج، نہ عدلیہ، نہ جنگ گروپ اور نہ ہی کسی دوسرے کی کوئی سازش شامل تھی بلکہ عمومی طور پر گزشتہ انتخابات ماضی کے مقابلہ میں کافی بہتر پائے گئے۔ڈر ہے کہ آئندہ الیکشن بھی اگر خان صاحب ہار گئے تو نجانے کس کس پر بغیر ثبوت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیں گے۔ خان صاحب نے جیو کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویو میں موجودہ آرمی چیف پر اپنا مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اُنہیں سب سے بہتر قرار دیا۔ آرمی چیف کے متعلق کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار آصف علی زرداری نے بھی کیا۔ ویسے ہمارے ہاں ایک رواج چلا آ رہا ہے کہ ہم ہر آرمی چیف کو اُس کے عہدے کے دوران بہترین قرار دیتے ہیں اور جیسے ہی وہ ریٹائر ہو جاتا ہے تو جانے والے میں خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں اور نئے آرمی چیف کے متعلق کہنے لگتے ہیں کہ ان جیسا تو کبھی کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگر کسی نے چاپلوسی کے اس رنگ کو دیکھنا ہے تو آٹھ دس سال کے پرانے اخبارات نکال لیں اور اپنے بڑے بڑے سیاستدانوں کے بیانات پڑھ لیں سب کھل کر سامنے آ جائے گا۔ 2008 اور پھر 2013 کے انتخابات جب ہوئے تو دونوں موقعوں پر آرمی چیف جنرل ریٹائرڈپرویز کیانی تھے۔ سب کو معلوم ہے کہ جنرل مشرف 2008 کے انتخابات میں ق لیگ کو جتوانا چاہتے تھے اور اس کے لیے فوج کو بھی استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل کیانی نے فوج کو غیر سیاسی بھی کیا ا ور انتخابی عمل میں مداخلت سے بھی روکا۔ 2013 کے انتخابات کے دوران بھی جنرل کیانی کی قیادت میں فوج نے صرف سیکورٹی کا وہی کردار ادا کیا جو اُسے سونپا گیا تھا۔ مشرف نے فوج کو جن تنازعات میں اپنے مارشل لاء کے دوران اور اپنے سیاسی مفادات کے لیے دھکیلا اُن حالات سے اس قومی ادارہ کو نکالنے میں جنرل کیانی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جنرل کیانی ایک بہترین آرمی چیف رہے اگرچہ میںفوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ہوں۔ تاریخی طور پر فوج کا ہماری سیاست میں اہم کردار رہا اور اسی کردار کی وجہ سے فوج کے متعلق تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ خلائی مخلوق کا موجودہ تنازع بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ لوگ بلواسطہ یا بلاواسطہ فوج کا بحیثیت ادارہ نام لیتے ہیں لیکن چاہے خلائی مخلوق کہیں یا کچھ اور ہمارا ماضی گواہ ہے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت یا سول حکومتوں سے ٹکرائو کا معاملہ ہمیشہ صرف چند افراد تک محدود ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جنرل مشرف نے جب مارشل لگایا تو صرف چند ایک جرنیل اس سازش میں شامل تھے۔ اسی طرح 2014 کے دھرنے کی مبینہ سازش کا جو معاملہ ہے تو اُس کا بھی تعلق فوج سے نہیں بلکہ فوج سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سے تھا جنہوں نے اپنے عہدہ اور ادارہ کی حیثیت کو اپنے ذاتی مفادات اور لڑائیوں کے لیے استعمال کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف خلائی مخلوق اور اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو احتیاط کرنی چاہیے کہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے اداروں اور افراد کے درمیان فرق ختم ہو جائے اور دوسری طرف فوج کی قیادت کو ملک ، قوم اور فوج کے اپنے وسیع ترمفاد میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دفاعی اداروں سے تعلق رکھنے والے کسی فرد یا افراد کو فوج کے ادارہ کو اپنے ذاتی مفادات اور پسند و ناپسند کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ ایسا کرنا فوج کو بلاوجہ کے تنازعات سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین