• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں موجودہ حکومت نے اپنی 5 سالہ مدت کے دوران چھٹا متنازع بجٹ پیش کیا۔ بجٹ تقریر سے چند گھنٹے پہلے وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے کا حلف اٹھانے والے مفتاح اسماعیل جو مشیر خزانہ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں پیش کیا۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل کو منتخب پارلیمنٹرین کی حیثیت سے بجٹ پیش کرنا چاہئے تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جو 30؍مئی تک ختم ہوجائے گی، کو صرف 4 مہینے کا بجٹ پیش کرنے کا اختیار حاصل ہے جسکے بعد نئی منتخب حکومت بجٹ پیش کرنے کی مجاز ہے۔بجٹ کے دن 8مختلف ٹی وی چینلز پر ممتاز معاشی ماہرین اور صنعت و تجارت کے نمائندوں سے پینل ڈسکشن میں زیادہ تر ماہرین نے مجھ سے اتفاق کیا کہ حکومت کا یہ الیکشن ایئر بجٹ ہے جس میں عوام کو خوش کرنے کیلئے بے شمار مراعات کا اعلان کیا گیا ہے لیکن ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے آمدنی اور ریونیو کی وصولی کی کوئی تفصیل نہیں فراہم کی گئی۔ بجٹ میں حکومت کو مختلف ذرائع سے 93.32 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز وصول ہونگے جبکہ چھوٹ اور مراعات کی مد میں 184.5 ارب روپے کی کمی ہوگی۔ اس طرح مراعا ت اور چھوٹ دیئے جانے سے قومی خزانے کو 91.18 ارب روپے کا اضافی خسارہ ہوگا۔ یہاں میں قارئین کی توجہ ایک اہم ایشو کی جانب مبذول کرانا چاہونگا۔ بجٹ میں 1800 ارب روپے کا بجٹ خسارہ دکھایا گیا ہے لیکن بے شمار اخراجات اور ادائیگیوں کے بارے میں بجٹ میں کوئی ذکر نہیں۔ مثال کے طور پر 980 ارب روپے کے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے، 260ارب روپے کے ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے کے 500 ارب روپے سالانہ کے نقصانات کے بارے میں بجٹ میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی اور اگر ان ادائیگیوں کو شامل کیا جائے تو بجٹ خسارہ بہت زیادہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ رواں مالی سال حکومت نے سی پیک اور چین سے آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کے تحت 540 ارب روپے کی کسٹم، انکم اور سیلز ٹیکس کی مد میں چھوٹ دی ہے جو حکومتی آمدنی میں کمی کا باعث بنےگی۔
بجٹ میں ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے کوئی ٹھوس اصلاحات کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر محصول بڑھانے سے پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوں گی جو ملک میں مہنگائی کا سبب بنے گا۔ ٹیکس ایمنسٹی کے اعلان میں 12 لاکھ روپے تک ماہانہ تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے جس سے حکومت کو تقریباً 100 ارب روپے سالانہ کی ٹیکس آمدنی میں کمی ہوگی اور 5,50000 رجسٹرڈ افراد ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 12,50000 رجسٹرڈ افراد رٹیکس پیئرز ہیں جو کم ہوکر 7 لاکھ رہ جائیں گے۔ اس مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ میں حکومت نے 4 سے 8 لاکھ سالانہ آمدنی پر 1,000 روپے اور 8 سے 12 لاکھ سالانہ آمدنی پر 2,000 روپے ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ مکمل طور پر ٹیکس سے مستثنیٰ کردینے سے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اتنی زیادہ کمی نہ ہو۔ اس کے علاوہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں کی شرح بھی 35 فیصد سے کم کرکے زیادہ سے زیادہ 15 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے بھی حکومت کی ٹیکس آمدنی میں کمی ہوگی۔
ایکسپورٹرز کے 260 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی تقریباً ڈھائی سے تین سال سے ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔سابق و موجودہ وزیر خزانہ سے متعدد بار ایکسپورٹرز ریفنڈز کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا لیکن یہ ادائیگیاں نہیں کی گئیں مگر حالیہ بجٹ میں وزیر خزانہ نے پہلی جولائی سے آئندہ ایک سال میں ماہانہ قسطوں میں ایکسپورٹرز کے ریفنڈ کی ادائیگی کا اعلان کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اپنی حکومت کی ادائیگی کی ذمہ داری آنیوالی حکومت کے سر ڈال دی ہے جو بزنس کمیونٹی کو کسی صورت قبول نہیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کی بجٹ کے دوسرے دن ہونے والی پریس کانفرنس جس میں، میں نے بھی شرکت کی، میں بزنس کمیونٹی نے اپنے واجبات لینے کیلئے کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ایکسپورٹرز کی اتنی بڑی رقم کئی سالوں سے حکومت کے پاس پھنس جانے سے ان کی مالی حالات متاثر ہورہے ہیں۔ میں نے فیڈریشن کے بجٹ پروپوزل میں ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے کمرشل ایکسپورٹرز کو بھی ریبیٹ دینے کی سفارش کی تھی۔ وزیراعظم کے مختلف ایکسپورٹ سیکٹرز کو ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے 180 ارب روپے کے 5 سالہ پیکیج میں یہ ریبیٹ صرف مینوفیکچرنگ کرنیوالے ایکسپورٹرز کو دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک سب ایکسپورٹرز برابر ہیں جو ملک کیلئے زرمبادلہ کمارہے ہیں لہٰذا ٹیکسٹائل کے کمرشل ایکسپورٹرز کو بھی یہ ریبیٹ دینا چاہئے تاکہ ان کی مقابلاتی سکت برقرار رہے اور ملکی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو مگر بجٹ میں اس اہم مسئلے کو نظر انداز کردیا گیا۔ میں نے حال ہی میں وزیر تجارت و ٹیکسٹائل پرویز ملک سے ملاقات میں اس بے قاعدگی کی طرف توجہ دلائی اور انہوں نے اسے حل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر زبوں حالی کا شکار ہے، بجٹ میں اس اہم سیکٹر کیلئے کوئی مراعات کا اعلان نہیں کیا گیا۔بجٹ میں آئندہ مالی سال کے اخراجات کا تخمینہ 5,246 ارب روپے اور ریونیو کا ہدف 4435ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جس سے آئندہ مالی سال 1890 ارب روپے کا بجٹ خسارہ متوقع ہے۔ بجٹ میں دفاع کیلئے 1100ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ملک کا دفاع ناگزیر ہے اور امن و امان کی بحالی کیلئے قوم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہے لیکن 4ہزار ارب روپے کے مجموعی ریونیو میں سے 1620 ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جانا ناقابل برداشت ہے۔ وزیر خزانہ نے بجٹ کے دن میرے ساتھ ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت کے کچھ غیر متوقع اخراجات اور صوبوں کے اضافی فنڈز وفاقی حکومت کو منتقل نہ کرنے کی وجہ سے مالی خسارہ اپنے ہدف 4.1فیصد سے بڑھ کر 5.4فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ حکومت نے آئندہ سال مالی خسارے کو 4.9 فیصد کی سطح پر لانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملکی جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد ہدف کے مقابلے میں 5.79 فیصد رہی جبکہ آئندہ سال کیلئے اس کا ہدف 6.2 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے آئندہ سال گروتھ 4.7 فیصد کی پیش گوئی کی تھی۔ بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس (PSDP) کیلئے 800ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس سال بجٹ میں ایف بی آر کی کارکردگی بہتر رہی ہے جس کی بنیاد پر حکومت نے آئندہ مالی سال ریونیو کا ہدف 4435 ارب روپے رکھا ہے جس میں 1735 ارب روپے ڈائریکٹ اور 2700 ارب روپے ان ڈائریکٹ ٹیکسز شامل ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا انحصار ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر بڑھتا جارہا ہے جس میں ایک غریب آدمی امیر آدمی کے برابر ٹیکس ادا کرتا ہے جو ناانصافی ہے۔مثال کے طور پر ٹیلیفون سم خریدتے وقت 100 روپے کے کریڈٹ پر 40 روپے کٹنے والا ٹیکس غریب اور امیر کیلئے برابر ہوتا ہے جبکہ غریب کی اتنی ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ اکنامک سروے کے مطابق افراط زر کی شرح 3.8 فیصد رہی جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے 6 فیصد کا ہدف رکھا گیا ہے۔ زراعت اور خدمات کے شعبے کی کارکردگی گزشتہ مالی سال بہتر رہی جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ بجٹ میں سیمنٹ، اسٹیل بار اور سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے کنسٹرکشن لاگت میں اضافہ ہوگا۔ فیڈریشن کے مطالبے پر اب ٹیکس آڈٹ 3 سال میں ایک بار کیا جاسکے گا، سپر ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں بتدریج کمی جبکہ بونس شیئر اور ڈیوڈنڈ ٹیکس پر مراعات خوش آئند بات ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے 40لاکھ روپے سے زیادہ کی پراپرٹی نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) کے بغیر نہیں خریدی جاسکے گی جس سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی۔ بجٹ میں کھاد اور زرعی مشینری کی امپورٹ پر سیلز ٹیکس میں کمی سے زرعی شعبے کی بحالی میں مدد ملے گی۔ حکومت نے موجودہ بجٹ میں اونچے اہداف اور پرکشش مراعات رکھی ہیں جبکہ ریونیو کے حصول کیلئے تفصیلات کا ذکر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے آنے والی حکومت کیلئے بجٹ میں رکھے گئے اہداف اور ریونیو کا حصول سنگین چیلنج ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین