• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً دو ہفتے ہوگئے ہونگے جب مظہر برلاس اور میں ڈیرہ غازی خان میں سردار ذوالفقار کھوسہ کی رہائش گاہ پر سرائیکی صوبے کے موضوع پر گفت و شنید کررہے تھے ۔مجھے لگ رہا تھا یہ بھی ذہنی طور پرپی ٹی آئی کی طرف روانہ ہیں ۔کل جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں جب انہوں نے کہاکہ نون لیگ جنوبی پنجاب کوصوبہ بنانے میں قطعاً سنجیدہ نہیں تو وہی گفتگو ذہن میں لہرا گئی۔ عمران خان کا اقتدار کےپہلے سو دن میں صوبہ بنانے کا اعلان سرائیکی علاقوں میں اُن کی مقبولیت میں فوری طور پر بے پناہ اضافہ کرگیا ہے میانوالی سے رحیم یار خان تک لوگ کیفیتِ جشن میں ہیں۔ یہ صرف صوبہ محاذ کے بیس ارکان اسمبلی کی تقریب ِشمولیت نہیں تھی سرائیکی تحریک سےوابستہ لاکھوں لوگوں کاپی ٹی آئی میں شرکت کا اعلان تھا۔ یقیناً انہیں بے پناہ خوش ہونا چاہئے ۔وہ جو برسوں سے اپنی آنکھوں میں سرائیکی صوبے کا خواب لئے جی رہے تھے انہیں تعبیر دکھائی دینے لگی ہے۔ ہائے ان کے دکھ کیا بیاں کروں روہی، تھل اور دامان کی پیاس بھری زمین کی کوکھ سے نکلے ہوئے یہ لوگ جب لاہور شہر کی سڑکوں پر بھی فوارے دیکھتے تھے تو انہیں تکلیف ہوتی تھی۔ اپنی بستیوں میں اڑتے ہوئے ریت کے بگولے یاد آتے تھے ۔شاعرکہہ اٹھتے تھے۔ ’’تیرے شہر کی گلیوں میں بھی چنبلی کے پھول کھلتے ہیں اور میرے تھل کے ٹیلے سبزے کےلئے ترستے ہیں۔‘‘ وہ جب بارہ بارہ گھنٹوں کا سفر کر کے لاہور پہنچتے تھے اور کلرک بادشاہوں کے درباروں کا چکر لگانے کےلئے انہیں دوچار روز ہوٹلوں میں قیام کرنا پڑتا تھا تو احتجاجاً اِس سچ کو بار بار دھرادیتےتھے۔ ’’میں پیاسا ۔میری دھرتی پیاسی ۔میری پہچان پیاس کہلائی۔ مجھے کہو مت پانچ دریائی‘‘ (سرائیکی علاقہ سے گزرنے والےدریا ئے سندھ کا تعلق پنجاب سے نہیں۔ پنجاب بیاس، راوی، ستلج، جہلم اور چناب کے پانچ پانیوں کی سرزمین ہے) بہر حال سرائیکی بہت خوش ہیں کہ صوبہ بننے کی کوئی پہلی سنجیدہ کوشش سامنے آئی ہے۔ لوگ البتہ یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ اِسے ’’صوبہ جنوبی پنجاب‘‘ کیوں کہاجارہا ہے۔ سرائیکی صوبہ کیوں نہیں کہا جارہا۔ ان کے لئے عرض ہے نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا صوبہ بن لینے دیجئے۔ نام تو کسی وقت بھی بدلا جاسکتا ہے اگر ’’صوبہ سرحد‘‘ کانام بدل کر صوبہ پختونخوا رکھا جاسکتا ہے تو صوبہ جنوبی پنجاب کا نام کسی بھی وقت سرائیکی صوبہ رکھا جاسکتا ہے۔
1982 میں روشن ملک کے ساتھ مل کر میں نے جب میانوالی سے پہلا سرائیکی زبان کا ماہنامہ ’’پرچول‘‘ اور سرائیکی ہفت روزہ اخبار ’’مہاری‘‘ نکالا تھا تو اُس وقت میرے پنجابی دوست مجھ پر ہنسا کرتے تھے جب ضلع کونسل میانوالی نے پاکستان کی تاریخ میں پہلے سرائیکی صوبے کے قیام کی قرارداد منظور کی تھی تو کسی نے تبصرہ کیا تھا۔ ’’صوبےضلع کونسل کی قراردادوں سے نہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی قانون سازی سے بنا کرتے ہیں اور اگلے سو سال تک ایسا کوئی امکان نہیں‘‘۔ اُس وقت سرائیکی صوبہ کی تحریک کو’’ملک دشمن تحریک سمجھا جاتا تھا۔ سرکار ہماری سرگرمیوں پر نظر رکھتی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ ہم تقسیم در تقسیم کے کسی غیر ملکی فارمولے پر کام کررہے ہیں۔ اُس وقت بھی ہم یہی کہتے تھے کہ سرائیکی صوبہ ملک کی بہتری اور بقا کا ضامن ہے۔ آج ہر اہلِ نظر پر یہ حقیقت منکشف ہو چکی ہے کہ یہ تقسیم کی فصیلیں اصل میں جمع کے مورچے ہیں۔
صوبے کے نام پرتحریک انصاف میں شامل ہونے والوں میں رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار، بہاولنگر سے طاہر بشیر چیمہ، وہاڑی سے طاہر اقبال چوہدری، ملتا ن سےرانا محمد قاسم نون، مظفر گڑھ سے مخدوم زادہ باسط بخاری، راجن پور سے سردار نصراللہ خان دریشک، بہاولپور سے سمیع اللہ چوہدری، نوشہروفیروز سے اصغر علی شاہ، بہاولپور ون سے مخدوم سید افتخار حسن گیلانی، مظفر گڑھ سے میاں علمدار عباس قریشی ،محمد ذیشان گورمانی، غلام مرتضیٰ رحیم کھر اور سردار خان محمد جتوئی، خانیوال سے منتخب محمد جمیل شاہ اورکرم داد واہلہ، لیہ سے سردار قیصر عباس خان مگسی، ڈیرہ غازی خان سےسردار محمد خان لغاری، مقصود احمد خان لغاری، سردار فتح محمد خان بزدار اور چوہدری محمد عالم گجر ہی صرف شامل نہیں ہوئے سابق وزیراعظم بلخ شیرمزاری بھی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں اس سے پہلے اُن کا پوتا میر دوست مزاری تو تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا مگر وہ خود شامل نہیں ہوئے تھے۔ سرائیکی علاقہ میں رحیم یار خان سے لیہ تک توپی ٹی آئی کی پوزیشن بالکل واضح ہے شاید ہی نون لیگ یا پیپلز پارٹی یہاں سے کوئی سیٹ نکال سکے۔ حتی کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی ملتان کے حالات سے سخت پریشان ہیں اور اپنے قریبی لوگوں کو تحریک انصاف میں شمولیت کا مشورہ دے چکے ہیں مجھے یاد ہے لندن میں جب میری اُن کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں اُن کا بیٹاعلی حیدر گیلانی بھی اُن کے ساتھ تھا اوروہ میری اِس بات پر متفق تھا کہ آصف علی زرداری کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں زندہ نہیں کیا جاسکتا ۔یوسف رضا گیلانی کو عملی سیاست میں لانے والا حامد رضا گیلانی تھا۔ ملتان کے لوگ جانتے ہیں کہ حامد رضا نے یوسف رضا کو ضلع کونسل کا ممبر بنوایا تھا اُس حامد رضا گیلانی کا صاحبزادہ محمدر ضا گیلانی بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے ماموں زاد بھائی احمد محمود بھی پریشان ہیں کہ اُن کےلئے رحیم یار خان میں الیکشن جیتنا مشکل ہوچکا ہے۔ لیہ سے پی ٹی آئی کا صرف ایک ایم پی اے مجید خان تھا مگرچند روز پہلے پی پی پی کا ایم پی اے سردار شہاب الدین سیہڑ پی ٹی آئی میں شامل ہوا ہے۔ نون لیگ کے سابق ایم این اے ملک غلام حیدر ر بھی چند روز پہلے پی ٹی آئی میں آگئے ہیں۔ نون لیگ کے سردار قیصر عباس خان مگسی نے بھی صوبے محاذ کے ساتھ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگر چہ پچھلے دو دن سے یوسف رضا گیلانی بھی لیہ میں ہیں ۔ بلاول بھٹو بھی آج لیہ پہنچ چکے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہاں سے کوئی سیٹ نکالیں مگر لیہ میں پی ٹی آئی کی مقبولیت اور نئے شامل ہونے والے مضبوط امیدوار وں کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ اس مرتبہ پی پی پی کو وہاں کوئی کامیابی ملے۔
لیہ کےآگے ضلع بھکر ہے۔ نون لیگ کے سابق ایم این اے ثنااللہ مستی خیل بھی ایک آدھ دن میں پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں گے۔ نوانی گروپ بھی عمران خان سے ملاقات کر چکا ہے۔ اس کے بعد میانوالی آتا ہے جو عمران خان کا اپنا ضلع ہے۔ وہاں دو سیاسی خاندان پی ٹی آئی سے باہر تھے ایک شادی خیل اور دوسرا روکھڑی نون لیگ کے ایم این اے عبیداللہ شادی خیل کا کزن شادی خیل قبیلے کا سربراہ عطااللہ شادی خیل توبہت عرصہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا تھا۔ ابھی دو دن پہلے روکھڑی گروپ کے سربراہ عادل عبداللہ نے بھی عمران خان سے ملاقات کی ہے یعنی میانوالی میں اب صرف پی ٹی آئی ہی رہ گئی ہے۔ میانوالی کے لوگ یہ حیرت انگیز منظر دیکھنے والے ہیں کہ امیر عبداللہ روکھڑی کاپوتا اپنے دادا کے سیاسی حریف ڈاکٹر شیر افگن خان کے بیٹے امجد خان کی انتخابی مہم میں اُس کے شانہ بشانہ نظر آرہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین