• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے سیاسی حلقوں میں خلائی مخلوق کے تذکرے آج کل بڑے زوروں پر ہیں۔ خلائی مخلوق کی اصطلاح پاکستان میں پہلی بار متعارف کرانے کا سہرا سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے سر جاتا ہے جنہوں نے گزشتہ دنوں خلائی مخلوق کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ ’’آئندہ انتخابات میں ہمارا مقابلہ تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہوگا جو اپنی مرضی کی پارلیمنٹ لانا چاہتی ہے مگر ہم خلائی مخلوق کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، خلائی مخلوق سدھر جائے کیونکہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘ بعد ازاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنی تقریر میں یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کردیا کہ ’’آئندہ انتخابات میں خلائی مخلوق کا کردار اہم ہوگا۔‘‘ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلائی مخلوق پر تبصرے کے بعد ملک کے دیگر سیاستدانوں نے بھی خلائی مخلوق کو موضوع بحث بنایا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ ’’دنیا ہو یا پاکستان، ہر جگہ خلائی مخلوق انتخابات کا حصہ ہوتی ہے۔‘‘ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ ’’خلائی مخلوق اپنا کام کرے اور زمینی مخلوق کو بھی کام کرنے دیا جائے۔‘‘ اسی طرح وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی یہی لائن اپناتے ہوئے کہا کہ ’’ملک میں سب کچھ خلائی مخلوق کررہی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ آئین پاکستان، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی ممانعت کرتا ہے مگر پاکستانی سیاستدان، اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مختلف اصطلاحات استعمال کرتے رہے ہیں جس کی مثال پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو تھیں جنہوں نے ماضی میں عدلیہ کے بارے میں ’’چمک‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
خلائی مخلوق، پری پول ریگنگ، آفٹر پول ریگنگ اور انجینئرڈ نتائج جیسے بیانات الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان تصور کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ماضی میں الیکشن کے بعد اداروں پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں جبکہ موجودہ دور میں اس میں روز بروز شدت آتی جارہی ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں جب قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح نے الیکشن میں حصہ لیا اور اُنہیں دھاندلی کر کے شکست دی گئی تو پہلی بار الیکشن کی شفافیت پر لوگوں کے ذہن میں سوالات اٹھے کہ کیا ایوب خان کو فاطمہ جناح سے زیادہ مقبولیت حاصل تھی؟ آمریت کے طویل سیاہ دور کے بعد جب 1970ء میں انتخابات ہوئے تو ان انتخابات کو Relatively شفاف انتخابات سے تشبیہ دی گئی مگر بعد میں اس الیکشن میں بھی اداروں پر جانبداری کا الزام لگایا گیا اور نتائج تسلیم نہ کئے جانے کی صورت میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ 1977ء کے انتخابات میں بھی پری پول اور پولنگ ڈے ریگنگ کے الزامات لگائے گئے، الیکشن کے روز جعلی ووٹوں سے بیلٹ باکس بھرنے کے واقعات رونما ہوئے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خود کو بلامقابلہ منتخب کرانے کیلئے مخالف جماعت کے امیدوار کو اغواکروایا جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا نتیجتاً ملک میں جاری سیاسی بحران کے باعث اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہوگئے اور متنازع فیصلے میں ذوالفقار بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔
1988ء کے عام انتخابات کو اس بنیاد پر غیر شفاف قرار دیا گیا کہ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دینے کا اعتراف کیا تھا۔ اسی طرح 1990ء کے انتخابات بھی تنازعات کا شکار رہے اور اداروں پر الزامات لگائے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2002ء کے انتخابات میں الیکشن سے پہلے اور بعد میں دھاندلی عروج پر رہی۔ نیب کو لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے، مسلم لیگ (ق) جوائن کروانے اور اپنی پسند کا وزیراعظم منتخب کرانے کیلئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا جس نے الیکشن کی ساکھ کو مجروح کیا۔ 2008ء کا الیکشن ایک فیئر الیکشن تصور کیا جاتا تھا مگر بعد میں مسلم لیگ (ق) کے صدر اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی اپنی بائیو گرافی میں کئے گئے اس انکشاف نے سب کو حیرت زدہ کردیا کہ ’’2008ء کے الیکشن نتائج طے شدہ تھے اور اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے الیکشن کی صبح فون کرکے مطلع کیا تھا کہ ’’آپ کی پارٹی کو اس بار 24 سے 30 نشستیں ملیں گی اور آپ نے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنا ہے۔‘‘ 2013ء کے الیکشن بھی شفاف تھے تاہم الیکشن کی شفافیت کو متنازع بنانے کیلئے گزشتہ دنوں عمران خان کے اس بیان نے سب کو حیرت زدہ کردیا کہ ’’2013ء کے الیکشن میں ایک بریگیڈئیرنے (ن) لیگ کی مدد کی تھی۔‘‘ تاہم مذکورہ بریگیڈیئر نے عمران خان کے بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’عمران خان اداروں کو بدنام کرنے سے باز رہیں۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کا یہ الزام درست ہے تو پھر عمران خان نے الیکشن دھاندلی کے خلاف دھرنا پارلیمنٹ کے سامنےکیوں دیا ؟۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صرف ٹیکنیکل، لیگل اور لاجسٹک انتظامات شفاف اور منصفانہ انتخابات کی ضمانت نہیں ہوتے بلکہ الیکشن اُس سیاسی سرگرمی کا نام ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد ہو اور یہی اعتماد ایک شفاف اور منصفانہ الیکشن ممکن بناسکتا ہے۔ ماضی کے انتخابات میں اسی طرح اداروں کی مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور حامی جماعتوں کے شکوک و شبہات کو ایک شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن ہی رفع کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کسی کے حق میں نہیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو کم کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں بصورت دیگر آئندہ الیکشن کی شفافیت پر بھی سوال اٹھیں گے جس سے نہ صرف الیکشن کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ انتخابی نتائج بھی قبول نہیں کئے جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین