• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کا انتخابی منظر نامہ

جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں لاہور میں انتخابی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ادھر موسم کی گرمی بھی برسارہا ہے اور اس کی آنکھ مچولی جاری ہے۔چند روز پہلے تک مئی کی گرمی اپنے جلوے دکھا رہی تھی کہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے بعد موسم خاصا خوشگوار ہے۔

باہر کے موسم کا اثر اندر کے موسم پر بھی پڑتا ہے لوگ بلاوجہ نہیں الجھتے لیکن جہاں سیاست ہو وہاں باہر کا رومانوی موسم بھی کچھ خاص اثر نہیں کرتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی ایک معمہ ہے۔ ایک طرف سابق صدر زرداری انتخابات میں تحریک انصاف سے ہاتھ ملانے کا عندیہ دیتے ہیں دوسری طرف عمران خان اس کے برعکس بیان دیتے ہیں۔بلاول بھٹو کا اپنا انداز سیاست ہے۔

احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ بھی انتخابات کے حوالے سے کوئی مثبت اشارہ نہیں ہے۔شیخ رشید نے بھی اپنے ایک بیان میں کسی حادثے کی صورت میں انتخابات کے کچھ عرصے کے لیے ملتوی ہونے اشارہ دیا ہے لیکن وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے وقت پر ہونے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

چند روز قبل ایک نجی محفل میں پیپلز پارٹی کے ایک انتہائی سینئر رہنما فرما رہے تھے کہ اورنج ٹرین کے افتتاح کے بعد پنجاب سے مسلم لیگ نواز کو ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا کیونکہ میڈیا میں ہم جیسے بھی سپن ڈاکٹرائین کو استعمال کر لیں زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب کو پنجاب میں بلاول کو بھیجنا چاہیے خود دوبئی رہنا چاہیے کیونکہ یہی پیپلز پارٹی کے حق میں بہتر ہو گا۔لاہور کے مختلف علاقوں کا دورہ ہم اکثر کرتے رہتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے پاور شو کے بعد خصوصی طور پر ڈیفنس، شمالی لاہور، علامہ اقبال ٹاؤن، جوہر ٹاؤن، فیصل ٹاؤن، واپڈا ٹاؤن سمن آباد اور دیگر علاقوں میں اپنے طالب علموں سے سروے بھی کروائے جن کے مطابق لاہور کے لوگ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہمدردی محسوس کر رہے ہیں بعض نے تو میڈیا کی ان رپورٹس کو بھی غلط قرار دیا کہ لاہور میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔

ڈیفنس اور چند نئی آبادیوں کے نوجوان عمران خان کے جلسے میں ضرور گے لیکن اس جلسے میں زندہ دلان لاہور بہت کم تعداد میں شریک ہوئے۔ گوالمنڈی کے ایک دکاندار نے اپنے مخصوص لاہوری انداز میں کہا کہ اب ہمیں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ہمیں اندازا ہے کہ مینار پاکستان میں کس طرح کرسیاں رکھ کر اور بتیاں لگا کر ڈرامہ کیا گیا ہم نے بھٹو صاحب کے جلسے دیکھے ہیں جس میں کرسیاں نہیں لوگ ہوتے تھے۔

جوہر ٹاؤن میں ایک بینک منیجر نے کہا کہ مخالفین جتنا بھی زور لگا لیں لاہور سے ایک آدھ سیٹ کے علاوہ انہیں کچھ نہیں مل سکے گا۔

ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا کہ لاہور مسلم لیگ ن کا قلعہ ہے اس میں شگاف لگانا بہت مشکل ہے۔لوگ بے حد باشعور ہو چکے ہیں ،ایسے میں کسی قسم کی دھاندلی لوگوں کے غم و غصہ کا سبب بن سکتی ہے۔

تاہم یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا میں ہم نے ایک تناؤ کی سی کیفیت محسوس کی۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے نوجوان نہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی دوسرے کا موقف سننے کو۔

چند روز قبل کراچی سے چند سینئر صحافی دوستوں کو پنجاب حکومت نے لاہور کا دورہ کروایا۔ایک سینئر ساتھی کا تجزیہ تھا کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں ہم نے لوگوں کی رائے لی ہے کم از کم لاہور سے تو مسلم لیگ ن کو ہرانا ممکن نہیں لگتا۔ان کا کام پنجاب میں نظر آ رہا ہے اور خاص طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور صفائی کے حوالے سے ہم خاصے متاثر ہیں۔

تازہ ترین