• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشین گیمز 2018 کے لئے ترجیحات کا تعین کریں

شاہد شیخ

کامن ویلتھ گیمز کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کو ایشین گیمز کا چیلنج درپیش ہے، چار برس قبل پاکستان نے ایشین گیمز کے جن کھیلوں میں شرکت کی ان میں بیڈ منٹن (ڈبل مینز اینڈ ویمن)، بیس بال، باکسنگ ڈبل، سائیکلنگ، ہاکی، فٹ بال، جمناسٹک، جوڈو، کبڈی، کراٹے روئنگ، رگبی، شوٹنگ، (ڈبل)، سوئمنگ ڈبل ، ٹیبل ٹینس (ڈبل)، تائیکو انڈو (ڈبل)، ٹینس (ڈبل) والی بال، ویٹ لفٹنگ، ریسلنگ اور ووشو شامل تھے، ویمن کرکٹ ٹیم نے گولڈ میڈل حاصل کیا، ہاکی ٹیم دوسرے نمبر پر رہی، ووشو، کبڈی اور باکسنگ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کھیلوں کے ویٹ لفٹنگ، ریسلنگ مقابلوں میں چین، کوریا، جاپان وغیرہ کی موجودگی میں ہمارے کھلاڑیوں کی حیثیت کیا تھی اور اولمپکس میں گولڈ میڈل لانے کا دعویٰ کرنے والے چار ماہ بعد ایشین گیمز میں کہاں ہوں گے، ان ایشین گیمز میں 37ممالک کے درمیان ایک ایک گولڈ میڈل کے ساتھ پاکستان اور تاجکستان کی مشترکہ23 ویں پوزیشن تھی، پاکستان نے 182کھلاڑیوں کے ساتھ 23کھیلوں میں شرکت کی، ہم ہاکی، سکواش، (مینز ٹیم ایونٹ) اور کرکٹ میں اپنے اعزاز کے دفاع کرنے کے لیے گئے تھے لیکن صرف ویمنز کرکٹ چیمپئن کا اعزاز بحال رکھ سکے۔ اس مرتبہ ایشین گیمز میں کرکٹ شامل نہیں ۔

ایران کے ریسلر کامن ویلتھ گیمز میں موجود نہیں تھے۔ چار ماہ بعد ایشین گیمز انڈونیشیا کے دو شہروں جکارتہ اور پالمبانگ میں18اگست سے دو ستمبر تک ہو رہی ہیں،بیشتر ایشین ممالک نے ان کھیلوں کے لیے اپنے کھلاڑیوں کا حتمی انتخاب کر لیا ہے اور تربیت کے آخری مرحلہ سے گزر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ابھی تک پاکستان میں کھلاڑیوںکی تیاری ابتدائی مرحلے میں ہے، کیمپوں میں کھلاڑیوں کی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ہمارےمنتظمین کا اصرار ہے کہ انہیں نااہل نہ کہا جائے ، کھیل کے نام پر سیرکرنے کے لیے حالیہ کامن ویلتھ گمیز گولڈ کوسٹ جانے والے جوائے رائڈرز کے نام یہاں گنوا دیئے جائیں تو لوگ حیران ہوں گے کہ ملک میں ایسے مفتے بھی موجود ہیں، لوٹ لو کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نیب نام کا ادارہ تین ماہ میں تین مرتبہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے اخراجات اور اس کے سابق ڈائریکٹر جنرل کی لوٹ مار کی چھان بین کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے لیکن اس ضمن میں کیا ہوا ہے کسی کو علم نہیں۔ ہمارے کامن ویلتھ گیمز کے گولڈ میڈلسٹ انعام بٹ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کے لئے پرامید ہیں لیکن چار ماہ بعد ہونے والی ایشین گیمز میں انہیں گولڈ میڈل کے لئے عراق، ازبکستان، تاجکستان، کوریا، جاپان اور ایران کے ریسلرز کا چیلنج درپیش ہوگا، میڈل کی امید دلاتے ہوئے حقائق فراموش نہ کریں۔ بہتر یہ ہو گا کہ پی ایس بی محمد انعام کو اعلیٰ تربیت کا موقع فراہم کرے۔

ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے سرکاری ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ کے گزشتہ دنوں ایک اجلاس میں کھیل تنظیموں کے عہدیداروں سے دریافت کیا ہے کہ آنے والے ایشین گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اس بارے میں رپورٹ پیش کی جائے اور بتایا جائے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران ان کی کارکردگی کیسی رہی ہے اور آنے والے تین ماہ ان کی کارکردگی کیا ہوگی۔ ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جو تنظیمیں ہم سے امداد حاصل کر تی ہیں وہ ہمیں بتائیں کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے، اپنے قیام کے چالیس برس بعد جس ملک کے سب سے بڑے سرکاری سپورٹس ادارے کا سربراہ ایشین گیمز شروع ہونے سے تین ماہ قبل فیڈریشنز سے پوچھ رہا ہے کہ اگلے تین ماہ میں کارکردگی کیسے بڑھائی جا سکتی ہے،اس پر سر پیٹنے کو دل کرتاہے۔ 

ملک کی ترقی کی شہ رگ یعنی کھیلوں کو کلرکوں کے ہاتھوں میں دینے کا اس سے بڑھ کر نقصان کیا ہو سکتا ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ ملکی کھیل تنظیموں کو سالانہ امداد تین تین ماہ کی اقساط میں ادا کرتا ہے ہر تین ماہ بعد فیڈریشن کو اداشدہ گرانٹ کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس کی بناء پر اگلی قسط ادا کی جاتی ہے ہر قسط میں حصہ پتی کا کیا تناسب ہوتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اب پاکستان سپورٹس بورڈ کی خواہش ہے کہ امداد کا آڈٹ سرکاری ادارے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کروایا جائے، فیڈریشنز اس پر بھی تیار ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ میں برس ہا برس سے تعینات ماتحت افسران بھی ہر نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ مل کر کھیلوں کو ایک نئی پٹڑی پر ڈال دیتے ہیں۔ 

بھارتی کھلاڑی ایشین گیمز کے لئے چین میں تربیتی کیمپ لگا ئےبیٹھے ہیں اور ہم ابھی تک اجلاس کر کے یہ پوچھ رہے کہ تین ماہ میں کارکردگی کیسے بہتر ہوگی اور کھلاڑیوں کو ایشین گیمز شروع ہونے سے کتنے دن پہلے انڈونیشیا جانا چاہئے تاہم ابھی وقت ہے کہ چند کھیلوں کے لئے بیرون ملک تربیت کا بندوبست کریںلیکن کھیلوں میں ترجیحات کا تعین کیا جائے۔یہ ضروری تو نہیں کہ ہم 23کھیلوں میں شرکت کریں۔پی ایس بی پالیسی بنائے۔ 

23کھیل تو ووٹر خوش کرنے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ گیمز میں ووشو نے کانسی کا ایک تمغہ حاصل کیا اس مرتبہ ووشو پھر امیدوار ہے۔ پی ایس بی ماہرین کو ساتھ ملا کر کھیلوں کا تعین کر سکتا ہے ۔ایشین گیمز کی تیاری کے لئے بھاری بجٹ درکار ہے اس کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی ترجیحات کا تعین بھی کریں۔ شرکت برائے شرکت سے ہم ایک بار پھر مایوس واپس آئیں گے۔ جونیئر سطح پر ہمارے پاس ٹیلنٹ کا یہ عالم ہے کہ جونیئر سیف ایتھلیٹک چیمپئن شپ میں بھارت نے گیارہ اور سری لنکا نے پانچ گولڈ میڈل حاصل کئے جبکہ ہمارا صرف ایک سلور میڈل ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین