• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ2018: خساروں اور قرضوں کابوجھ کون اُٹھائے گا؟

پاکستان کی تاریخ میںغالباً چار پانچ بجٹ ایسے تدوین کئےگئے، جن کو متوازن بجٹ کہا جا سکتا ہے،ایک1951ءمیں جب پاکستان کی توازن ادائیگیاں کورین جنگ کی وجہ سے بہت اچھی تھیں،پھر پانچ سالہ منصوبوں کے تحت جنرل ایوب خان نے بھی ایک دو بجٹ بہتر دیئےاور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب ملک دو لخت ہو گیا تھا،اُس دشوار وقت میں ڈاکٹر مبشر حسن نے ایک دو عوامی بجٹ بہتر دیئے، اس کے علاوہ تمام بجٹ خساروں، قرضوں اور غیر پیداواری اخراجات سے بھر پور عوام دشمن بجٹ بنے۔ 

صنعتی ترقی، اسپتال، کالج، یونیورسٹیاں، صاف پینے کا پانی، ڈیمز، زرعی اصلاحات ،وکیشنل ٹریننگ اور مائیکرو فنانس سے عام آدمی کو کاروبار پر لگانےکا کوئی ذکر کسی بجٹ میں سنائی نہیں دیا۔ اب مسلم لیگ (ن) نے چھٹا بجٹ پیش کیا ہے۔ بجٹ برائے19-1918 کےبارے میں معروف کالم نگار، امیتازعالم بہ عنوان مفتاح اسماعیل کی الوداعی معاشی درفنطنیاں میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اگر ماضی کے صوبائی بجٹ دیکھئے جائیں تو اس بار بھی غریبوں، محنت کشوں کو کچھ زیادہ ملنے والا نہیں۔ 

خواندگی کی شرح ہو یا صحت کا انتظام، پینے کا صاف پانی ہو یا خوراک کی فراہمی، غریب کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اب دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور استحصالی نظام کے ہاتھوں دو پاکستان اپنی انتہائوں پر نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں دولت مندوں اور محنت کشوں اور غریبوں کی دو انتہائی مختلف دنیائیں وجود میں آگئی ہیں اور یہ فرق بڑھتا ہی چلاجاتا ہے۔ ایک طرف امراء اور افسروں کی عالمی معیار پُرآسائشں ہائوسنگ سوساٹیاں اوردوسری طرف غربت اور استحصال کے ماروں کا انبوہِ کثیر‘‘۔

اگر اس حقیقت کو یوں بیان کیا جائےکہ مٹھی بھر اشرافیہ کا 80 فیصدغریبوں کی دنیا پر قبضہ ہو گیاہے، یہ دوانتہائوں کی دنیا ہے، اس میں غریبوں کے لیے کیسے بجٹ بن سکتا ہے۔ یہ سوچنا بھی بے سود ہے کہ اچھا ہو گا۔ ظاہر ہے اشرافیہ کا ایک حصہ پارلیمان میں بھی بیٹھا ہے۔ ابھی مفتاع اسماعیل، جو اسمبلی کےرکن بھی نہیں، جیسے ہی اُنہوں نے تقریر کا اختتام کیا، بزنس مینوں اور انڈسٹریل گروپ جو کرونی کیٹپالزم کی پیداوار ہیں، اُنہوں نے بجٹ کی توصیف کا آغاز کر دیا۔ جب بجٹ میں پاکستان بھر میں، کسی نئے سرکاری اسپتال کی نوید یا تجویز نہیں، کسی سرکاری یونیورسٹی کا اشارہ تک نہیں، سرکاری اسکولوں کی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل کا اعلان نہیں، پینے کے صاف پانی کے لیے کسی پروگرام کا ذکر نہیں، کراچی والوں کے لیے 25 ارب روپے اور سالہا سال پرانا تصور کہ سمندر کےپانی کو ڈی سیلنیٹ کرکے کراچی کے سہمے لوگوں تک پانی کی فراہمی ہو گی۔ 

ایک خواب دے دیا وزیر خزانہ کی حیثیت سے مفتاع اسماعیل نے روپے کی قدرگرنےکے نتائج پر بجٹ تقریر میں کچھ نہیں کہا جو اب 120روپےفی ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جس کے نتیجے میں تمام درآمدی اشیاء مہنگی تو ہوئیں، لیکن اندرون ملک دکان داروں اور بڑے بڑے مالز کے دھن والوں نے قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا۔ مفتاع اسماعیل نے روپےکے استحکام کے لیےبھی کسی اقدام کا ذکر نہیں کیا اور کرتے بھی کیسے ۔ درآمدات 21.4 ارب ڈالر اور درآمدات 55ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، یوں توازن ادائیگیوں کا خسارہ 35 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ برآمدات بڑھیں گی تو روپے کی قدر کی جائے گی، بنگلا دیش 38ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ ویتنام 160 ارب ڈالر،ملائیشیا 300 ارب ڈالر اور پاکستان قدرتی وسائل کے ہوتے ہوئے بھی 21.4ارب ڈالر تک پہنچ پایا ہے۔ 

قرضوں کی حالت یہ ہے کہ اس وقت 89 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور سود کی ادائیگی بجٹ برائے 2018-19 میں 1620 ارب روپے تجویر کئے گئےہیں، جب کہ تعلیم کے لیے 97ارب روپے صحت کے لیے 14 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انرجی جس کا بحران ہے، اس کی مد میں 80ارب روپے ، سڑکوں کےلیے 310 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دفاع کے لیے سود سےکہیں کم رقم 1,100 ارب روپے رکھی گئی ہے، جس طور سے قرضے اور خسارے بڑھ رہے ہیں، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں سرکاری شعبوں میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہوں گی، البتہ 100سے زائد مالداروں کی جو فہرست مرتب کی گئی، جن کی کروڑوں ڈالرز کی جائیدادیں باہر ہیں، ان سے پوچھا جائے گا کہ باہر دولت کیسے گئی اور ان سے ڈالروں میں رقوم لی جائیں، ورنہ پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ 

اس ملک کی بڑی بستیوں میں ایک ہزار روپے کا پان کھانے والا اور کھلانے والا دونوں ٹیکس چور ہیں۔ خود سرکاری ذرائع مانتے ہیں کہ35 لاکھ مالدار انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور نہ ہی سیلز ٹیکس، جو عوام سے لیا جاتا ہے وہ بھی پورا دکھایا نہیں جاتا تو خسارے کیسے ختم ہوں گے۔ پاکستان میں ایک طرف پیسوں کی ریل پھیل ہے، دوسری جانب ایک وقت کی خوراک دستیاب نہیں۔ گندے پانی سے ہر سال 3لاکھ بچے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ اب تو ستم ظریفی یہ ہے کہ بچیاں بچے تشدد اور ظلم کا شکار ہو رہے ہیں ۔ بجٹ کی ستائش کرنے والے کاروباری و صنعتی حلقوں کو کچھ فوائد دیئے گئے ہیں۔ مثلاً پیشگی ان کے ٹیکسوں میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ دیگر محرکات کے ساتھ یہ رقم 184ارب روپے بنتی ہے، جب کہ صحت کے لیے وفاقی بجٹ میں 14ارب روپے رکھے گئے ہیں، نان فائیلرز ٹیکس کے ضمن میں جو ریٹرن نہیں بھرتے اور دستاویزی معیشت سے ڈرتے ہیں، ان پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ 

براں بریں ایل این جی کی درآمد سے لائیو اسٹاک تک، انکم ٹیکس کٹوتی سے سیلز ٹیکس ریلیف، یہ سب کچھ تقریباً تمام شعبوں میں دے دیا گیا ہے، اس لیے ریلیف کی لاگت بہت بڑھ گئی اور ریونیو جو پہلے ہی بہت کم ہے اور بجٹ کا خسارہ تقریباً 1900ارب روپے ہے اور مقامی بینکوں سے قرض بھی لینا ہے، ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے اور باقی 900 ارب روپے کا قرض لیا جائے گا، تاکہ بجٹ کو دھکا دیا جا سکے۔ این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا ہے، اس پر پنجاب کے علاوہ تین صوبے راضی ہوتےہیں یا نہیں، کیونکہ ٹیکس تو صوبوں کے عوام ادا کرتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے لیے 2590ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان کے لیے 233ارب روپے، پنجاب 1882 ارب روپے 649 ارب روپے سندھ اور 426ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رقوم گزشتہ برس سے 11.8فیصد زیادہ ہیں اور مفتاع اسماعیل نے انکم ٹیکس کٹوتی وغیرہ جو کی ہیں تو پھر ریونیو کہاں سے آئے گا۔ خسارہ بجٹ کا کیسے پورا ہو گا۔ 

کیا بجلی اور پیٹرول کے انتہائی نرخ بڑھا کر اگلی حکومت کے لیے عذاب بنانےکی کوشش کی گئی ہے۔ تین بڑے بینک، جو مشرق وسطیٰ کے سرمایہ کاروں نے خریدے ہیں، ایک اطلاع کے مطابق وہ انہیں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر کے فروخت ہوئے اور یہ رقم باہر چلی گئی تو کیا روپے کی قدر 150 روپے فی ڈالر نہیں ہو جائے گی۔ نجکاری کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ جب چاہے خریدنے والا کسی پاکستان کے دشمن کو بھی فروخت کر سکتا ہے، اس سے زرمبادلہ کا قحط پڑ سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت کے لیے کیا بچتا ہے اور کس طرح کم آمدنی زیادہ اخراجات بمع قرضوں اور خساروں سے نبرد آزما ہو گی۔ بجٹ کسی حکومت کا بہت اہم اعداد و شمار میں پالیسی بیان ہوتا ہے، نئے محصولاتی سال کے آغاز میں آمدنی اور اخراجات کی تخمینہ کاری کرتے ہوئے حکومت کی ترجیحات کی سمت مقرر کرتی ہے۔ 

اعلان کردہ بجٹ میں کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ حکومت نے کیسے تصور کر لیا کہ وہ 2019 تک بجٹ بنائے، جب کہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہونے کے باوجود ایک ہزار ارب روپے کے گردشی قرضے کوئی حکومت کیسے ادا کرے گی۔ ریلوے، اسٹیل مل ا ور پی آئی اے کی تباہی سمیت موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے، کچھ نہیں بتایا گیا۔ ریلیف دے کر الیکشن بجٹ بنانا نہایت غلط مثال قائم کی گئی، پھر بجٹ کا حجم 5932.5 ارب رکھا گیا ، جو گزشتہ بجٹ جو اب بھی جاری ہے، اس سے 16.2 فیصد زیادہ ہے۔ ریونیو کی خالص وصولی کی رقم 3070.4 ارب روپے مختص کی گئی ہے۔ ذرائع کی صلاحیت کے متعلق بتایا گیا ہے 4917.2 روپے تک ہو گی۔ سب سے زیادہ انحصار بینکوں کے قرضوں پرکیا گیا ہے۔ نتیجتاً نوٹ چھپیں گے اور افراط زر بڑھے گا۔ 

رواں مالی سال میں 500 ارب روپے مقامی بینکوں سے لیے گئے اسےسو فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے، اس لیے بینک نجی شعبے کو زیادہ قرض نہیں دے رہے۔ صوبوں کو کہا گیا ہے کہ وہ 286.6 ارب روپے سرپلس پیدا کریں، جو ہر سال کی طرح ممکن نہیں۔ اگلے مالیاتی سال کے لیے کُل اخراجات کا تخمینہ 5939.5ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس میں جاری اخراجات کے لیے 4780.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یوں 1152.1 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں شرح نمو 6.2 فیصد رکھی گئی ہے، حالانکہ اس سال کی شرح نمو کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا، اس قدر بڑھانے میں گروتھ اُسی وقت ہو سکتی ہے، جب آپ اپنے ذرائع سے کیش فلو اچھا رکھ سکیں۔ قرضوں اور خساروں میں شرح نمو کنزیومر ازم کو بڑھاتی ہے اور اس تصرف ہی کو شرح نمو سمجھا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ 

ٹیکس جی ڈی بی تناسب 13.8 فیصد رکھا ہے، جب کہ ٹیکس کٹوتی کے بعد35 لاکھ لوگ، جو ٹیکس نہیں ادا کرتےان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدمات نہیں کئے گئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یہاں ترسیلات زر کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہو گی، گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں 88ارب ڈالر باہر سے رقوم آئی ہیں اور ملکی خسارہ 102 ارب ڈالر رہا ہے۔ قرضے 90 ارب ڈار تک پہنچ گئے ہیں، اس میں 51 ارب ڈالر کے چینی قرضے شامل نہیں ہیں۔ ان سارے تلخ اعداد و شمار میں بےروز گاروں کو کہاں سے روز گار ملے گا ۔

یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کتنے لاکھ نوجوان بےروزگار ہیں، گوارد کے لیے137 ارب روپےرکھے گئے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس میں پاکستانی نوجوانوں کی تربیت کا کوئی انتظام ہے، تاکہ وہ سی پیک کے منصوبوں میں حصہ لے سکیں اور سی پیک کے تحت 9 اکنامک زونز میں کیا پاکستانی صنعت کاروں کے ساتھ جائنٹ وینچر ہوسکتے ہیں یا ہم ٹیکنالوجی اور انفرااسٹرکچر میں پس ماندہ ہیں اور پوری طرح سی پیک سے مستفید نہیں ہوسکتے، ویسے بھی گودار میں پاکستان کا حصہ 9 فیصد ہے۔ بجٹ تقریر میں سماجی تحفظ کے بارےمیں بھی نہیں بتایا گیا۔ آڈٹ سسٹم میں جو کرپشن ہے، اس کے تدارک کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا، تاکہ ٹیکس درست وصول ہوں۔ 

چار صدارتی آرڈننس بھی جاری ہوئے، تاکہ کسی طرح ایمنسٹی اسکیم سے رقم وصول ہو، بڑے لوگوں کا اس سے بہت فائدہ ہے، لیکن وہ اپنی بے ایمانی کو افشاں نہیں کریں گے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ ہر شے کو راز میں رکھے گی، اگر دو فیصد ٹیکس ادا کرکے سیاہ کو سفید کر لیں، لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ سب سے زیادہ دولت رئیل اسٹیٹ میں پوشیدہ ہے، البتہ پیٹرول کی لیوی میں دس روپے سے بڑھا کر 20روپے فی لیٹر کر دی جائے گی، جس سے ٹرانسپورٹ کی لاگت بہت بڑھ جائے گی۔ اس بجٹ کے تحت کوئی نئی حکومت کام نہیں کر سکتی۔ صرف مالداروں کی بلیک منی ہی سے زبردستی رقوم لے جا سکتی ہیں، ورنہ ملک کا معاشی طورپر چلنا محال ہوگا۔

تازہ ترین