• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گو میں فلم دیکھنے کا بھی خاصا شوقین ہوں مگر فلم خصوصاً انگریزی فلموں کی ’’اسٹوری‘‘ سننے کا تو مجھے جنون ہے مگراسی صورت میں اگر یہ ’’اشٹوری‘‘ سنانے والا میرا یار ادّھا پہلوان (ٹھنڈی کھوئی والا) ہو۔ ادّھا پہلوان کو بچپن میں اس کے باپ نے ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ کے لئے کارپوریشن اسکول میں داخل کروایا تھا۔ لیکن یہاں اسے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ کو زنگ لگتا محسوس ہوا اور وہ اکثر اسکول سے غائب رہنے لگا۔ ادھر اس کاباپ محسوس کر رہا تھا کہ دکان پر بیٹے کی عدم موجودگی کی وجہ سے کڑھائیوں کو زنگ لگ رہا ہے۔ لہٰذا اس نے ادّھے پہلوان کو دوبارہ دکان پر بٹھا دیاچنانچہ وہ اس روز سے آدھا وقت کڑاہیاں مانجھنے میں صرف کرتا ہے اور آدھا وقت احباب کو کسی تازہ دیکھی ہوئی انگریزی فلم کی ’’اشٹوری‘‘ سنانے میں مشغول رہتا ہے۔
میں دوپہر کو اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر اس کی دکان کے سامنے سے گزرتا ہوں تو وہ اپنے احباب پھیکا گجر اور غلام نبی خرادیئے وغیرہ کے جھرمٹ میں آدھی سڑک گھیرے مونڈھے پر بیٹھا نظر آتاہے وہ اس سے پورے انہماک کے ساتھ کسی فلم کی کہانی سن رہے ہوتے ہیں مجھے دور سے آتا دیکھ کر ادّھا پہلوان وہیں سے بیٹھے بیٹھے پوچھتا ہے۔
’’قاشمی شاب! آپ نے نابالغ حشینہ دیکھی ہے؟‘‘
میں اس قدر ذاتی سا سوال سن کر نروس ہو جاتا ہوں تاہم وہ میری گھبراہٹ تاڑ لیتا ہے اور اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ اجی وہی نابالغ حشینہ جو صرف بالغوں کے لئے ہے اور ان دنوں ’’اصلاح معاشرہ‘‘ سینما میں چل رہی ہے۔‘‘
یہ سن کر میں اطمینان کا سانس لیتا ہوں اور ماتھے پر سے عرق ندامت پونچھتے ہوئے اس کے قریب پہنچ جاتا ہوں، اس پر وہ آواز لگاتا ہے۔ ’’اوئے چھوٹے ویخدا نئیں بائو ہوڑی کھلوتے ہوئے نیں(سنسرڈ) ایناں لئی اسٹول لے کے آ (سنسرڈ) جب وہ بزعم خود میری اچھی طرح عزت افزائی کرچکتا ہے اور میں یونہی خود کوبے عزت محسوس کربیٹھتا ہوں، نیز دریں اثنا چھوٹااندر سے اسٹول بھی لے آتا ہے تو میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔
’’قاشمی شاب ، فلم دیکھنے کے قابل ہے بس ایک دفعہ دیکھ آیئے۔‘‘
’’کیوں بھئی، آخر کیا ہے اس میں؟‘‘ میں دانستہ یہ سوال پوچھتا ہوں۔
’’اشٹوری اس کی یہ ہے‘‘ خدا اسے ایسا موقع دے۔ چنانچہ وہ شروع ہو جاتاہے۔
’’ہیرو اپنے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے اتنے میں ہیروئن ٹخنوں سے اونچا گھگرا (منی سکرٹ) پہنے اندر داخل ہوتی ہے، ہیرو ایک بار نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھتا ہے اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگتا ہے۔ ہی ہی ہی ، ہے نا عجیب بات، یہ دیکھ کر ہیروئن کچھ کہتی ہے آگے سے ہیرو بھی کچھ کہتا ہے۔ پھر ہیروئن کچھ کہتی ہے اور اس کے بعد ہیرو پھر کچھ جواب دیتا ہے۔ اس پر یہ غصے میں زور زور سے ’’کچھ‘‘ بولنے لگتی ہے وہ اس سے زیادہ زور سے اسے ایک ’’ریپٹا‘‘ دیتا ہے اور وہ آگے سے چیختی ہوئی کہتی ہے، پتہ نہیں کیا کہتی ہے لیکن کیا بات ہے قاشمی شاب اشٹوری کی ! آپ یہ فلم ضرور دیکھیں۔ ‘‘
ادّھے پہلوان سے ایسی ’’ادّی پچدی‘‘ کہانیاں سن سن کر میں بھی آہستہ آہستہ اس کے رنگ میں رنگے جا رہا ہوں ۔ چنانچہ اب تو یہ عالم ہے کہ کوئی دوست کسی فلم ہی کی نہیں، کسی جلسے جلوس کی یا کسی خبر کی بات بھی کرتا ہے تو میں اسے اسی طرح کی ’’ادّی پچدّی‘‘کہانی سناتا ہوں۔ مثلاً گزشتہ دنوں میں نے ایک جلسے میں عوام کی حیثیت سے شرکت کی اور دوستوں نے اس کی ’’اسٹوری‘‘ سنانے کو کہا تو میں نے انہیںبتایا کہ پہلا مقرر جب اسٹیج پر آیا تو اس نے بھی ’’کچھ‘‘ کہا، پھر دوسرے مقرر نے ’’کچھ‘‘ کہا، پھر تیسرے مقرر نے ’’کچھ‘‘ کہا۔ حتیٰ کہ سب مقرروں نے ’’کچھ‘‘ کہا ۔ میری زبانی اس نوع کی کہانی سن کر احباب خاصے نارا ض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اسٹوری سنا رہے ہو یا کسی سرکاری ادارے کی پریس ریلیز سنا رہے ہو۔ مگر میں یہ طعن و تشنیع گول کر جاتا ہوں کہ جانتا ہوں یہ سب تماشبین ہیں!
میں جو آدھی کہانی سناتا ہوں اور وہ جو پوری کہانی سننا چاہتے ہیں۔ سب ادّھے پہلوان ہیں، ہماری آدھی عمر کڑہائیاں مانجھتے گزری ہے، آدھی عمر آدھی خبریں سنتے گزر جائے گی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین