• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مودی، شی ملاقات اور مشترکہ فوجی مشقیں

کوہِ ہمالیہ پر چینی اور بھارتی افواج کے درمیان مڈ بھیڑ کے سبب گزشتہ دو برس سے دونوں ممالک کے درمیان خاصا تنائو پایا جاتا تھا۔ اس کھنچائو کے پیشِ نظر پچھلے دِنوں بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے چین کا غیر معمولی دورہ کیا۔ اس دوران ان کی ووہان میں چینی صدر، شی جِن پِنگ سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں رہنمائوں نے مشترکہ سرحد پر جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے نئے اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ مودی کے دورۂ چین سے چند روز قبل سابق پاکستانی وزیرِ خارجہ، خواجہ آصف سے چین کے نائب صدر کی ملاقات ہوئی تھی، جس کے بعد یہ بیان جاری کیا گیا تھا کہ چین، پاکستان کی سالمیت کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ 

اسی عرصے میں چین، پاکستان اور بھارت کے حوالے سے ایک اور اہم پیش رفت بھی سامنے آئی۔ ان تینوں ممالک کی افواج رواں برس اگست میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت رُوس میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصّہ لیں گی ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ مذکورہ بالا تبدیلیاں دُنیا، بالخصوص خطّے کے بدلتے تناظر میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔

چین میں مودی اور شی نے ون ٹو ون ملاقات کی۔ یعنی ملاقات میں دونوں کے معاونین تک شامل نہیں تھے۔ دو روز میں دونوں رہنمائوں کے درمیان بات چیت کے کئی ادوار ہوئے۔ چین کے خبر رساں اداروں کے مطابق، ملاقات کا ماحول غیر رسمی اور بے تکلفانہ تھا۔ تجزیہ نگاروں نے چین کی سرکاری خبر رساں ایجینسی، ژن ہوا کی جانب سے جاری کیے گئے ملاقات کے مشترکہ اعلامیے کا خاصی باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ مودی اور شی کے مابین ہونے والی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے سربراہان نے عالمی اُمور، علاقائی معاملات اور دو طرفہ تعلقات کا بھرپور جائزہ لیا۔ دونوں رہنمائوں نےدو دن میں 6ملاقاتیں کیں۔ 

مودی، شی ملاقات اور مشترکہ فوجی مشقیں
بھارتی وزیرِ اعظم، چینی صدر کے ساتھ ایسٹ لیک کی سیر کرتے ہوئے

دونوں نے بدلتے عالمی منظر نامے میں اپنے اپنے مُلک کی پوزیشن واضح کی اور اس بات کا جائزہ لیا کہ عالمی امن و استحکام اور بہتری کے لیے وہ مشترکہ طور پر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مشترکہ اعلامیے میں اُن اصولوں کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا، جو 1950ء کے عشرے میں غیر جانب دار ممالک کی تنظیم نے بنائے تھے، جس کے چین اور بھارت بانی ارکان تھے۔ دونوں رہنمائوں نے چین اور بھارت کے 2ارب 68کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی کے ممالک ہونے کے ناتے دو طرفہ تنازعات بات چیت اور بین الرّیاستی طریقۂ کار کے ذریعے طے کرنے پر زور دیا۔

یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ دونوں رہنمائوں نے افغانستان میں مشترکہ منصوبوں پر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ملاقات میں سیکوریٹی، تجارت اور ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون پر زور دیا گیا۔ نیز، اعلامیے میں دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان روابط بڑھانے کا بھی ذکر ہے۔

ماہرین کے مطابق، مودی اور شی کے مابین ون ٹو ون ملاقات کی ضرورت بھارت اور چین کے درمیان سِکّم کی سرحد پر جاری تنازعے سے پیدا ہونے والی تلخی کو اعلیٰ ترین سطح پر ختم کرنے کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ڈو کلام کو، جو سِکّم کی سرحد کے قریب واقع ہے، چین اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور وہ یہاں ایک سڑک تعمیر کر رہا تھا، جسے بھارتی فوج نے روکنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں، چین کی انتہائی سخت تنبیہ کے بعد بھارتی افواج واپس تو چلی گئیں، لیکن اس کے نتیجے میں کوہِ ہمالیہ پر دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئیں اور 73روز تک یہ سلسلہ برقرار ہا۔ ماہرین کے مطابق، چُوں کہ بھارت یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ چین کی فوجی طاقت اس سے3گُنا زیادہ ہے اور وہ فی الحال اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، لہٰذا اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کے فوجی تنازعے میں اُلجھنے سے گریز کیا جائے۔ 

سو، حالیہ بات چیت میں ڈوکلام کے تنازعے کا طے ہونا، بھارت کے لیے خاصا اطمینان بخش ہے۔ ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ دونوں ممالک عسکری روابط کو فروغ دیں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ 2019ء میں بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں اور بھارت کی خواہش ہے کہ تب تک دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی ایک حد سے نہ بڑھنے پائے۔ دوسری جانب چین، جس کی معیشت بھارتی معیشت سے 5گُنا بڑی ہے، اپنی اقتصادی طاقت کا دائرہ پوری دُنیا میں بڑھا رہا ہے اور ہر قسم کے تنازعات سے گریزاں ہے۔ 

آج چین، امریکا سے بھی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اور رُوس سے بھی پینگیں بڑھا رہا ہے۔یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانے پر ٹرمپ کئی بار اپنے چینی ہم منصب کی تعریف کر چُکے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی ماہرین کا بھی یہ ماننا ہے کہ بھارت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ چین سے مذاکرات جاری رکھے۔ چین ’’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘‘ پر اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے اور اس منصوبے میں کسی بھی قسم کی رُکاوٹ برداشت نہیں کر سکتا۔ پھر بھارت بھی تیز رفتار اقتصادی ترقّی کا ہدف حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور چین اور بھارت کے مابین تجارت کا سالانہ حجم ایک سو کروڑ ڈالرز ہے، جو بہ تدریج بڑھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں، ایک دوسرے کی بڑی علاقائی منڈیوں کو قابو میں رکھنا بھی دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔

پھر بھارت، چین کے پاکستان پراثرات سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھی بیجنگ کی حمایت کا خواہاں ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران بھارت اور امریکا کے درمیان خاصی قُربت پیدا ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا بحرِ ہند اور ایشیا میں بھارت کو چین کے مدِ مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے، لیکن چین کسی طور یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اعلامیے میں خود مختار خارجہ پالیسی اپنانے پر خاصا زور دیا گیا اور دونوں نے اس پر اتفاق بھی کیا۔

چینی خبر رساں اداروں اور سرکاری ٹی وی سے جو اطلاعات سامنے آئیں اور جو مناظر دکھائے گئے، اُن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے بڑی بے تکلفی سے تفصیلی بات چیت کی۔ بھارتی وزیرِ اعظم کو خوش آمدید کہنے کے لیے 1982ء میں ریلیز ہونے والی بالی وُڈ مووی کا گیت، ’’تُو ،تُو ہے وہی، دل نے جسے اپنا کہا‘‘ چلایا گیا۔ ایک ایسی تصویر بھی جاری کی گئی، جس میں نریندر مودی اور شی جِن پِنگ کو کشتی میں جھیل کی سیر کرتے دکھایا گیا۔ اسی طرح دونوں رہنمائوں کو انتہائی خوش گوار موڈ میں جنگل کی سیر کرتے بھی دِکھایا گیا۔ 

چین کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ بھی بتایا کہ صدر شی نےاپنے دورِ صدارت میں دوسری مرتبہ دارالحکومت، بیجنگ سے نکل کر کسی غیر مُلکی رہنما کا استقبال کیا۔ گر مودی اور شی کے درمیان اس بے تکلفی کو چین اور بھارت کے درمیان جاری سرحدی تنازعے کے تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ سب نہایت عجیب سا لگتا ہے، لیکن بین الاقوامی سفارت کاری میں بڑے رہنمائوں کے درمیان ہم آہنگی اور بات چیت کی غرض سے خوش گوار ماحول پیدا کرنے کے لیے یہ سب معمول کا حصّہ ہے۔ تاہم، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ چین اور پاکستان کی غیر معمولی دوستی میں کوئی رخنہ آئے گا۔ 

چین اور بھارت کے درمیان قُربت کے باوجود بھی ان دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا، مگر ہمارے ماہرین کو اس اندازِ سفارت کاری پر ضرور غور کرنا چاہیے، کیوں کہ اگر کوئی پاکستانی رہنما ہمارے مخالف مُلک کے رہنما کی اس انداز میں آئو بھگت کرے، تو اُسے غیر مُلکی ایجنٹ اور غدار تک کے القابات سے نوازا جاتا ہے، اُس پر خفیہ ڈِیل اور سودے بازی کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور حساس نوعیت کے معاملات پر سرِ عام مذاکرات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کیا اس قدر دبائو میں کوئی رہنما کسی دوسرے مُلک سے اپنے اختلافات طے کر سکتا ہے؟ ملاقات سے قبل مودی اور شی کو اپنے عوام کا اعتماد حاصل تھا۔ 

کیا ہم اپنے منتخب رہنمائوں کو یہ اعتماد نہیں دے سکتے؟ تنقید بجا، لیکن کیا مذاکرات کو الزامات اور دُشنام طرازی کے تیروں سے چَھلنی کرنے کے بعد سفارت کاری کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے۔ ایک بڑی مشکل تو یہ ہے کہ آج مُلک کے سارے اینکر پرسنز اور ٹاک شوز کے شرکا اُمورِ خارجہ کے ماہر بن چُکے ہیں۔ وہی اس بات کا تعیّن کرتے ہیں کہ ہمیں کس مُلک سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور کس سے نہیں۔ نیز، کس مُلک کے لیڈر سے کیسا برتائو کرنا چاہیے۔ ملکی مفادات یومیہ بنیادوں اور ذاتی پسند، ناپسندپر طے کیے جانے کے احکامات دیے جاتے ہیں۔ خدا جانے ہماری سفارت کاری میں یہ عُنصر کیسےداخل ہو گیا ہے کہ ہمیں اقوامِ عالم سے روابط استوار کرنے کی بہ جائے تعلقات بگاڑ کر زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ دوسرے ممالک کے رہنمائوں کی تضحیک اور اُن پر کیچڑ اُچھالنا، روایت بن چُکی ہے۔ 

ہم نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بیرونِ مُلک مقیم ہیں اور روزانہ ہزاروں پاکستانی اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی یا سیر و سیّاحت کے سلسلے میں دوسرے ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور اس نفرت کے پرچار کا اُن پر کیا اثر پڑے گا۔ بیرونِ مُلک موجود پاکستانیوں سے تضحیک آمیز سلوک کے واقعات کا تسلسل ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہم اپنی برآمدات بڑھانے کا ذکر تو بہت کرتے ہیں، لیکن کیا ہم نے اپنے مُلک میں رواداری، برداشت اور تحمل کی فضا پیدا کی۔ یاد رہے کہ مودی، شی جیسی سربراہ ملاقاتوں کے اثرات بہت دُور رس ہوتے ہیں اور صرف ایسی ایک ملاقات کی وجہ ہی سے کئی رُکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے چین جیسے قریبی دوست سے کم از کم سفارت کاری کے گُر تو سیکھ لینے چاہئیں۔

