• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تین عشروں سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کو کراچی پر سیاسی اجارہ داری حاصل رہی ہے، حکومت PPPکی رہی ہے جس کے یقینا کچھ اسباب تھے ۔ ایم کیو ایم میں شیرازہ بندی اور دھڑے بندی کیساتھ ساتھ کراچی میں امن قائم ہونے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے ، اسے دیگر سیاسی جماعتیں اور خود ایم کیو ایم کے دھڑے پر کرنیکی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم ابھی تک کسی کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ کراچی کی سیاسی سمت کیا ہو گی اور کراچی کیا چاہتا ہے ۔ کسی سیاسی پارٹی کا کراچی کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کا سیاسی قلعہ رہنے والے علاقے لیاقت آباد ( لالو کھیت ) میں ایک جلسے سے خطاب کیا ۔ پیپلز پارٹی نے 44سال بعد یہاں جلسہ منعقد کیا ۔ لیاقت آباد ایک ایسا علاقہ ہے ، جو طویل عرصے تک سیاسی تحریکوں کا مرکز رہا ہے اور ان تحریکوں کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئےہیں ۔ لیاقت آباد کو کراچی کی نبض تعبیر کیا جاتا رہا ہے ۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں لیاقت آباد سب سے آگے تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں بھی اس علاقے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی دیگر تحریکوں کا بھی یہ علاقہ مرکز رہا ۔ لیاقت آباد کی سیاسی حساسیت کے پیش نظر مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے اس علاقے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال بھی کیا ۔ آج بھی یہ علاقہ کراچی کا مزاج تصور کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جلسہ منعقد کرنا یا اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہر سیاسی جماعت ضروری سمجھتی ہے ۔ نئی صورتحال میں کئی سیاسی جماعتیں یہاں اپنا پاور شو کر چکی ہیں ۔
میں PPP میں ہوں اور میری ہمدردی بھی اسکے ساتھ ہے لیکن میں کراچی میں بھی رہتا ہوں بلکہ کراچی میرے اندر رہتا ہے۔ اگر کراچی کیساتھ نا انصافی ہوگی تو اہلِ کراچی درد محسوس کرینگے۔ اگر آس پاس میں آگ لگی ہوگی توتپش ضرور محسوس ہو گی۔آج کراچی کیساتھ ناانصافی پر ایک درد میرے دل میں بھی اٹھا ہے مجھے بھی دکھ ہوتا ہے میں اس دکھی دل کے ساتھ یہ تحریر کر رہا ہوں۔PPPجلسے میں کوئی اردو اسپیکنگ اسٹیج پر نہیں تھا۔ پروفیسر این ڈی خان، تاج حیدر، شہلا رضا کوئی بھی تو نہیں تھا۔
لیاقت آباد ٹنکی گراؤنڈ میں پیپلز پارٹی کے جلسہ کا ردعمل یہ ہوا کہ ایم کیو ایم کے دو دھڑے یعنی بہادر آباد اور پی آئی بی دونوں متحد ہو گئے اور انہوں نے اسی جگہ جوابی جلسہ کیا ۔ اس سے پہلے دونوں دھڑوں کے اتحاد کی ساری کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تھیں ۔ اس جلسہ میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے دوبارہ ’’ جئے مہاجر ‘‘ کا نعرہ لگا دیا اور ایک بار پھر مہاجر سیاست کا کارڈ پھینک دیا ایم کیو ایم کے مشترکہ جلسے میں بلا شبہ لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی اور ایم کیو ایم نے یہ باور کرا دیا کہ انکا یہ جلسہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے بیانیہ کا ردعمل ہے ۔ میرے نزدیک سندھ کی سیاست میں تقسیم کا یہ عمل دوبارہ شروع ہونا خوش آئند نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ لسانی اور گروہی بنیادوں پر تقسیم کے اسباب اس وقت بھی موجود ہیں ، جنہیں ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں ۔ کسی کو کراچی کی اونرشپ لینی چاہئے۔
پاکستان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی کراچی میں بظاہر پیدا ہونیوالے سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔ ان کوششوں میں ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے سیاسی رہنماؤں کی نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی بھی شامل ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندی ، امن قائم ہونے اور نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے کراچی میں کی سیاسی حرکیات (Dynamics ) تبدیل ہو گئی ہے لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کراچی آبادی کے مختلف گروہوں کا شہر ہے ۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کی طرح ثقافتی ، تہذیبی ، سیاسی اور سماجی تنوع ( Diversity ) اس شہر کا بھی خاصا ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح یہاں لوگوں میں ہم آہنگی اور تنوع کو قبول کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے ۔ اسکا بنیادی سبب یہ ہے کہ کراچی گمبھیر مسائل کا شکار ہے اور یہ مسائل آبادی کے تمام گروہوں کیلئے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ گروہ اس معاملے میں زیادہ حساس ہیں ۔ روس کے انقلاب کے بانی ولادی میر لینن نے ایک گلہ لکھا تھا کہ ناانصافی ہم آہنگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور کراچی میں آبادی کا ہر گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اسکے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے ۔ کراچی کی عدم ہم آہنگی اور گروہی تضادات کو بعض ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں نے بھی سیاسی طور پر بے رحمی کیساتھ استعمال کیا ہے اور ان تضادات کو بھڑکا کر کراچی کو آگ اور خون میں نہلایا ہے۔ ملکی طاقتوں نے کراچی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور بین الاقوامی طاقتوں میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو کراچی کو ترقی یافتہ نہیں دیکھنا چاہتیں اور کراچی کی بربادی میں وہ اپنی خوش حالی دیکھتی ہیں جبکہ کچھ طاقتیں ایسی ہیں ، جو کراچی کی بربادی سے اپنے عالمی اور علاقائی ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں ۔
اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے ، جو کراچی میں گمبھیر مسائل کو جنم دیتے ہیں اور تضادات میں اضافہ اور تقسیم کو مزید گہرا کر رہے ہیں ۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ کراچی کا کوئی ایسا انتظامی ڈھانچہ ہو ، جو اس طرح بڑے بین الاقوامی اور کاسموپولیٹن سیٹیز ( Cities ) کا ہوتا ہے ۔ کراچی کا موجودہ انتظام ناقابل عمل ہے ۔ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔ پہلے ہی اتنی بڑی آبادی کے حساب سے منصوبہ بندی نہیں ہوئی اور اب حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم ظاہر کرکے اس شہر کی حقیقی منصوبہ بندی کی بنیادیں ہی ختم کر دی گئی ہیں کیونکہ منصوبہ بندی اصل آبادی کی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہو سکے گی ۔ اس سے مسائل میں اضافہ ہو گا ۔ لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گی اور نتیجہ میں حالات مزید خراب ہونگے ۔ اگرچہ کراچی کو دنیا کے جدید ، پر امن ، ترقی یافتہ اور ہر طرح کی منافرت اور امتیاز کے خلاف شعوری طورپر مزاحمت کرنے والے شہروں کی طرح کا ایک شہر بنانا ہے تو اسے اب جدید انتظامی ڈھانچے کے ساتھ چلانا ہو گا ۔ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے ۔ کراچی پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے ۔ کراچی اس حوالے سے اپنا حصہ اور حکومت میں کوٹہ مانگتا ہے۔ کراچی کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا شہر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو ۔ یہاں امن ہو ، کراچی کے لوگ نوکریوں اور وسائل میں اپنا پورا حصہ چاہتے ہیں ۔ موجودہ ڈھانچے میں کراچی جیسا بڑا شہر قابل انتظام نہیں رہا کیونکہ بہت بڑی آبادی میں اس طرح کے مسائل افراتفری اور انارکی پیدا کرتے ہیں اور یہاں تضادات بہت تیزی سے ابھرتے ہیں ۔ کم اور غیر گنجان آبادی والے علاقوں میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو تا ہو گا ۔
ویسے بھی بڑے انتظامی یونٹ ازخود مسائل پیدا کرتے ہیں ۔ پنجاب کو تین یا چار حصوں میں تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
منتخب قیادت نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں خود پنجاب کو تقسیم کرنے کی قرار داد منظور کی ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ مزید انتظامی یونٹس بننے چاہئیں ۔ نہ صرف پنجاب میں بہاولپور ، جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار صوبے قائم ہوں بلکہ خیبرپختونخوا میں ہزارہ صوبہ بھی بننا چاہئے اور بلوچستان کو بھی انتظامی طور پر تقسیم ہونا چاہئے ۔ اسی طرح کراچی سمیت سندھ کے کراچی سے ملحق دیگر دو تین اضلاع کو ملا کر ایک انتظامی یونٹ بنایا جا سکتا ہے ۔ صوبے صرف لسانی بنیادوں پر نہیں ہوتے اور نہ ہی نئے صوبے بنانے کا مقصد کسی ایک لسانی گروہ کی بالادستی قائم کرنا ہے ۔ کراچی میں تو کسی ایک گروہ کی بالادستی قائم نہیں رہ سکے گی کیونکہ یہاں پاکستان کی تمام قومیتوں اور لسانی گروہوں کی کثیر آبادیاں ہیں ۔ نئے انتظامی یونٹس سے انتظام سنبھالنے میں آسانی ہو گی ۔ معاملات کو مزید بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے جمہوریت کا تصور مضبوط مقامی حکومتوں کے بغیر ممکن نہیں یہاں یہ بات واضح رہے کہ میں بعض حلقوں کی جانب سے کسی الگ مہاجر صوبے کے نعرے کی حمایت نہیں کر رہا ۔ میں کراچی میں رہنے والے آبادی کے تمام گروہوں کے مسائل کا حل تجویز کر رہا ہوں ۔
جس طرح دیگر صوبوں میں انتظامی مسائل کی وجہ سے نئے یونٹس بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔ کراچی میں تضادات گہرے ہیں اور ان کا سبب سنگین مسائل ہیں ۔ میں نئے صوبوں کے حوالے سے آئین میں دی گئی اسکیم کا حامی ہوں لیکن پاکستان مزید تصادم کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ کراچی کو اس صورت حال سے نکالنا بہت ضروری ہے اور میری دانست میں کراچی کو ایک نئے اور الگ انتظام سے چلانا وقت کا تقاضا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین