• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی چیک کی غیر موجودگی میں اور سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے مشہور نیب کا بطور آلے کے طور پر استعمال جاری ہے، جس کی مدد سے کسی کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور کسی کو پھانس لیا جاتا ہے، جس سے کچھ شرمناک قسم کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں تاہم ایسا کوئی نہیں ہے جو نیب کو لگام دے سکے۔آج اگر نیب کی توجہ کا مرکز حکمران جماعت ن لیگ اور ان کی اعلیٰ قیادت ہے تو ماضی میں ان کا اصل ہدف پیپلز پارٹی رہ چکی ہے۔تاہم سول بیوروکریٹس ہمیشہ ہی نیب کے لیے آسان ہدف رہے ہیں۔نیب کو جب کبھی بھی کچھ مناسب لگتا ہے تو وہ وقت سے قبل ہی اپنے ہدف کو بدنام کرنا شروع کردیتا ہے ، جس میں اکثریت سیاست دانوں کی ہوتی ہے، تاہم بعد ازاں وہ اپنے پہلے کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر اپنی توجہ کا مرکز کسی اور کو بنالیتا ہے۔وہ انکوائریوں اور تحقیقات کا آغاز کرتا ہے اور جب اسے کنٹرول کرنے والوں کا ایجنڈا پورا ہوجاتا ہے تو وہ اسے بند کردیتا ہے، جس کے بعد وہ اسے اس وقت دوبارہ کھولتا ہے جب کسی کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچانا ہو۔ایسا اس وقت سے ہورہا ہے جس سے اس کا قیام عمل میں آیا ہےلیکن ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ نیب کے کسی بھی چیئرمین کامختلف انکوائریوں اور تحقیقات کو طویل عرصے تک جاری رکھنے پر احتساب کیا گیا ہو، یہاں تک کے ان کیسز میں بھی ایسا نہیں کیا گیا جنہیں سیاسی مقاصد کے لیے ایک عشرے سے بھی زائد جاری رکھا گیا ہو۔اسی طرح اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے نیب وقفے وقفے سے مبینہ کرپٹ لوگوں کے خلاف کریک ڈائون کرتاہے اور مبینہ طور پر اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات قائم کرتاہے۔تاہم، احتساب کا کوئی ایسا طریقہ کار نہیں ہے جس سے ان لوگوں کو سزا دی جاسکے جو غلط طریقے سے لوگوں کو کرپشن کے مقدمات میں پھنساتے ہیں۔فی الوقت جہاں نیب مستعدی کے ساتھ شریفوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کررہا ہے، وہیں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ تقریباًایک عشرے قبل جو درجنوں این آر او مقدمات دوبارہ کھولے گئے تھے ان کے ساتھ کیا ہوا۔2009میں جب سپریم کورٹ این آر او کو واپس لے رہی تھی تو تمام کرپشن مقدمات دوبارہ کھولے گئے تھے اور نیب کو ہدایت کی گئی تھی کہ انہیں منطقی انجام تک پہنچائے۔تاہم، آج تک شاید ہی کسی این آر او مقدمات کے ملزم کو سزا دلوا کر جیل بھیجا گیا ہو جب کہ نیب کی دوستانہ پراسیکیوشن کے ذریعے کچھ شرمناک قسم کی رہائیاں ضرور ہوئی ہیں۔بدقسمتی سے نیب کا یہی کردار رہا ہے کہ ایک این آر او مقدمے میں نیب نےاپنے ہی مفرور شخص کو(دوسرے کیس میں)بطور پراسیکیوشن گواہ کے طورپر پیش کیا تاکہ ملزم کو فائدہ پہنچا سکے۔ صرف یہ ہی نہیں اس کے اپنے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر اقرار کیا کہ نیب نے ساز باز کرکے اپنے منظور نظر ’’ملزم‘‘ اور جو ، ان کے فرماں بردار بن گئے ان کے خلاف انکوائریاں چھوڑ دیں ، ایسے مواقع بھی آئے جب نیب اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہوا پایا گیا۔لیکن نیب کے خلاف کوئی اس وقت کوئی اقدام نہیں کیا گیا جب وہ تحقیقات میں ساز باز، جھوٹے مقدمات بنانےمیں ملوث پائی گئی یا دوستانہ پراسیکیوشن میں ملوث ہوئی یا اسے سیاسی طور پر آلے کے طورپر استعمال کیا گیا۔صرف حال ہی میں جنرل ریٹائرڈ مشرف کا نام لیے بغیر سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس میں نیب کو اس کے ہی قانون کی یاددہانی کرائی، جس کے تحت اس شخص کو 10برس تک جیل ہوسکتی ہے جو نیب کی کسی بھی تحقیقات میں مزاحم ہو یا اسے شکست دے اور اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ نیب نے ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جس نے نیب کی تحقیقات کو خطرے میں ڈالا۔2017میں آخری تین اہم کرپشن ریفرنسز، جس میں اثاثوں، کوٹیکنا اور ایس جی ایس کے مقدمات شامل ہیں جو کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف تھے ، انہیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے حق میں خارج کردیا گیاکیوں کہ اس سے متعلق اصل دستاویزی ثبوت موجود نہیں تھے جو کہ کھو گئے تھے۔یہ کھویا ہوا ریکارڈ کہاں ہے؟اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟اس اہم مسئلے پر کسی آزاد انکوائری کا حکم کیوں جاری نہیں کیا گیا؟یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی جواب طلب ہیں۔نیب کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی ایک اور انوکھے اسکینڈل میں غیر متحرک ہے جو کہ پاکستان کے فوجداری انصاف کے نظام کی تاریخ سے متعلق ہےیعنی مختلف ہائی پروفائل کرپشن مقدمات میں مختلف احتساب عدالتوں کی جانب سے فیصلوں کی نقول کرنا۔یہ مسئلہ نہ صرف نیب کے مشکوک کردار سے متعلق ہے اور مبینہ طور پر ججوں کے سنگین نوعیت کے ناشائستہ کاموں میں ملوث ہونے سے متعلق ہے بلکہ اس کا تعلق مقدمات کے قطعیت سے بھی ہے جن کا فیصلہ بااثر ملزمان کے حق میں مشکوک انداز میں کیا گیا۔جو سب سے حیرت انگیز بات ہے وہ یہ ہے کہ یہ طے ہونے کے باوجود کہ سنگین نوعیت کے غلط کام کا ارتکاب ہوچکا ہے، (1)متعلقہ ججوں کو بغیر سزا کے ریٹائر ہونے کی اجازت دی گئی اور انہیں مکمل پینشن کے فوائد بھی دیئے گئے اور (2)کرپشن کے وہ مقدمات جن کا فیصلہ مشکوک انداز میں دیا گیا ان پر کبھی نظر ثانی نہیں کی گئی۔نیب نے بھی ان متنازعہ فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے سے اجتناب کیا۔نیب نےاپنے ہی ان لوگوں کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز نہیں کیا جو کہ دوستانہ پراسیکیوشن میں ملوث تھے۔دی نیوز نے 2011میں ان رسوا کن مماثلتوں اور کچھ دیگر تنازعوں کا جو کہ راولپنڈی احتساب عدالت کے فیصلوں سے متعلق تھی ، کا انکشاف کیا تھا۔یہ فیصلےراولپنڈی کی احتساب عدالت نمبر III نے 2011میں دیئے تھے۔کوٹیکنا کا فیصلہ ہوبہو ایس جی ایس مقدمے کی نقل تھا، جس کا حکم نامہ راولپنڈی کی احتساب عدالت نمبر IIنے جاری کیا تھا۔نہ صرف دونوں فیصلوں کو ایک ہی طرح سے حتمی نتیجے پر پہنچایا گیابلکہ حیرت انگیز طور پر اس میں متعدد ایک جیسے الفاظ، اظہاریے یہاں تک کے پیراگراف بھی تھے ۔اکیڈمک لحاظ سے اسے ادبی سرقہ کا ایک بہترین کیس بھی سمجھا جاسکتا ہے۔مماثلتوں سے قطع نظر ایس جی ایس کیس اور کوٹیکنا کیس کے دونوں فیصلوں پر دو مختلف ججوں کے دستخط تھے ، جن کا تعلق دو مختلف عدالتوں سے تھا۔ایس جی ایس کا فیصلہ احتساب عدالت نمبر II نے دیا تھا ، جب کہ کوٹیکنا کا فیصلہ احتساب عدالت III نے سنایا تھا۔ان مقدمات کے ٹرائل میں آصف علی زرداری شامل نہیں تھے ، جو کہ اس وقت صدر کے عہدے پر تھے ، اسی سبب انہیں آئینی استثناء حاصل تھا۔صرف ان کے شریک ملزمان کا ٹرائل کیا گیا تھا۔دی نیوز کے اسٹوری بریک کرنے کے بعد یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ بھجوایا گیا۔جس نے دونوں احتساب عدالتوں کے ججوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی معائنہ ٹیم نے دی نیوز کی ستمبر 2011کی رپورٹ کی توثیق کردی تھی۔دی نیوز کی رپورٹ کو لاہور ہائیکو رٹ کی معائنہ ٹیم کو ریفر کیاگیا جس نے ان دو فیصلوں میں پہچان کے نقوش پائےگئے جس کیلئے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے دو ججوں کیخلاف ایک انکوائری کا حکم دیا گیا تھا ۔دوسری جانب انکوائری کے دوران ہی دونوں احتساب عدالت کے جج ریٹائرمنٹ کی عمر کوپہنچ گئے جس کے نتیجے میں چلائی جانیوالی انکوائری بند ہوگئی ۔ان ریٹائرمنٹس نے اگرچے دونوں ججز کو ممکنہ سزا کا سامنا کرنے سے بچالیا اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ متنازعہ فیصلوں کا پھر سے ٹرائل نہیں کیاگیا اور نہ ہی نیب نے ان فیصلوں کیخلاف اپیل کی ۔ایس جی ایس کیس کا فیصلہ 30 جولائی 2011 کو دیا گیا جبکہ کوٹیکنا کیس آرڈر 16 ستمبر 2011 کو دیاگیا ۔ان دونوں فیصلوں کے درمیان حیرانگی اور ناقابل یقین مشابہت تھی ،باوجود اس کے کہ دونوں ریفرنسز ابتدا سے ہی جدا رہے ہیں ۔یہاں یہ بھی واضح کرنا دلچسپ ہے کہ اے آر وائی گولڈ ریفرنس اور ایس جی ایس ریفرنس کیس ،فیصلے احتساب عدالت کے نمبر 2 راولپنڈی کے اسی جج نے لکھا اور 30 جولائی 2011 کو سنایا گیا،ان دو فیصلوں میں کچھ الگ انکشاف ہوئے ،اس میں انتہائی اہم یہ ظاہر ہوا تھا کہ سابق سیکریٹری خزانہ اور پھر ورلڈ بینک ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو ایس جی ایس کیس میں گواہان قبول کرلیاگیا جبکہ اسی طرح کی انفرادیت اے آر وائی گولڈ ریفرنس میں بتائی گئی تھی۔نیب پراسیکیوشن اور احتساب عدالت جج نے کیسے بدنام کن حقائق میں ناکام رہے اور آج تک تحقیقات نہیں ہوئی ۔ہفتے کو بابر ستار نے دی نیوز میں اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ کیسے سنگدلی سے نیب نے دوسروں کی نیک نامی کو تباہ کیا ۔انہوں نے کہاکہ نیب نے اپنی مرضی کے مطابق کسی کو بھی گرفتار کیااور اربوں کی لوٹ مار کی پریس ریلیزیں جاری کیں اور تصاویر بھی جاری کیں ۔اور اب تک اسکینڈل بے نقاب کرنے والے کسی جرم کو نہیں دکھایا ۔پھر انہوں نے نیب کی حالیہ کامیابی کا حوالہ دیا اور بتایاگیا کہ نیب نے بڑی مچھلی کیخلاف کارروائی شروع کردی ہے ۔گزشتہ ماہ یہ بریکنگ نیوز تھی کہ سابق سیکریٹری اور دی ڈی اے چیئرمین امتیاز عنایت الہی کو گرفتار کیاگیاہے ۔نیب نے اسے 431 ملین روپے کرپشن کیس کا پروجیکٹ بتایا ۔چیئرمین نیب نے الہی کے گرفتار ہونے کی توثیق کی تھی ۔احتساب عدالت نے ملزم کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ دیا نیب لاک اپ میں تفتیش کی غرض سے سات روز رکھنے کے بعد الہی کو اڈیالہ جیل بھیج دیاگیا ۔بالآخر اپریل کے آغاز میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی ۔ستار کاکہنا تھا کہ وہ جو الہی کو ذاتی طور پر یا سول سرونٹ میں ان کی ملازمت کو نہیں جانتے اور ان کی گرفتار ی پر خبروں میں ہی جان سکے ۔انہوں نے خیال کیاہوگا کہ اس نے غلط طریقے سے پیسہ بنایا اور اب انجام کا سامنا کررہا ہے ۔اب حتیٰ کہ اگر نیب ان کیخلاف کوئی ریفرنس فائل نہیں کرتی یا وہ ٹرائل کے بعد بے گنا ہ ثابت ہوجاتے ہیں تو وہ کئی ایسوں کی نظر میں مجرم ہیں جنہوں نے ان کے کیس کے حقائق کو نہیں سنا ہوگا ۔ان کی گرفتار ی اور دنیا کے سامنے انہیں کرپٹ بیورو کریٹ بتادینے سے نیب نے ان کی آزادی اور ایمانداری کو ختم کردیا ۔اب جو بھی ہوتا رہے یہ نہیں ہوسکے گا ۔دوسری جانب ستار کے مطابق اسلام آبادہائی کورٹ کی ضمانت کے حکم میں یہ حقائق سامنے آئے کہ سال 2009 میں سی ڈی اے چیئرمین ہوتے ہوئے الہی نے احکامات دیے کہ زیرو پوائنٹ کے قریب کلچر سینٹر کی تعمیر کو روکا جائے ۔انہیں معلوم ہوا تھا کہ پروجیکٹ کا خیال غلط ،اس میں فزیبلیٹی اور ماحولیاتی اثرکوا نہیں دیکھا گیا اور یہ مالی طور پر بھی برداشت سے باہر ہوگا ۔انہوں نے حکم دیا کہ پروجیکٹ کا گنجائش ریشنلائز ہوسکتی ہے اور اس کو مالی طور پر کم کر کے بنایا جاسکتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ سالک 2014 میں آڈیٹر جنرل نے پروجیکٹ میں غلط پلاننگ کی نشاندہی کی تھی اور پبلک اکائونٹ کمیٹی نے احکامات دیے تھے کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے15 دسمبر 2017 کے اے جی پی آر کے ایک خط کا حوالہ دیا ،جس میں کہا کہ اس کی دوبارہ تاکید کی جارہی ہے کہ غلط پلاننگ کے معاملے کی نیب کی جانب سے دوبارہ تحقیقات کی جائیں اور پروجیکٹ کے کام کو نہ روکا جائے ۔لیکن نیب آگے بڑھا اور بیورو کریٹ کو گرفتار کرلیا ،جنہیں دس روز پہلے غلط پلاننگ پر شناخت کیاگیا اور ایسے عمل کرنے کی کوشش کی کہ عوامی فنڈز کا تحفظ کیاجارہا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ نیب حکام نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ مالی فوائد ،رشوت ،پٹشنرز کیخلاف کوئی الزامات نہیں ہیں یا عوامی خزانے کو نقصان کا سبب بنے ہیں ،جیسا کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 میں کہاگیا ہے ۔ضمانت کے معاملے میں عدالت نے کیس کی گہرائی کو نہیں دیکھا لیکن حکم سے پتہ چلتا ہے کہ الہی کیخلاف کیس تمام تر صرف یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا کام رکوا دینا غلط تھا ۔ستار نے مزید کہا کہ 37 سالہ پبلک سروس کے بعد الہی آدھی رات کو اپنے گھر سے گرفتار ہوئے ،ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیاگیا ،سات روز تک نیب کے لاک اپ میں رکھا گیا اور پھر جیل بھیج دیاگیا ۔ان کا جرم کیاتھا ؟ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پرنسپل اکائونٹنگ افسر کے طور پر انہوں نے پروجیکٹ پر کام رکوا یا ،انہیں غلط دیکھا گیا لیکن کوئی یہ نہیں جانتا ہوگا ۔جب انٹرنیٹ پر کوئی ان کا نام تلاش کرتا ہے تو انہیں لاکھوں کی کرپشن میں ملوث پایا جائے گا ۔انہوں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ معذرت خواہانہ طور پر گزارا جسے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک غلط بابو نہیں ہے۔ بابر ستار نے جو کچھ اپنے آرٹیکل میں پیش کیا وہ صرف ایک مثال ہے کہ کیسے مشکوک کاموں کے احتساب کے بغیر ہی نیب نے کئی کی زندگیاں تباہ کردی ہیں ،چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال اور بیورو کے ترجمان نواز علی سے گزشتہ چند روز کے دوران ان کے موقف کیلئے موبائل کالز اور نمائندہ کی جانب سے ایس ایم ایس کیے گئے لیکن ان کی جانب سے جواب نہیں دیاگیا ۔

تازہ ترین