• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں 22قومی اسمبلی اور43صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئےبدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کےبعد بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان کےاس معاشی مرکز میں اِن سیٹوں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ اس سب نے منقسم اور پست حوصلہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کو متحدکرنےکیلئےخبردار کردیا ہے تاکہ یہ اپنےاُس نقصان کاازالہ کرسکے جو 22اگست 2016کےبعدایم کیوایم لندن سے اظہارِلاتعلقی اور پارٹی میں تقسیم کےباعث ہوا۔ ہفتے کے روز ہونے والا عوامی جسلہ نقصان کے ازالے کی جانب پہلاقدم تھا اور اس سےظاہرہوتاہے کہ لیڈرشپ کی سطح پرتاحال سب کچھ ٹھیک نہیں ہوادونوں دھڑے اس بات پر رضا مند ہوئے ہیں کہ پارٹی میں جو پوزیشن ان کی ہے اس حوالے سے اعلیٰ قیادت سٹیج پرنہیں آئے گی۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگاکہ کیا آئندہ الیکشن تک پارٹی اصلی حالت میں رہے گی کیونکہ ایم کیوایم کےاندرتاحال بہت سے مسائل موجود ہیں۔ ایم کیوایم اورپی ایس پی کےانضمام کی ناکامی اورسینیٹ الیکشن کےبعدایم کیوایم کوکچھ یقین دہانیوں کے بعد آگےبڑھنےکی اجازت دی گئی اور سوا ئےاس کےکہ انھیں 22اگست سے پہلے کے دفاتر نہیں ملےگئے، انھیں غیرضروری بیرونی دبائو کاسامنا بھی نہیں ہوگا۔ لہذا ایم کیوایم نےجلسےمیں اپنے لاپتہ افرادکی رہائی اوران خاند ا نوں کیلئےانصاف کامطالبہ کیا جن کے افراد کو ماور ائے عدالت قتل کیاگیااور اس حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار نےایس ایس پی رائوانوار کے خلاف نقیب اللہ محسود کیس کی مثال دی۔ ایم کیوایم کی پبلک میٹنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں دھڑوں پر دبائو میں کمی کردی گئی ہے لیکن اس کااندرونی مسئلہ تاحال حل کیاجاناہے۔ اگلا کنوینرکون ہوگا، رابطہ کمیٹی میں کس کو شامل کیاجائےگا، کون ’اندر‘ اورکون ’باہر‘ ہوگا، اس کے علاوہ کئی دیگرمسائل موجود ہیں۔ ان مسائل کے حل کیلئےایم کیوایم کے پاس صرف ایک ماہ ہے، اس میں ناکامی پر دیگر جماعتوں کو جگہ ملے گی۔ سابق ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کامستقبل تاحال غیریقینی کا شکار ہے ۔ سیاست میں نقصان کے ازالے میں اکثروقت درکار ہوتاہےخاص طورپر اس وقت جب پارٹی رہنما ایک دوسر ے پرسنگین الزامات لگائیں۔ پی ایم ایل(ن) اور پی ٹی آئی کو اس مسئلے کا سامناہےلیکن چونکہ ان کےپاس مضبوط رہنماہیں تو وہ نقصان کا ازالہ کرنے کے قابل ہیں۔ ایک دوسرے پرسیاسی حملوں سے عدم اعتماد پیداہواتا اوریہ ہی ایم کیوایم کے ساتھ ہوا۔ گزشتہ چند ماہ میں ایم کیوایم (پاکستان)کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں پارٹی میں پھوٹ پڑی اور سب سے بڑھ کر یہ سینیٹ میں جگہ نہ بنا سکی۔ لہذا ایم کیوایم (پاکستان) ایک پبلک میٹنگ سے بڑھ کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہفتے کوقوت کامظاہرہ کرنےسے یقیناً ایم کیوایم (پاکستا ن ) کے کارکنان اور ووٹ بینک کیلئےامیدپیدا ہوئی لیکن مضبوط چیلنجرز اور ’لندن فیکٹر‘ کے باعث 2013کےنتائج کےقریب پہنچنے کیلئے بہت کچھ کرنےکی ضرورت ہے۔ اس تقسیم کے باعث یقیناً دیگر پارٹیوں کو موقع ملا ہےاور جو لیاقت آباد میں پی پی پی نے کیا وہ ہوشیاری پرمبنی سیاسی کام تھا لیکن بلاول نے شہری سندھ کے اہم مسائل پر بات نہ کرکے حلقے کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنےکاموقع ضائع کردیا وہ سبقت لے جانے کی کوشش کررہےہیں۔ اس کے برعکس لیاقت آباد میں ان کی موجودگی ایم کیوایم کیلئے پریشانی کا باعث بنی۔ لیاقت آباد میں ایم کیوایم کی پبلک میٹنگ پی پی پی کی جانب سے ایم کیوایم کے گڑھ میں حیران کن جسلے کاجواب تھا۔ اب وہ ایم کیوایم کے مضبوط حلقوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اورآئندہ ان کا جلسہ اب گلستانِ اقبال میں 12 مئ کوہوگا، تب عمران خان بھی ایک عوامی جسلے سے خطاب کیلئے کراجی میں ہوں گے۔ دونوں پی پی پی اورپی ٹی آئی نے ایم کیوایم کو شرمندہ کرنےکیلئےقوت کامظاہرہ کرنےکیلئے12مئی کا انتخاب کیاہے، کیونکہ 12مئی 2007کو ایم کیوایم نے سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کی ہدایات پرسابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کراچی میں داخلہ روکنے کی کوشش کی اور اے این پی، پی پی پی اور ایم کیوایم کےدرجنوں کارکن مارےگئےتھے۔ لہذا یہ محض ایم کیوایم اور دیگرکےدرمیان مقابلہ نہیں ہے بلکہ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان بھی مقابلہ ہے، کیونکہ بلاول بھٹوزرداری اور عمران خان دونوں ہی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کیلئے یہ خاص طورپراہم ہے کیونکہ پنجاب میں انھیں سخت مقابلےکاسامناہے۔ لہذا نمبر گیم میں کراچی سے حاصل کی گئیں نشستیں مرکزی جماعتوں کیلئےایک بونس ہوگا۔ لیاری اور ملیر کی روایتی سیٹوں کےبرعکس پی پی پی اب ایم کیوایم کی تقسیم اور نئی حلقہ بندیوں سےفائدہ اٹھاناچاہتی ہے۔ پی پی پی وہاں سےکم از کم مزید دو سے تین قومی اسمبلی کی سیٹیں چاہتی ہےجہاں سے2008اور2013میں رنراپ رہےتھے۔ کراچی کی پاک سرزمین پارٹی جو سابقہ ایم کیو ایم پر مشتمل ہے، اس کے رہنما سید مصطفیٰ کمال اورانیس قائم خانی کو بھی چیلنجز کاسامناہے کیونکہ بڑی جماعتیں کراچی کے انتخابات کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ ایم کیوایم کے دھڑوں میں اتحاد پی ایس پی کیلئے مشکلات کاباعچ بنےگاکیونکہ ان کے ووٹرزیادہ تر ایک ہیں۔

تازہ ترین