مودی، شی ملاقات کے بعد خطّے میں ہونے والی دوسری بڑی پیش رفت یہ ہے کہ رواں برس اگست میں تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان اور بھارت کی افواج مشترکہ فوجی مشقوں میں حصّہ لیں گی۔ یہ مشقیں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت رُوس میں ہوں گی۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں رُوس اورچین کے علاوہ وسطی ایشیا کی 6ریاستیں بھی شامل ہیں، جب کہ پاکستان و بھارت کو گزشتہ برس اس کا مکمل رُکن بنایا گیا۔ رُوس کے یورال نامی پہاڑی علاقے میں ہونے والی ان فوجی مشقوں کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ اور ممکنہ دہشت گرد حملوں کو روکنا ہے۔ 

یہ مشقیں اگست کے آخری ہفتے میں شروع اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں ختم ہوں گی۔ گو کہ دونوں ممالک کے وزرائے دفاع نے ان مشقوں میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، ابھی تک تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ خیال رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک یورو ایشین آرگنائزیشن ہے، جو سیاسی، معاشی اور دفاعی معاملات میں تعاون کے لیے قائم کی گئی ہے۔ 1996ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے 2007ء میں سیکوریٹی معاہدے پر دست خط کر کے دفاعی معاملات میں تعاون کرنے کی بنیاد رکھی۔ بعض ناقدین اسے نیٹو کے مقابل اُبھرتی تنظیم کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

اگست میں ہونے والی فوجی مشقوں کو ’’امن مشن 2018ء‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو عشروں سے ساری دُنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس کے تدارک کے لیے ہی دُنیا کے مختلف خطّوں میں اتحاد بنائے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک اتحاد سعودی عرب میں 41ملکی ملٹری الائنس کی صورت میں سامنے آیا۔ رواں برس ہونے والی اسلامی ممالک کی افواج کی مشقوں میں پاکستان نے بھی حصّہ لیا، جس کی اختتامی تقریب میں پاکستانی وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عبّاسی اور چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے۔ تاہم، مشکل یہ ہے کہ دہشت گردی اور شدّت پسندی کی ہر مُلک میں مختلف شکل ہے۔ غیر ریاستی عناصر نے جہاں مختلف ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کر کے انہیں جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا، وہیں شدّت پسندی کو ہوا دے کر فرقہ وارنہ و مذہبی کشیدگی بھی پھیلائی۔

آج مشرقِ وسطیٰ میں علاقائی و عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور خُوں ریزی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ داعش، طالبان اور القاعدہ کی شکل میں موجود جنگ جُو تنظیمیں پوری دُنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چُکی ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کئی ممالک نے ان غیر ریاستی عناصر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر یہ بہت جلد ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئے اور ان ممالک ہی کو نشانہ بنانے لگے۔

گرچہ دہشت گردی پوری دُنیا ہی کے لیے دردِ سَر بن چُکی ہے، لیکن پاکستان سے زیادہ شاید ہی کوئی مُلک اس سے متاثر ہوا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا۔ تاہم، پاکستان ہی نے دہشت گردی کے خلاف سب سے کام یاب جنگ لڑی اور سوات اور قبائلی علاقہ جات کو دہشت گردوں سے پاک کر کے وہاں امن قائم کیا۔ لہٰذا، اگر ایک ایسے مُلک کی فوج دہشت گردی کے خلاف مشقوں میں حصّہ لیتی ہے، تو اس کے تجربات سے دیگر ممالک بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ 

پاکستان اور بھارت دونوں ہی کو ایک دوسرے سے شکایات ہیں اور چین و رُوس، جو عالمی و علاقائی طاقتیں ہیں، اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اگر ان دونوں ممالک کی افواج دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مشقوں میں حصّہ لیتی ہیں، تو اس سے ان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ آج تقریباً 65برس بعد جنوبی و شمالی کوریا کے درمیان ایک امن معاہدہ ہونے والا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے باوجود تعاون کی نئی راہیں کُھل چُکی ہیں، جس کی امریکا سمیت پوری دُنیا نے تحسین کی ہے۔ ایسے ماحول میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں شاید پورے خطّے کے لیے امن کی نوید لے کر آئیں، جس کی برِصغیر کے عوام کو اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین