• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ برس پاناما کیس میں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم نا اہلی کے فیصلے کے تقریبا ایک ماہ بعد انہی صفحات پر تحریر کیا تھا کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے جس میں چوہدری نثار جیسا گھر کا بھیدی کوئی بھی لنکا ڈھا سکتا ہے، مشورہ تب بھی یہی تھا کہ نواز شریف کو قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکنا چاہئےاور تجویز اب بھی یہی ہے کہ میاں صاحب کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام امور پہ نظر ثانی کرنی چاہئے جن کی نشان دہی ان کے چونتیس سال کے سیاسی رفیق اور نالاں دیرینہ دوست چوہدری نثار نے ایک بار پھر کی ہے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد میاں صاحب کو یہ ادراک بخوبی ہو جانا چاہئے کہ جس بیانیے کو لے کر وہ آئندہ عام انتخابات میں عوام کے پاس جانا چاہتے ہیں اور جس نظریاتی ہونے کے دعوے پر وہ اپنے خلاف ہونیوالے فیصلوں پر اٹھائے گئے تمام اقدامات کو رول بیک کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ نائو ان حالات میں پار لگنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ چوہدری نثارکے طرزعمل ، رویے اور انداز سیاست سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ان کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن سے ان کی وفاداری کسی شک و شبہے سے بالا تر ہے۔ اب تو انہوں نے خود بھی انکشاف کر دیا ہے کہ میاں صاحب کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے متعدد ارکان پارلیمنٹ ان کے ہاتھ پر’بیعت‘‘ کرنے کیلئے آئے تھے اور اگر وہ کچھ بھی نہ کرتے پھر بھی چالیس سے پیتالیس ارکان ان کی جیب میں تھے جبکہ جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں نوے پارٹی ارکان کی قیادت کرنے کی ترغیب بھی دی گئی تھی لیکن ان کے ضمیر نے یہ بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بے وقوف دوست سے دانا دشمن بہتر ہے ،سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اس نہج تک پہچانے کے ذمہ دار یقینا ایسے ہی ’’دوست‘‘ ہیں جو احتساب عدالت سے کسی بھی نا خوشگوار فیصلے کی صورت میں دور دور تک کہیں نظر نہیں آئینگے۔ نواز شریف پرویز مشرف کی آمریت میں ہونیوالے اس تلخ تجربے کا ذکرایک بار خود بھی کر چکے ہیں کہ گلا پھاڑ کر انہیں ہلا شیری دی جاتی تھی کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن قدم بڑھانے کے بعد جب انہوں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو نعرے لگانے والے کہیں دکھائی نہ دئیے۔ سابق وزیر اعظم کو ایک نکتہ کسی طور نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ماضی میں انکے خلاف جو مقدمات قائم کئے گئے اور عدالتوں نے انہیں سزائیں سنائیں وہ انتقامی بنیادوں پر آمریت یا سیاسی مخالفین کے ادوار کا شاخسانہ تھیں جن سے وہ اسی جواز کے باعث بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اس بار ان کے ساتھ جو کچھ ہوا یا کیا گیا وہ ان کی اپنی وزارت عظمی اور پارٹی کی حکومت کے دوران ہوا اسلئے وہ صرف ؛خلائی مخلوق؛ کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس گرداب سے باہر نہیں نکل سکتے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سائے کی طرح ان کیساتھ رہنے والے چوہدری نثار نے بلکل بجا فرمایا کہ سیاست کسی دنگل یا جنگ کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے راستہ نکالنے کا نام ہے۔ ان کا یہ جملہ بھی کڑوے سچ سے کم نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی سیاست میں کسی نہ کسی طرح کردار شامل رہا ہے اسلئے معاملات کو تصادم کی بجائے مفاہمت کے ذریعے حل کرنا ہی بہتر ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد کی تو یہ خوش قسمتی تھی کہ انہیں چوہدری نثار کی صورت میں ایک ایسے جہاندیدہ سیاست دان کا ساتھ میسر تھا جو بذات خود عسکری خاندان سے تعلق رکھنے کے باعث حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتے تھے، اگر حکومت کے آغاز سے ان کے مشوروں کو اہمیت دی جاتی تو صورتحال کبھی اس نہج پر نہ پہنچتی۔ قارئین کی یاداشت کیلئے جب سابق صدر آصف زرداری نے میاں صاحب کو تھپکی دی تھی کہ دودھ پینے والے بلے کو بھاگنے نہیں دینا تو یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے تب بھی وزیر اعظم کو تجویز دی تھی کہ پرویز مشرف کے احتساب کی بجائے حکومت کی گورننس پر توجہ دیں لیکن اس پر کان نہ دھرے گئے، تب بھی چوہدری نثار اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سوچ ایک ہی تھی اور ان دونوں نے ہی میاں صاحب کی انا کی تسکین کیلئے راولپنڈی میں کی گئی ایک ملاقات میں یقین دہانی کرا دی تھی کہ پرویز مشرف کو ایک بار خصوصی عدالت میں پیش کر دیا جائے اسکے بعد اسے باہر جانے کی اجازت دیدی جائیگی تاہم میاں صاحب کا ملکی تاریخ کو تبدیل کرنے کا ’’جنون‘‘ آڑے آ گیا۔ حکومت پرویز مشرف کو باہر جانے سے پھر بھی نہ روک سکی لیکن وہاں سے پھر مشکلات کا جو نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہوا اس میں ہوش کی بجائے جوش نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
نواز شریف اور چوہدری نثارکے درمیان سر مہری کا آغاز گزشتہ الیکشن میں چوہدری نثار کے راولپنڈی سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے شیر کی بجائے گائے کے نشان پرلڑنے سے ہو گیا تھا تاہم میاں نوز شریف کی طرف سے وزیر اعظم بننے کے بعد وفاقی وزارتوں کے قلمدانوں کی تقسیم سے لے کر شمالی وزیرستان میں آپریشن جیسے اہم امور تک اپنے دیرینہ دوست کو مسلسل نظر انداز کرنے سے دونوں کے درمیان فاصلے اتنے بڑھ گئے کہ چوہدری نثار نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اس دوران لاہوری کشمیری گروپ سے تعلق رکھنے والے وزراء کی طرف سے تنقید ہو یا اپوزیشن کی طرف سے محاذ آرائی، بطور وزیر اعظم نواز شریف نے کبھی اپنا وزن چوہدری نثار کے پلڑے میں نہ ڈالا، یہی نہیں بلکہ پارٹی قیادت کے روئیے سے دل برداشتہ ہونے والے وفادار ساتھی کی ناراضگی کو بھی کسی خاطر میں نہ لایا گیا۔ انکے مشوروں کو اہمیت دینا تو دور کی بات اہم اجلاسوں میں انہیں بلانا چھوڑ دیا گیا۔ عزت کیلئے سیاست کرنے کے نظرئیے کے حامل چوہدری نثار پر سب سے زیادہ تنقید اس بات پرکی جاتی ہے کہ انہوں نے مشکل وقت میں اپنے پارٹی قائد کو چھوڑدیا لیکن انہوں نے ریکارڈ درست کرتے ہوئے یہ باور بھی کرا دیا کہ وہ نہ صرف آزمائش کی ہر گھڑی میں شانہ بشانہ رہے ہیں بلکہ پارٹی صدارت سے لے کر سینیٹ الیکشن تک انہوں نے پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ پارٹی قیادت سے اختلاف رائے کی جرآت رکھنے والے چوہدری نثار کے بارے میں تو چویدری شجاعت حسین بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ جو سچ ہوتا ہے برملا کہہ دیتے ہیں۔ اسی اختلاف رائے رکھنے کے باعث چوہدری نثار میاں صاحب کی موجودہ مشکلات کا ذمہ دار انہیں ہی گردانتے ہیں اور وہ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ جب سپریم کورٹ میں جانے اور جے آئی ٹی میں پیش ہونے پرخود رضامندی ظاہر کی اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تو پھراس کے بعد فیصلوں پر تنقید کا جوازباقی نہیں رہتا۔ چوہدری نثار کی اس دلیل میں بھی بڑا وزن ہے کہ نواز شریف ایک طرف ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے ذاتی ملازم کو سینیٹ کا ٹکٹ دیتے ہیں۔ یہ وہی موصوف ہیں جو کل تک نواز شریف کے پرسنل سیکرٹری تھے لیکن آج سینیٹر کی حیثیت سے خود ساختہ پارٹی ترجمان بھی بنے ہوئے ہیں۔
چوہدری نثار اپنی ذات پر کرائی جانے والی تنقید کا ذمہ دار بھی براہ راست نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو قرار دیتے ہیں اور انہوں نے یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ وہ مزید اسے ہضم نہیں کریں گے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جیسے کہا کہ بطور وزیر اعظم انکے سینے میں بڑے راز موجود ہیں ،سدھر جائیں ورنہ وہ سب بتانے پہ مجبور ہو جائیں گے اسی طرح گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے نواز شریف کی پرچھائی بن کیساتھ چلنے والے چوہدری نثار بھی بہت سے ’’رازوں‘‘ کے امین ہیں۔ آج بھی پارٹی کے ساتھ رہنے والے چوہدری نثار نے میڈیا کی وساطت سے نواز شریف کو بدستور اپنا قائد تسلیم کرتے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی راہ بھی بتا دی ہے۔ بطور پارٹی قائد نواز شریف کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے دیرینہ دوست کو آگے بڑھ کر گلے لگانا چاہئے بلکہ بطور پارٹی کے واحد بانی رکن انہیں وہی مقام دینا چاہئے جس کے وہ حقدار ہیں۔ میاں صاحب چوہدری نثار کی اس بات پر بھی کان دھریں کہ ابھی تک ان کے پاس وزراء سمیت کئی پارٹی ارکان ’رہنمائی‘کیلئے آتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین