• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر کی تحریک آزادی میں نیا موڑ

کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں روایتی طور پر نوجوان حصہ لیتے رہے ہیں، خاص طور پر پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان جو ملازمت کے مواقع نہ ملنے یا امتیازی سلوک کا شکار ہونے کے بعد بہ تدریج بھارت سے بددل ہو جاتے ہیں اور پھر تحریک آزادی میں شا مل ہو جاتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے یعنی اب سلجھے ہوئے افراد،دانش ور،پروفیسر اور اساتذہ بھی اس تحریک میں شامل ہونے لگے ہیں ۔ایسا ہی ایک واقعہ پانچ مئی کو پیش آیا جب کشمیر یو نیو رسٹی میں بر سر روزگارسماجیات کے شعبے کے استاد ڈاکٹر رفیع اچانک لاپتا ہو گئے۔دو دن بعد معلوم ہوا کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے تھے اور چار ساتھیوں کے ساتھ شوپیاں میں بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

کشمیر یونیورسٹی کے یہ اسسٹنٹ پروفیسر جب غا ئب ہوئے تو ابتدامیں یہ سمجھا گیا کہ شاید انہیں بھارتی سیکیورٹی اہل کاروں نے اٹھا لیاہے، جیسا کہ اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ نرم گو استاد ہتھیار اٹھا کر لڑنے پر آمادہ ہو جائے گا۔ ان کی شہادت شدید جھڑپ کے بعد ہوئی جب ان کے گروہ کو بھارتی فوج نے گھیرے میں لے لیا تھا۔

چھ مئی کو خبر آئی تھی کہ شوپیاں میں ہونے والی جھڑپ میں حزب المجاہدین کے پانچ مجاہدین بھارتی فوج کا نشانہ بن گئے۔شہید ہونے والوں میں عثمان پدر بھی شامل تھے جو برہان وانی بریگیڈ کے آخری رکن سمجھے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ سری نگر کے ڈاکٹر رفیع اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے جو بھارت کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے وظائف بھی حاصل کر چکے تھے۔

ڈاکٹر رفیع نے سماجیات کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی تھی۔ انہیں کشمیر یونیورسٹی میں پچھلے برس ہی سماجیات کے شعبے میں استاد مقرر کیا گیا تھا۔اس کے باوجود ڈاکٹر رفیع کا ہتھیار اٹھالینا غور طلب بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا جسے کہ جب حکومت یا ریاست تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہے تو وہ صرف شدت پسندوں ہی کو نشانہ نہیں بناتی بلکہ اس تشدد سے ان کے دوست، ا حبا ب ،رشتے دار اور قریبی عزیز بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب ریاستی تشدد کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو لوگ غم و غصے کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اچھے خاصے صلح پسند طبیعت والے افراد بھی مجبور یا متاثر ہو کر ریاست سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتے ہیں۔

ڈاکٹر رفیع کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ جب وہ ذرایع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والی شہادتوںیا زیادتیوں کی خبریں پڑ ھتے اورسنتے تھے تو ان کی پریشانی ان کے چہرے سے عیاں ہوتی تھی۔ تاہم اس بارے میں وہ اپنے رفقائے کار یا طلبا سے ز یا دہ بات نہیں کرتے تھے۔یادرہے کہ کشمیر کی تحریک آ ز ا دی میںڈاکٹر رفیع کے دو قریبی رشتےدارشہیدہو چکے تھے۔ غالباً اسی لیے انہوں نے بھی اپنی جان قربان کر نے کا فیصلہ کیا۔

اسی طرح کا ایک اورنام چند ماہ پیش ترسامنے آیا تھا۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے محقق ،منان بشیر وانی کا تعلق جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تھا۔وہ حزب ا لمجا ہدین میں شامل ہو گئےتھے۔انہوں نے اسی سال جنو ر ی کے مہینے میں حزب المجاہدین میں شمولیت کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے کیا تھا۔منان ، بشیر احمد وانی کے بیٹے تھے اور علی گڑھ میں اطلاقی ار ضیات کے مضمون میں میں پی ایچ ڈی کر رہےتھے۔ ان کے چھوٹے بھائی مبشر،انجینئر ہیں۔ منان نے دو ر انِ تعلیم اعلی کارکردگی دکھانے پر کئی انعام بھی حاصل کیے تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا علاقہ شوپیاں شدت پسندی کے حوالے سے اتنا مشہورکیوں ہو رہا ہے؟ تقریباً تین لاکھ کی آبادی والا یہ خوب صورت ضلع برف پوش پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور اس کی پچانوے فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ غا لباً یہی وجہ ہے کہ یہاں کے جنگلوں میں پناہ لینا اور خفیہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنا نسبتاً آسان سمجھا جاتا ہے۔شاید اسی لیے گزشتہ بارہ مہینوں میں پورے مقبو ضہ کشمیر میں سب سے زیادہ تصادم شوپیاں ہی میں ہوئے جن میں درجنوں مجاہد شہیدہو چکے ہیں۔ گو کہ بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ صرف چار پانچ درجن نوجو ا ن جنگ جوئوں میں شامل ہوئے اور صرف دو درجن کے قریب نشانہ بنائے گئے۔ مگر آزاد ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ دونوں اعداد وشمار حقیقت میں کہیں زیادہ ہیں۔

مقبوپہ وادی میں اب ایسے مسلمان نوجوان بھی تحریک آزادی میں شامل ہورہے ہیں جو بھارت کے تعلیمی اور دفاعی اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔ مثلاً ایک اور نام عابدکا ہے جو بھارتی فوج کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی میں شامل تھا اور بھارتی ریاست پنجاب میں تیکنیکی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔اس کے علاوہ ایسے بے شمار نوجوان ہیں جو پہلےبھارتی پولیس یا فوج کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیںاور پھر ریاست کے خلاف کھڑے ہو جا تے ہیں۔ دراصل جب ریاستی ادارے نام نہاد قومی سلا متی کے نام پر قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور خود ہی مدعی اور منصف بن جاتے ہیں تو اس سے عوام پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ریاستی اہل کار جب بندوق تھام لیتے ہیں تو وہ عوام کو خود سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرتے ہیں جو اچھے لوگوں کو بھی ریاست کے خلاف کر دیتا ہے۔علاوہ ازیں جب نوجوانوں کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جاتاہے تو ر یاست کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہو جاتاہے۔ 

ر یاستی اہل کار دوسروں کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر ان لوگوں کو بھی اپنا مخالف بنا لیتے ہیں جو صلح جو طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور صرف اپنے حقوق مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اگر جگہ جگہ پر ناکے لگا دیے جائیں ،عوام کو بے جا سختی کا نشانہ بنایا جائے، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے اور انہیں بار بار غداریا غیر ملکی ایجنٹ کہا جائے تو لامحالہ اس کا نتیجہ ریاست کے خلاف ہی نکلے گا ا ور پھر ایسے لوگوں کی تعد ا د میں اضافہ ہو گا جو ریاستی اداروں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

جنوبی مقبوضہ کشمیر میں اننت ناگ،کولگام، پلواما ، اور شوپیاں وغیرہ کے عوام بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اب نہ صرف پڑھے لکھے نوجوان بلکہ اساتذہ تک تحریک آزادی میں سرگرم ہو رہے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا بھی اس ضمن میںاہم کر د ا ر ادا کرتا ہے۔ اب کسی بھی ریاستی اہل کار کی بدتمیزی اور بد اخلاق کو موبائل فون کے ذریعے ریکارڈ کر کے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پیش کرنابہت آسان ہو گیا ہے۔آج جو ریاستی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ اخبارات اور ریڈیو ،ٹی وی وغیرہ پر پابندیاں لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا جا سکتاہےوہ غلطی پر ہیں کیوں کہ اکیسویں صدی میں یہ ہتھکنڈے کسی کام کے نہیں رہے۔ سوشل میڈیابھانڈا پھوڑدیتاہے اور منٹوں میں کوئی بھی حرکت دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آ جاتی ہے جسے جھٹلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

جب خود ریاست بنیاد پرستی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتی ہے تو اس کے اثرات نچلی سطح تک جاتے ہیں ۔کسی بھی ریاست اور ریاستی اداروں کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ خود تو بنیاد پرستی کی سرپرستی کریں اور عوام سے توقع رکھیں کہ وہ صلح پسندی کی راہ اختیار کریں گے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ریاست کی ہر چیرہ دستی کو برداشت کرتے رہیں گے۔ اگر کوئی ریاست تمام مسائل فوج کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے، اختلاف رائے کا حق تسلیم نہیں کرتی اوراختلاف رائے کرنے والوں کو غدار سمجھتی ہے تو پھر مختلف علاقوں کے لوگ غداری کایہ تمغہ پہننے میں دیر نہیں لگاتے۔ جب اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کے تمام راستے بند کر دیے جائیں تو پھر انتہا پسندی ہی بڑھتی ہے۔

ابھی گزشتہ ماہ ہی ایک لاپتا بھارتی فوجی کے با ر ے میں یہ خبر آئی تھی کہ وہ بھی حزب المجاہدین میں شامل ہو گیا ہے۔ ادریس نامی اس فوجی کا نام بدل کر مبینہ طور پر ’’حمزہ حزبی‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ادریس کا تبادلہ کشمیر سے جھاڑ کھنڈ کر دیاگیا تھا جس سے وہ ناخوش تھا۔لہذااس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اسی طرح خبریں آ رہی ہیں کہ بھارت کے مختلف علاقوں سے مسلمان نوجوان کشمیر آ کر حزب المجاہدین میں شامل ہو رہے ہیں۔ مثلاً آسام کے ایک نوجوان قمر ا لزمان کی تصویر بھی آئی جس میں اسے ڈاکٹر ہریرہ کے نا م سے حزب المجاہدین میں شامل ہوتا دکھایا گیا تھا۔یاد رہے کہ وہ امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آیا تھا۔

اگر اس طرح کے واقعات ہوں تو ریاست کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنےکی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کب اپنی پالیسی بدلتا ہے۔

تازہ ترین