• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمندر کھا گیا زمیں کیسی کیسی

ہماری عدم دل چسپی اور غیر مستحکم نظام کے باعث پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں موسمیاتی تبد یلیوں کی وجہ سے مسلسل سمندروں کی سطح بلند ہورہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ،اگر موسم اسی طرح بگڑتے رہے تومستقبل میں کئی ساحلی ملک ڈوب جائیں گے ۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں سے سمندر کی سطح میںسالانہ کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے لیکن اب یہ فکر لا حق ہورہی ہے کہ پانی کی سطح بلند ہونے کی رفتار کئی سینٹی میٹر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے ۔ چند سال قبل کولمبیا یونیورسٹی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں موسموں میں عالمی تبدیلیوں سے سطح سمندر کے بلند ہونے کے قانونی پہلوئوں پر غور کیا گیا ۔کانفرنس میں شر یک آسٹریلیا کی نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی کی پر وفیسر روز میری رے فیوز کے مطابق ہمارے پاس ریاستوں کی تخلیق کے بارے میں قوانین موجود ہیں لیکن کرہ ٔ ارض سے غائب ہو نے والی ریاستوں سے متعلق کوئی قوانین نہیں ہیں ۔کانفرنس کےشرکاء کا کہنا تھا کہ ،ذمہ داروں میں امریکا اور چین کا بہت بڑا ہاتھ ہے ،کیوں کہ ان دونوں ممالک کا شمار صنعتی ملکوں میں ہوتا ہے ۔یہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہائوس گیسیںفضا میں چھوڑتے ہیں جوعالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہیں ۔کولمبیا یونیورسٹی سےو ابستہ میری الینا کار کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ، اس وقت سمندر کی سطح چند ملی میٹر سالانہ کی شر ح سے بلند ہورہی ہے ،مگر 2021 ءتک پہنچتے پہنچتے اس رفتار میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ صنعتی اداروں سے خارج ہونے والی گرین ہائوس گیسیںزمین کی اوپر ی فضا میں حرارت کو روک لیتی ہیں ۔ماحولیات سے وابستہ اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر ز پگھلنے کا عمل تیز ہو جاتا اور سطح سمندر بھی بلند ہوجاتی ہے ۔اس کی سطح میں مسلسل اضافے سے کئی جزیرے ڈوب سکتے ہیں ۔

سمندر کھا گیا زمیں کیسی کیسی

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بڑے ملکوں نے خطرے میں گھرے ہوئے چھوٹے جزائر کی مدد نہ کی تو ایک دن ان کا وجود بھی مٹ جائے گا ۔جزائر پر مشتمل ترقی پذیر چھوٹی ریاستیں ،پوری دنیا کی نگہبان ہیں ،ہمارے ساتھ جو کچھ آج ہو گا ،اس کا خمیازہ باقی سب کو بھگتنا پڑے گا ۔سائنس داں پیش گوئی کررہے ہیں کہ سمندر کی سطح بلند ہونے سے صرف چھوٹے ملکوں کے نہیں بلکہ بڑے ملکوں کے ساحلی علاقے بھی ڈوب جائیں گے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سالانہ 50 ہزار ایکڑ زمین سمند ر بر د ہورہی ہے ۔اس اضافے سے اب تک بلوچستان کا 750 کلو میٹر ،سندھ کا 350 کلو میٹر ،ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں 22 لاکھ ایکڑز زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے 2050 ء تک کراچی ،ٹھٹھہ اور بدین صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔علاوہ ازیں گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کےساتھ ساتھ سمندری پھیلائو کاانتظام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے ،تا کہ قیمتی املاک اور انسانی جانوںکو محفوظ کیا جاسکے ۔ 

دریائے سندھ کا پانی سمندر میں نہ گرنے کی وجہ سے پانی آگے بڑھنے لگا ہے ،اس کے علاوہ یہ سمندر 35 لاکھ زمین بھی نگل چکا ہے ،سیکڑوں گوٹھ ڈوب گئے ہیں اورپانی ٹھٹھہ کے شہر جھرک تک پہنچ چکا ہے ،ساحلی پٹی پر آباد کئی بستیاں غرق آب ہوگئی ہیں ، وہاں کے مکینوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے ۔ڈیلٹا میں میٹھا پانی نہ پہنچنے کے سبب ٹھٹھہ ،بدین اور سجاول کے اضلاع کو سمندر کے کھارےپانی نے تباہ وبرباد کر دیا ہے ،نہ پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے اورمیٹھا پانی نہ ہونے کی وجہ سے سر سبز زمینیں بھی بنجر ہوگئی ہیں ۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، دریائے سندھ کا پانی پہلے 180 ملین ایکڑ فیٹ 400 ملین ٹن مٹی کے ساتھ سمندر میں داخل ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی برسوں سے پانی حیدرآباد سے آگے جانے کے باعث سمندری پانی آہستہ آہستہ دریائے سندھ میں داخل ہوتا جا رہا ہے ۔

پانی سمند ر میں نہ چھوڑنے کی وجہ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آنے والے مینگروز کے جنگلات ختم ہورہے ہیں ۔ماحولیاتی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ، ڈیلٹائی علاقوں میں در یائے سند ھ کا پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے آئندہ 20 سے 25 بر سوں کے اندر تین اضلاع (ٹھٹھہ،سجاول اور بدین )کے ساتھ ساتھ کراچی اور ملیر کی ساحلی پٹی پر آباد کئی بستیاں سمندر کے پانی کی نذر ہوجائیں گی ۔

علاوہ ازیں سمندر کے قر یب ڈام ولیج کو بھی سمندر سے خطرہ لاحق ہے ،یہاں پر صرف تین دن کے اندر اندر 20 ایکڑز زمین سمندر برد ہوچکی ہے ۔ذرایع کے مطابق حب کے ساحلی علاقوں میں ڈام سب سے زیادہ سمندر سے متاثر ہورہا ہے ۔13 ہزار سے زائد باسیوں کے مسکن کو سمندر 6 سے 8 سال کے دوران کافی نقصان ہواہے ۔ڈام ولیج کے قر یب میانی مور میں تیز لہریں 3 میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے بنتی ہیں ،جس کے سبب گزشتہ کئی سالوں سے کافی نقصان ہورہا ہے ۔ 

پاکستان کوسٹ گارڈز کے دفتر کے علاوہ 200 سے زائد دکانیں بھی اس کی زد میں آچکی ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق گوادر اور پسنی کے بعد ڈام کا یہ علاقہ سمندری خوراک کا سب سے بڑا سیکٹر ہے ۔موسمیاتی تبدیلی ،سمندر کی سطح میں اضافہ ، انسانی غفلت ، عدم دل چسپی اور بگڑتے ہوئے ماحول کو نظر انداز کرنا اس تباہی کی اہم وجوہ ہیں ۔ مون سون میں سمندر میں طغیانی اور اونچی لہروں سے علاقے کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو مستقبل میں بڑے نقصان کا خدشہ ہے ۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ حکام اور نجی اداروں کو جلدازجلد اہم اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ،جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

٭ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جائے۔

٭2050 ء تک عالمی حدت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ ہونے دیا جائے بلکہ اسے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے

٭ماحولیاتی ماہرین اور اداروں کو چاہیے کہ ہر پانچ سال بعد اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے۔

٭ترقی پذیر ممالک میںٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے 100 ارب ڈالر سالانہ کی سر مایہ کاری اس عہد کے ساتھ کی جائے کہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا ۔عالمی حدت اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے سندھ کے کچھ ساحلی علاقے پہلے ہی سمندر برد ہو چکے ہیں ۔اب اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ضلع ٹھٹھہ،بدین ،کراچی ،سجاول اور ان سے ملحقہ ساحلی علاقوں کو سطح سمندر میں اضافے سے خطرہ ہے اور آئندہ 25 بر سوں میں ان علاقوں کی بہت ساری زمینیں سمندر بر د ہوجائیں گی ،جب کہ بہت سی زرعی زمینیں سیم اور تھور کا شکار بھی ہوجائیں گی ۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ ضلع ٹھٹھہ کی 24 لاکھ ایکڑ زمین پہلے ہی سمندر کی نذر ہوچکی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے 220 کلو میٹر طویل کوسٹل ہائی وے ، ٹھٹھہ اور بدین کو بچانے کے لیے 225 کلو میٹر دیوار بنانے کا منصوبہ بنایا ہے ،تا ہم آئندہ 50 برسوں میں جب سطح میں 5 سینٹی میٹر کا اضافہ اور موسم میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی تو کیا یہ دیواریں سمندر کوآگے بڑھنے سے روک سکیں گی ؟ماہرین ماحولیات کے مطابق، سندھ کی 615 مربع کلو میٹر زمین کے سمندر برد ہونے کا خدشہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے خطے کے سمندر برد ہوجانے کی وجہ سے بے زمین ،بے روز گار اور بے آسرا لوگوں کی نئے علاقوں میں آباد کاری کا مسئلہ بھی سر اُٹھائے گا ۔

اگر اس کی فی الفور پیش بندی نہ کی گئی تو لاکھوں افراد ا کوپنے ہی ملک میں مہاجرین کیمپوں کا رخ کرنا پڑے گا ۔ اس ماحولیاتی مسئلے کے باعث دنیاتبدیل ہو رہی ہے ۔مختلف ممالک ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے غور وفکر کر رہے ہیںلیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جوموسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہورہاہے۔اس کے لیے متعلقہ حکام اور ماحولیاتی اداروں کو چاہیے کہ اس مسئلے کو اپنی تر جیحات میں شامل کریں ،تا کہ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔

تازہ ترین