• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گالی اور گولی میں کوئی خاص فرق نہیں۔ لفظی حوالے سے دیکھا جائے تو فرق صرف ایک وائو کا ہے مگر وائو کا یہ اضافہ ایک جہان سے دوسرے جہان کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر دونوں قتل کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ گالی میں بھی ایک طرح کی گولی کی سی کاٹ اور اذیت شامل ہے۔ گولی جسم میں چھید کرتی ہے جب کہ گالی روح میں۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ ایک احساس کو مجروح اور روح کو گھائل کرتی ہے تو دوسری جسم کو۔ گالی میں جو دلی اور ذہنی اذیت شامل ہوتی ہے وہ شاید گولی میں بھی نہ ہو کیوں کہ گولی کا اثر محدود مدت کے لئے ہوتا ہے اور گالی کا اثر جب تک انسان زندہ رہتا ہے اس کے شعور اور احساس میں عجیب سے کرب کی صورت باقی رہتا ہے۔ باشعور انسان گالی کا جواب گالی کی صورت دینے سے گریز کرتا ہے کیوں کہ وہ خود کو اس سطح پر نہیں لے جا سکتا جہاں کسی کی بھی تذلیل کی جا سکے۔ اس کے لئے یہ زیادہ اذیت کا باعث ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے اردگرد لوگوں کو اس حالت میں دیکھے جو انسانیت کی کھلے عام تحقیر کریں۔ قتل احساسات کا ہو یا وجود کا دونوں ہی ناپسندیدہ عمل ہیں۔ کچھ ناگوار باتیں برسوں دل اور روح میں ٹیس کی صورت چبھتی رہتی ہیں۔ انسان لاکھ کوشش کرے انہیں بھلانے میں ناکام رہتا ہے۔ اگر یہ رویہ دوستوں، عزیزوں یا محبت کرنے والوں کی طرف سے ہو تو اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ دلوں کا بھید خدا جانتا ہے مگر ظاہری طور پر دنیا نے تہذیب کا سفر طے کرتے ہوئے اخلاقی قدروں کو پروان چڑھایا ہے اور لہجے کو خوشگوار بنانے کی طرف سفر کو ترویج دی ہے جبکہ پاکستان میں اخلاقی حوالے سے ہم نے مسلسل پستی کی طرف بڑھنے کا رجحان قائم رکھا ہے۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی تو بڑھی، اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اضافہ ہوا، ڈگری ہولڈرز کی تعداد بھی کئی گنا ہوئی مگر مجموعی اندازِ معاشرت تنزلی کی طرف گامزن رہا۔ وہ زمین جس کی دانش سے انسانیت، آفاقیت اور روحانیت سے جڑے ایسے محاورے، ضرب المثل، ٹپے، ماہئے جنم لیتے تھے وہ وحشت ناک کیسے ہو گئی؟ زمین نے اپنا کردار نہیں بدلا وہ تو اب بھی سبزہ اور فصلیں پیدا کرنے میں مصروف ہے انسان نے اپنے چلن میں تبدیلی کر لی ہے۔ ہمارے بڑے بزرگ اعلیٰ اداروں سے تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر انسانی قدروں سے باخبر ہونے کی وجہ سے معاشرتی رویوں میں ہمیشہ بھلائی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تب مادی نقطۂ نظر سے بھلے زندگی اتنی سہل نہ ہو مگر سماجی حوالوں سے اطمینان بخش ضرور تھی۔ شادی بیاہ اور دُکھ کے معاملات میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ پورا گائوں ایک کنبہ بن جاتا تھا کیوں کہ ان کے رویے ذاتی مفادات کی بجائے اجتماعی فلاح کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ پرانے وقتوں میں مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے معاشرے میں صلح جوئی اور بھائی چارے کا پیغام پھیلاتے تھے۔ ہمارے تمام صوفیاء اور اولیاء انہی مدارس سے فیض یاب ہو کر باطن کو تلاشنے اور کائنات کی روح سے ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی زندگی کا حاصل صرف محبت تھا جس سے خدمتِ خلق، امن اور انسانیت کی کرنیں پھوٹیں پھر جدید تعلیم نے روح اور مادے کو الگ الگ راستوں کا مسافر بنا دیا، ہر شے نفع نقصان سے وابستہ ہو گئی، ظاہر کی طلب نے باطن کی کشش کو اوجھل کر دیا جس کی وجہ سے شخصیت کا توازن ڈگمگا گیا۔ انسان بہت سا علم رکھتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوتا چلا گیا۔ چند لمحے مفقود ہوتے گئے جو مکمل یکسوئی سے باطن کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑے ہو کر الوہی راز معلوم کرنے کے لئے ضروری تھے۔ اس صورت حال میں مدارس کا بھی رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ وہاں بھی ترجیحات کچھ اور ہو گئیں۔ فرقہ پرستی نے جڑ پکڑنی شروع کر دی۔
پاکستان میں تقسیم اور مذہبی منافرت کا بڑا کریڈٹ اگرچہ ضیاء الحق کی اصلاحات کو جاتا ہے مگر سیاستدانوں نے بھی مذہب کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا۔ مذہب کی روح امن و آشتی کا پیغام دیتی ہے مگر کسی نے بھی روح سے رابطہ قائم کرنے کی جدوجہد نہیں کی بلکہ اس کی ظاہری حیثیت کو استعمال کر کے وقتی فائدہ حاصل کرنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے مختلف طبقات وجود میں آتے گئے جو دینی سے زیادہ معاشی ضروریات سے جڑے ہوئے تھے۔ ہر کسی نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر دوسروں کو نہ ماننے کی روش اپنائی۔ سیاسی رہنمائوں نے کبھی اس مسئلے کو سلجھانے کی طرف توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے یہ پھلتے پھولتے گئے۔ آج کوئی بھی جنونی شخص مذہب کی آڑ میں اپنے دشمن پر کوئی الزام لگا کر اسے قتل کر سکتا ہے، ثبوت کی بھی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ جو مذہب کا علم رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حقوق العباد کا کیا مرتبہ ہے اور خدا نے اس حوالے سے کیا ارشاد فرمایا ہے اور رحمۃ اللعالمین نے انسانیت کی بقا کو کس درجہ عزیز رکھا ہے؟ تاہم بات پھر سیاست دانوں کی طرف نکل جاتی ہے کہ اگر ہر جماعت اپنے سیاسی ورکروں اور طلبا کی تربیت کرتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی، سیاسی جماعت مرکزی وحدت کی طرف لے کر جاتی ہے اسی لئے جمہوریت کو اعلیٰ نظام کہا گیا ہے مگر پاکستان میں یہاں بھی بات اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کسی جماعت یا شخص کو شکست کا سامنا ہوا اس نے علاقائی پرچم بلند کرتے ہوئے مرکز سے ٹکرانے کی روش اپنائی۔ دوسرے جب رہنمائوں کی تقریروں کا تمام مواد اپنے منشور کی بجائے دوسروں کی خامیوں اور طعن و تشنیع پر مبنی ہو تو جمہور کیسے عزت و احترام کی بات کریں گے۔ اس وقت میدان میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں وہ سب قومی یا صوبائی سطح پر اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں مگر سب ہی اپنے خیالی کارنامے اور دوسروں کی خامیاں بیان کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ایسے میں سماج میں نفرتوں کی پنیری زور پکڑتی جارہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے حالات نے بھی ہمیں اخلاقی طور پر کمزور قوم بنانے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔وفاقی وزیر احسن اقبال ایک شریف النفس، پڑھے لکھے باشعور انسان ہیں۔ ان سے سیاسی اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ذاتی حیثیت میں ان کی شخصیت کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا۔ ان پر حملے کی ہر مکتبۂ فکر سے مذمت کی آواز بلند ہونا ایک اچھا شگون ہے۔ سیاسی، عسکری اور عدلیہ کے معتبر افراد نے اس حملے پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کر کے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ انتخابات قریب ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر انتخابات سخت گرمی کے موسم میں منعقد ہوتے ہیں جب درجۂ حرارت کے ساتھ ساتھ مزاج بھی بلند سطح پر ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو تمام قوتیں اس بات پر متفق ہو جائیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے حالات کو غم و غصے اور نفرت کی فضا سے پاک رکھا جائے گا۔ ہمیں گالی اور گولی کے کلچر کو مسترد کر کے تہذیب اور اخلاقیات کو فروغ دینا ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین