• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1981ءاس حوالے سے عجیب سال تھا کہ اس سال قدرت ملائیشیا پر مہربان ہو رہی تھی اور پاکستان سے قدرت کی ناراضی کا سفر شروع ہو رہا تھا۔اس سال ملائیشیا میں ایک ایسا شخص وزیراعظم بن رہا تھا جس نے اپنے ملک کی تقدیر کو بدلنا تھا، ترقی پذیر ملائیشیا کو ترقی یافتہ بنانا تھا، عین اسی سال پاکستان میں ایک ایسا شخص وزیر بن رہا تھا جس کے نزدیک قانون کی عملداری ضروری نہیں،’’ترقی ‘‘ کیلئے ہر حربہ جائز ہے، جیسے جیسے اس شخص کے اقتدار کا سورج بلند ہوا پاکستان کی تنزلی کا سفر شروع ہو گیا، پاکستان کے لوگوں کی زندگیاں تلخ ہوتی گئیں جبکہ دوسری طرف ملائیشیا میں عوام کی زندگیوں میں آسانیاں آتی گئیں، ملائیشیا طاقتور بنتا گیا اور پاکستان کمزور ہوتا گیا، اسی لئے آج پاکستان کی معیشت تباہی کے کنارے پر ہے، ملائیشین ہم سے پھر اچھے کہ وہ پندرہ سال بعد ڈاکٹر مہاتیر محمد کو پھرسے لے آئے ہیں مگر ہمارے بدھوئوں کو ابھی بھی عقل نہیں آ رہی،ڈاکٹر مہاتیر محمد اور میاں نواز شریف دونوں اپنے اپنے ملک کے لئے کیسے مختلف ثابت ہوئے، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔سچائی کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ ملائیشیا کیسے ترقی یافتہ بن گیا اور پاکستان کے حصے میں رسوائیاں کیسے آئیں، تفاوت کا یہ سفر کیوں ہوا؟
1981ءمیں ملائیشیا کے وزیر اعظم بننے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد کے اجداد کا تعلق ہمارے ہی خطے سے تھا، ایم بی بی ایس کرنے والے مہاتیر نے زندگی کی مشکلات میں جوس بھی بیچا تھا، اب جب وہ ملائیشیا کے وزیر اعظم بن رہے تھے تو ان کے سامنے ایک ایسا ملک تھا جس میں ترقی نہیں تھی، جس میں کرپشن تھی، قانون بھی امیر اور غریب میں فرق کرتا تھا ، مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو ایماندار قیادت فراہم کی، اس نے قانون کی نظر میں سب کو ایک کر دیا، اس نے کرپشن کو ختم کرکے رکھ دیا، لوگ رشوت کے بغیر کام کروانے لگے، ترقی پذیر ملائیشیا کی ترقی کو پہیے لگ گئے ڈاکٹر مہاتیر محمد بائیس سال وزیر اعظم رہے،اس بائیس سالہ دور میں مہاتیر نے ملائیشیا کو ترقی یافتہ بنا دیا۔
مہاتیر کے مقابلے میں میاں نواز شریف نے کیا کیا، 1981ءمیں وہ بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے ضیاءالحق کی چھتری تلے وزیر بنے، یہ سایہ کافی عرصہ سلامت رہا اس دوران نواز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے۔وزیر اعلیٰ بن کر انہوں نے اے ایس آئی اور نائب تحصیلداروں کی ایک فوج بھرتی کی جن میں اکثر آج کل پنجاب میں ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او اور بعض تو ڈی آئی جی بنے ہوئے ہیں، اسی دور میںبینکوں سے قرضے لیکر معافی کا رواج ڈالاگیا، بڑے بڑے منصوبوں میں بڑے بڑے گھپلوں کا انکشاف ہوا یہی دور تھا جب 24گھنٹوں کے لئے ڈیوٹی معاف کرکے گاڑیاں منگوائی جاتی رہیں، اس عہد میں کبھی پیلی ٹیکسی اسکیم تو کبھی ’’قرض اتارو ، ملک سنوارو‘‘کی داستانیں رقم ہوئیں۔ حالیہ عہد میں تو انتہا ہی ہو گئی پاکستان نے اتنے قرضے لئے جتنے کبھی نہیں لئے تھے، آج پاکستان قرضوں تلے دبا ہوا ہے ، پاکستان کے کئی ادارے برباد ہو چکے ہیں پاکستان کی حالت یہ ہے کہ ملک چلانے کے لئے کئی اثاثے گروی رکھے جا چکے ہیں، پاکستان کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلنے والا شخص’’ بیمار‘‘ بنا ہوا ہےاور لندن میں ’’زیر علاج‘‘ ہے۔ اگرچہ نواز شریف نااہل ہو چکے ہیں مگر حکومت ان کی پارٹی ہی کی ہے، اب وہ سب نیب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کا خیال ہے کہ کسی طرح بچ جائیںگے لیکن شاید ایسا نہ ہو لگتا ہے قدرت پاکستان پر مہربان ہونے والی ہے، اب پاکستان میں بہر نوع من مانی کا خاتمہ ضروری ہو چکا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا مہاتیر نے 2003ءمیں ریٹائرمنٹ لے لی تھی مگر اس کے جانے کے بعد ملائیشین چور پھر سرگرم ہو گئے، اس کے ملک میں پھر سے کرپشن آ گئی ، خاص طور پر نجیب رزاق کے چرچے عام ہوئے تو صرف 2سال پہلے مہاتیر نے پارٹی بنائی اور آج اس کی پارٹی جیت چکی ہے، آج 92سالہ شخص پھر سے وزیر اعظم بننے جا رہا ہے۔ ملائیشین مہاتیر محمد کو نہیں بھولے کیونکہ مہاتیر نے ترقی کے نام پر لوٹ مار نہیں کی تھی، اس نے مالے کے معاشرے میں ’’خاندان کے ادارے‘‘ کو قائم رکھا۔ مہاتیر نے ریاست میں آئین اور قانون کی پاسداری یقینی بنائی، وسائل کی تقسیم کا منصفانہ نظام بنایا، اس نے نظم وضبط میں جھول برداشت نہ کیا، اس نے انسانی حقوق و فرائض میں توازن معاشرے کا حصہ بنادیا، مہاتیرمحمد نے ترقی کے اس سفر میں شاندار اسلامی روایات کو قائم رکھا، مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا نہ ہو سکا، ہمارے ملک پر حکومت کرنے والوں نے ملک کا نہ سوچا، وہ اپنا ملک لوٹ کر جائیدادوں کے انبار بیرون ملک لگاتے رہے، آج انہی کی وجہ سے پاکستان بہت پیچھے چلا گیا ہے، ان کے ’’کارناموں‘‘ کے باعث پاکستان کو بہت نقصان ہوا، یہی پاکستانِ کی داستان غم ہے، بہت افسوس ہے کہ مہاتیر محمد نے جو کچھ ملائیشیا کیلئے کیا اس کے برعکس میاں نواز شریف پاکستان کے لئے وہ کچھ نہ کر سکے ۔میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا عرصہ اقتدار بھی مہاتیر محمد سے زیادہ ہے، اب بھی نواز شریف کے بھائی ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں مگر افسوس کہ آج کے پاکستان سے ساٹھ کی دہائی کا پاکستان بہتر تھا، اس وقت پاکستان قرضے دے رہا تھا اور آج بدقسمتی سے بہت مقروض ہےیہ کریڈٹ کس کو جاتا ہے ؟بقول سعدیہ بشیر
پرانے زخم تو اب فارغ التحصیل ٹھہرے ہیں
ابھی تعلیم جاری ہے، نئے کچھ داخلے بھی ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین