پاکستان کے قومی حالات حسب معمول نشیب و فراز کی شدتوںکے اسیر ہیں۔ تینوں بڑے قومی سیاستدان آصف علی زرداری، نوازشریف اور عمران خان باہمی تلخ نوائی اور جارحانہ رزم آرائی کے ساتھ ساتھ ایسے حقائق سےپردہ اٹھاجاتےہیں جنہیں پاکستان کی تاریخ کہا جاتا ہے۔ جن کا وجود پاکستانی عوام کے لاشعور سےگوند کی طرح چپکا ہوا ہے۔ اترنے ہی نہیں پاتا بلکہ اترنے دیاہی نہیں جاتا، الٹا ’’گوند‘‘ کی مقدار بڑھانے کا معمول جاری ہے!
گزرے قریب قریب آٹھ دس روز میں اس حوالے سے ان کے بیانات کاسرسری جائزہ ہمیں مستقبل قریب کے دوررس نتائج کی نشاندہی کرسکتاہے!
سینئر پارٹی قائدین سے گفتگو کےدوران آصف علی زرداری نے کہا:۔ ’’نواز شریف نے مجھے ہر موقع پر اسٹیبلشمنٹ سے لڑاکر خود ہاتھ ملایا۔ میں نے مشرف کے مواخذے کا اعلان کیا تو نواز شریف پیچھے ہٹ گئے۔ میاں صاحب شکل سے بھولے بھالے عملاً چالباز ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں میرا اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان اور مشرف کے بیرون ملک جانے سے قبل ’’بلّے‘‘ کوبھاگنے نہ دینے کا بیان بھی نواز شریف کی چال تھی۔ ہم ہربار جمہوریت کی خاطر نواز شریف کے دھوکے میں آئے۔ہم سیاست اور وہ تجارت کرتے رہے۔ میاں صاحب نے مجھے دھوکہ دیا۔ نواز شریف اب بھگتیں۔ اب کسی صورت ہاتھ نہیں ملائوں گا۔ میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مل کرمقابلہ کرنے کا پیغام بھیجا۔ جب مقابلہ کی بات آئی تو ہم سے علیحدگی اختیار کرلی اور کسی اور سے ہاتھ ملا لیا۔ نوازشریف اپنے قریبی افسر کے ذریعے مجھے مختلف پیغام بھجواتے رہے۔ ہم نواز شریف کو جتنا بھولا سمجھتے رہے وہ اس سے کہیں زیادہ موقع پرست ہیں۔ یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہ کیا جس کے بعد میں میاں صاحب سے نالاں ہوگیا۔ آج کے بعد کبھی بھی ’’ن‘‘ لیگ سےہاتھ نہیںملائیں گے کیونکہ نوازشریف نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔‘‘ غالباً اسی موقع پر انہوں نے ’’ہم نوازشریف کے ساتھ جنت میں بھی نہیں جائیں گے‘‘ کا جملہ بھی استعمال کیاتھا۔ انہی دنوں ان سے منسوب یہ بات بھی اخبارات میںشائع ہوئی:
اور اب اس پر خصوصی نوٹ، یہ کہ ’’پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہوں نے نواز شریف سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اس حوالے سے پارٹی رہنمائوں نے تردیدی بیان جاری کردیا تھا۔ نجی چینل کے ساتھ انٹرویو میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دیئے گئے بیان پرآصف علی زرداری نے کہا کہ ’’نوازشریف کو کوئی بیان دینا ہے تو دیں، یہ بہانہ نہ بنائیں کہ وہ میرےبیان کا جواب د ے رہے ہیں۔ میری کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی میں نے نوازشریف سے متعلق کوئی بیان دیا ہے۔‘‘ زرداری صاحب کی تردیددرست ہےیاغلط، اس پرکسی قسم کی رائے زنی کئے بغیر قارئین کو نیوز صحافت کےایک فنی پوائنٹ سے آگاہ کرناہے۔ سابق صدرکا یہ بیان ’’مانیٹرنگ ڈیسک ‘‘ اور ’’آن لائن‘‘ کی ڈیٹ لائن سے شائع کیا گیا۔ قارئین اگرنیوز روم کے اسرار رموز سے آگاہ ہوتے تب وہ اس’’ڈیٹ لائن‘‘ کے تناظرمیں آصف علی زرداری کی تردید کو سچائی کی حدتک وزن دیئے بغیر نہ رہ سکتے۔
وہ یہ تھا:’’زرداری اب کس کی کٹھ پتلی ہیں۔ اتنے بھولے کہ میرے ورغلانے میں آگئے۔ مشرف سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ زرداری اور عمران ایک ہیں۔ دونوں کے درمیان سب کچھ طے ہے۔ شرم کریں لوگوںکوبیوقوف نہ بنائیں۔ عوام فیصلے کو ووٹ سے باہر پھینک دیں۔ عمران اور زرداری کوووٹ دینا کسی اور کو کامیاب کرانے کے مترادف ہوگا۔ لاڈلے کی دال نہیں گل رہی، کچی فیل ہو گیا ہے۔ مشرف سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ اسی شام ناپسندیدگی کا پیغام بھیجا۔ الزام تراشی کا دفتر نہ کھولیں۔ پھر کہتا ہوں کیوں نکالا۔ ہم نے حلف اٹھانے کے لئے ڈکٹیٹر کے مواخذے، ججز بحالی، 17ویں ترمیم کی شرائط رکھیں۔ کس نے دھوکہ دیا،وعدہ خلافی کی۔ سابق صدر بڑے سیاستدان کے ساتھ رائے ونڈ آئے اور مشرف کے اقدامات کی پارلیمانی توثیق کا کہا۔ میں نے انکارکردیا۔‘‘
سابق صدر کے بیان پر ردعمل سے پہلے اور بعد میں بھی میاں صاحب نے نہایت حساس نظریات کا اظہار کیا۔ ان کا خلاصہ بھی پڑھتے جائیں۔ انہوں نے کہا ’’معلوم نہیں اگلے دس بیس دنوں کےبعد میرا مستقبل کیا ہوگا؟ ماضی کی غلطیوں پر اللہ اور عوام سے معافی مانگنی چاہئے لیکن جہاں بھی ہوں گا میرے نظریئے اور موقف میں فرق نہیں آئے گا۔ ہم سب کو ماضی کی تلافی کرنا ہوگی۔ کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو، لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو نے اپنی مدت پوری کی؟ ہمارے ہاں آئین و قانون کو جوتے کی نوک پر رکھاجاتا ہے۔ اگر ہمیں ان زیادتیوںکا مقابلہ نہیں کرنا تو پھر مجھے یا آپ کو اس منصب پر اور عوام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں یا پھر یہ کہیں کہ جج صاحب! یہ لو میرے کاغذات ِ نامزدگی، قبول کرو، مجھے الیکشن لڑنا ہے۔ کروڑوں لوگوں نے منتخب کیا، چند لوگوں نے نکال دیا، میرا مقابلہ زرداری عمران سے نہیں خلائی مخلوق سےہے!‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے تازہ ترین نظریات کے مطابق:’’نواز فوج کی مدد سے الیکشن جیتے۔ میں نہیں وہ فوج اور عدلیہ کے لاڈلے رہے ہیں۔ انہیں ضیاء الحق نے سیاستدان بنایا۔ 90ء میں آئی جے آئی بنائی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’’ہم نے پیسے دیئے‘‘ ان کا کیس سنا نہیں؟ (اصغر خان اس کیس کے فیصلے کی حسرت میں دنیا ہی سے چلے گئے) شہباز شریف، نواز شریف سے زیادہ خطرناک ہیں۔
تینوں قومی سیاستدانوں کی باہمی سیاسی محا ذ آرائی اپنی جگہ، تینوں کے بیانات میں پاکستان کےقومی آئینی راستے یعنی ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کو کھوٹا کرنے کا اول و آخر بنیادی مرکز کون ہے؟ آپ پاکستان کے اس بنیادی مرکز کو آئین کی چھتری تلے لاسکتے ہیں یا نہیں؟ مستقبل کے پاکستان کا قومی نقشہ اس کا حوصلہ شکن جواب دیتا ہے۔
پس نوشت:۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پرقاتلانہ حملہ ہمارے خدشات کی تصدیق کرتاہے۔ ہم ان کی زندگی کی سلامتی کی دعا کے ساتھ ساتھ مملکت ِ پاکستان اور ا س کے عوام کے لئے ووٹ کے ذریعے آئینی تبدیلی کے لئے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی دعاکرتے ہیں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)