• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ایک دوست مری روڈ کے قریب ایک محلے میں رہتا ہے۔تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہے ۔عموماً تعلیمی معاملات پر مجھ سے فون پر طویل بات چیت کرتارہتا ہے۔ لیکن بات کرتے کرتے وہ مجھے اکثر کہا کر تا ، علی بھائی ایک منٹ ذرا جہازگزر جائے۔ دراصل میرے اس دوست کا گھر عین بے نظیرایئر پورٹ کے رن وے کی لین کے سامنے آتا ہے یعنی جب جہاز ٹیک آف کرتا ہے یا لینڈ کرنے کی پوزیشن میں رن وے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے ان کے مکان کی چھت کے تقریباً اوپر سے گزرتا ہے اورجہاز کی گڑ گراہٹ سے میرا دوست کال کررہا ہو۔ گھر والے ٹی وی ڈرامہ دیکھ رہے ہوں۔یا بریکنگ نیوز سن رہے ہوں ایک بار یہ سب کچھ سننے میںضرور خلل ہوتا ہے ۔گزشتہ روز میری ان سے فون پر بات ہورہی تھی تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کسی شے کی کمی ہے۔ہم نے تقریباً نصف گھنٹے بات کی اور میرے اندر یہ احساس بڑھتا گیا کہ کس شے کی کمی ہے۔میںنے اپنے دوست سے پوچھا فرید تم نے موبائل نیالیا ہے یا کچھ اور بات ہے کیونکہ مجھے کچھ عجیب عجیب محسوس ہورہا ہے تو فرید نے جھٹ کہا علی بھائی موبائل بھی وہی ہے میں بھی وہی ہوں۔البتہ ہمارے نزدیک بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ ویران ہوگیا ہے۔ اب نہ جہاز لینڈ کرتا ہے ،نہ ٹیک آف کرتا ہے ،نہ جہاز کی گڑگڑاہٹ ہے اور نہ ہی ہمارے فون سننے میں یا ٹی وی دیکھنے میں کوئی خلل ہے اور میری بہن کے چھوٹے بچے جو عموماً ہمارے گھر آکر ضد کیا کرتے تھے کہ چھت پر جا کر رن وے سے اڑتا جہاز دیکھنا ہے ان کی یہ ضد بھی ختم ہوئی۔ لیکن علی بھائی جن جہازوں کے شور سے ہم تنگ تھے اب ان کو مس کرتے ہیں ،ایسا معلوم ہوتاہے کہ گھر کاکوئی فرد کم ہوگیا ہے۔ یہ تو میرے دوست کی کھتا تھی۔ لیکن یہی کچھ میں نے بھی محسوس کیا ہے۔ کبھی کبھی جب میں اسلام آباد جانے کے لیے ایئر پورٹ اور پھر سپر ہائی وے کا روٹ استعمال کرتا تھا اور کرتا ہوں تو ایئر پورٹ کے قریب تمام رونقیں ماند پڑگئیں ہیں۔ ایئر پورٹ کے داخلی راستے پر جہاں راول لائونج، ڈراپ لین پارکنگ اور فاسٹ ٹریک کے ایرو لگے بورڈ آویزاں تھے اور گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں ہوتی تھیں اب وہاں داخلی راستے کو بڑے بڑے سیمنٹ کے بلاک لگا کر بند کردیاگیا ہے۔ موجودہ حکومت جو رواں ماہ کے آخر میں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر نئے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہوجائے گی، اس نے کریڈٹ لینے کے لیے نئے ایئر پورٹ کاافتتاح تو جلدی جلدی کردیا ہے لیکن اس جلدی میں وہ نئے ایئر پورٹ پروہ سہولیات نہیں دے سکے جو کسی بھی ایئر پورٹ کے لیے ضروری ہوتی ہیں ۔مسافروں کوآنے جانے میں بہت دقت پیش آرہی ہے ایئر پورٹ پر ٹرالیاں موجود نہیں ہیں۔جہاز تک سامان لے جانے اورلانے والے کنٹینرز اور ٹرالے کم ہیں۔ ایئر پورٹ کے گرائونڈ کے عملے کو ابھی تک خود معلوم نہیں کہ وہ کس طرح سے مسافروں کی رہنمائی کریں یا کسی بھی مشکل میں وہ خود کو کس طرح حالات کے مطابق ڈھالتے ہوئے آسانی پیدا کریں۔ دیکھیں اب اس ائیر پورٹ کو مکمل طور پر فعال ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے۔لیکن مجھے زیادہ فکر اس لڑکے کی ہے جو مجھے ایئر پورٹ کے قریب ایک پٹرول پمپ کے قریب ملا۔لڑکے کا نام حماد ہے۔ وہ بانہوںمیں بہت سارے مصنوعی پھولوں کے ہار لٹکا کر گھوم رہا تھا۔ میں نے اسے کہا تم یہاں کیا کررہے ہو اس نے کہا جی میں گزشتہ ایک سال سے یہاں ہار بیچ رہا ہوں۔ میرا باپ ہسپتال میں داخل ہے میں ان کی تیمار داری میں مصروف رہا۔ اورمجھے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ایئر پورٹ یہاںسے شفٹ ہوکر دور چلاگیا ہے ۔میں نے کہا کہ نئے ایئر پورٹ پر چلے جائو۔کہنے لگا مجھے تو نئے ائیر پورٹ کا نہ راستہ معلوم ہے اورنہ میرے پاس اتنا کرایہ ہے کہ میں وہاں جاسکوں یہاں میں قریب ہی رہتا تھا روزانہ دو سو سے پانچ سو روپے کی دیہاڑی لگ جاتی تھی۔ٹریفک پولیس یا ایئرپورٹ سیکورٹی فورس والے کبھی کبھی ہم پر ڈنڈے برسا دیتے تھے اور ہم ایئر پورٹ سے دور چلے جاتے تھے لیکن پھربھی دائو لگاکر دیہاڑی لگا ہی لیتے تھے۔ اب نہ یہاں حاجی(عمرہ اور حج کرنے والے) آئیں گے اور نہ ہی ان کے استقبال کے لیے آنے والے مجھ سے ہار خریدیںگے۔ میں نے ضرورت نہ ہونے کے باوجود حماد سے ہار تو خرید لئے لیکن میرے پاس اس کے اگلے سوال کا جواب نہیں تھا کہ صاحب مجھے کہیں سر کا ری ملا زمت دلا سکتے ہیں؟
twitter:@am_nawazish
SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین