• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت کی تباہی بحیثیت مجموعی قومی اورعلاقائی سیاسی جماعتوں کےعدم استحکام اور ان کی جملہ قباحتوں، عوامی خدمات کے بیشتر اداروں کی حالت زار، پارلیمینٹ کی غیرمعیاری کارکردگی وفاقی اورچاروں صوبوں کی مجموعی مایوس کن گورننس اور سب سے بڑھ کر کرپشن کی بدترین اشکال کے باعث ملکی صورتحال یقیناً تشویشناک ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں مہلک اور بے لچک روایات چیلنج ہو کر ٹوٹ پھوٹ کے عمل میںآگئی ہیں۔ آئیڈیل نہیں تو بہت غنیمت میڈیا منتخب حکومتوں کا ان کے قیام سے ہی پرفارمنس آڈٹ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر رہاہے، جسے کھوٹے سیاستدان میڈیا ٹرائل قرار دے رہے ہیں، حالانکہ یہ (مانیٹرنگ اینڈرپورٹ بیک) اس کا بڑھتا نیا کردار اور پروپیپل پروفیشنل ایجنڈا ہے۔ فوج ملکی سلامتی میں آئین و قانون کی بالادستی اور بلارکاوٹ جمہوری عمل کی ثابت شدہ حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہوئے دفاع وطن کے نئے تقاضوں کے مطابق بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرچکی اور کر رہی ہے خصوصاً دہشت گردی اور نئے اور وسعت اختیارکرتے ملکی سلامتی کے بیرونی اور اندرونی خطرات کے حوالے سے اس کی کامیابیاںآشکار بھی ہیں اور ابھی پوشیدہ بھی۔ اطمینان بڑھ رہا ہے کہ ہماری افواج کا فوکس پروفیشنلزم پر ہے اور انتظامیہ سے اپنے اشتراک کو آئینی فریم میں ہی قائم رکھنے میں کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں خاندانی اجارہ داری کے خلاف بغاوت یا اس کی بیخ کنی کی کوئی نتیجہ خیز اجتماعی یا گروہی کوشش تو ابھی نہیں ہو پا رہی، تاہم انفرادی اور باشعور اور غیور ننھے گروپس کی کوششیں بھی رنگ تو دکھا رہی ہیں۔ سیاسی کارکنوں میں خودغرض قائدین کے Confirmist (ہرحالت میں تائیدی) بنے رہنے کا پارٹی جذبہ کچھ ماند پڑتا معلوم دے رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر اور شدید سیاسی و حکومتی بحران میں بھی ہمت باندھنے والا عمل یوں جاری ہے کہ جیسی تیسی لیکن سیاسی جماعتوں کی منتخب حکومتوں کا عشرہ (2008-18) مکمل ہواچاہتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا عشرہ ہے جس میں، یک نہ شد دو شد، دومنتخب حکومتیں اپنے اقتدار کی آئینی مدت مکمل کرچکیں، وگرنہ پاکستان کے اس سے قبل کے ساٹھ سال میں کوئی ایک منتخب سیاسی (بمطابق آئین) حکومت ایسی نہیں جس نے اپنے آئین کے اقتدار کی مدت مکمل کی ہو۔ یہ حقیقی جمہوریت اور آئینی پاکستان کی جانب انتہائی حوصلہ افزا عشرہ ہے، جس کے لئے افواجِ پاکستان سمیت پوری قوم نے اقتدار کی دوباریاں مکمل کرنے والی دونوں پارلیمانی قوتوں پی پی اور ن لیگی حکومتوں کی ’’بدترین جمہوریت‘‘ کے تباہ کن نتائج کو بھی بھگت لیا لیکن بالآخر ان کا یہ شکوہ دور کردیا کہ انہیں اقتدار کی آئینی مدت مکمل نہیں کرنے دی جاتی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بدترین جمہوریت کو ملک و قوم اور جمہوریت کی خاطر صبر جمیل سے برداشت کرنے کا قدرتی نتیجہ یوں نکلا کہ پاناما لیکس کے تناظر میں حکمرانوں کا ٹاپ۔ڈائون احتساب (بمطابق آئین و قانون )کی ان ہونی، ہونی ہوگئی۔ پھر یہ حکمرانوں اور کسی مخصوص جانب تک محدود نہیں رہا اس کا دائرہ مطلوب درجے کی طرف بڑھ رہا ہے، یوں اعتماد بھی۔ واضح رہے مردہ نیب کا زندہ ہونا پاکستان میں حقیقی جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کا سب سے بنیادی اور بڑا لازمہ بھی تھا۔ پھر نیب کی یہ مسیحائی بھی کوئی دنیاداری یا سیاسی دکانداری سے نہیں بقول صدر مملکت آسمان سے اتری۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں مشکلات اور تشویش میں آج تک جکڑا پاکستان بھی تابناک بنتا نظر آرہا ہے۔ آئین و جمہوریت کا کیا کمال ہے کہ ن لیگی حکومت کے ساتھ کوئی غیر آئینی و قانونی سلوک ہوئے بغیر حکمران خاندان کا مطلوب احتساب جاری و ساری ہے۔ اور رواں ماہ کی 28تاریخ کون لیگ اپنے اقتدار کی تیسری باری پہلی مرتبہ مکمل کر رہی ہے۔ ن لیگی وزیراعظم کی انتظامی تابعداری میں ہی نیب اپنے آئینی کردار کی سربراہی میں سرگرم عمل ہے۔ احتسابی عمل کو آئینی و قانونی ہی رکھنے اور عوام الناس میں اس کا اعتماد پیدا کرنے میںپاکستان کی نئی روپ (آئینی و قانونی) کی عدلیہ کا کردار توتاریخ پاکستان کا سنہری باب بن گیا۔ عدلیہ کے فیصلوںپر تنقید کو بھی سامنے رکھا جائے تو عدلیہ کے کردار کی ادائیگی کے دوران، اس ارتقائی عمل میں پروفیشنل انداز میں کوئی کمی بیشی اس پاکستانی قوم کے لئے بآسانی ہضم ہونے کے شواہد واضح ہیں جس نے دونوں پارلیمانی طاقتوں کے اقتدار کو ان کی بدترین اور تباہ کن دھماچوکڑی کی باریاں اپنے صبر اور اجتماعی سیاسی شعور سے مکمل کرائیں۔
اس سار ے پس منظر میں ماس کمیونی کیشن کی تھیوری آف سوشل رسپانسبیلٹی کے مطابق بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ الیکشن 18ء کو آئین و قانون کے مطابق کرانے اور خصوصاً الیکشن کمیشن کو بمطابق آئین اور قومی وقتی ضروریات کے اپمیاورڈ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور اسے اپنا ترجیحی ایجنڈا بنائے۔ الیکشن کے بعد، اگرخدانخواستہ انتخابات بدستور مشکوک اور متنازع ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن کی خامیوں اور ذمہ داری پر مبنی خبریں بے معنی ہوں گی۔ اس کے لئے میڈیا کو انتشار زدہ جماعتوں کے سیاسی ابلاغ کی کوریج کوکم کرکے اب منصفانہ اور قابل اعتمادانتخابات کے انعقاد کی ضروریات پر مبنی پریشر نیوز اور کرنٹ افیئرز پروگرام آنے والے وقت کے لئے پورے پاکستانی میڈیا کا پیشہ ورانہ چیلنج ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں آزادی صحافت کی صورت آئیڈیل صورتحال نہیں لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ پاکستانی صحافت اپنے کردار سے نتیجہ خیز ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے ا ور ملکی صحافت اتنی آزاد ضرور ہے کہ وہ اپنے اس پوٹینشل ا ور صلاحیت کا اظہار بغیر کسی رکاوٹ اور پیشہ ورانہ حکمت سے کرے۔ یہ ملک کے ہر ابلاغی ادارے کا چیلنج ہے کہ ان کا باہمی پیشہ ورانہ مقابلہ اسی حوالے سےمطلوب ہے۔ وما علینا الاالبلاغ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین