• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے کالم میں بھی بجٹ جیسے انتہائی اہم اور حساس ایشو پر حکومت کی عدم دلچسپی اور بجٹ کو آئین، قانون اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق تیار کرنے اور متعلقہ اداروں اور قومی اسمبلی سے منظور کرانے سے احتراز والے رویے کے مختلف پہلوئوں کا مختلف حقائق، ملکی اور خاص طور پر سندھ کے اقتصادی ماہرین کی آرا کی روشنی میں جائزہ لینے کی کوشش کروں گا مگر آگے کیوں جائیں، اگر فقط اس بات کا نوٹس لیں کہ بجٹ پر غور کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی کتنی دلچسپی ہے کہ اجلاس میں اسمبلی کے صرف چار ممبران بیٹھے ہوئے تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بجٹ پر غور کرنے کے لئے منعقد کیے گئے قومی اسمبلی کے گزشتہ دنوں کے اجلاسوں میں اپوزیشن کی تو دلچسپی نظر آئی مگر وزراء اور حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی غیرحاضر دیکھے گئے اور تو اور ایک اجلاس میں تو اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی غائب تھے اور قومی اسمبلی میں اس وقت موجود سرکاری پارٹی کے ایک ممبر اس اجلاس کی صدارت کررہے تھے یہ سب کچھ دیکھ کر پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ غیر آئینی طور پر بجٹ این ای سی سےمنظور کرانے، فقط ایک دن پہلے وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے والے وزیر کی طرف سے یہ بجٹ پیش کیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم این ایز، وزراء، حتیٰ کہ وزیر اعظم اور اسپیکر وغیرہ کی اس حد تک عدم دلچسپی کا مظاہرہ ہونے کے بعد بھی اس بجٹ کو تسلیم کیا جائے اور ایسے بجٹ کو آئین‘ قانون اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق قرار دیا جائے؟ علاوہ ازیں چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ کے اقتصادی ماہرین اس بجٹ کو صوبوں کے حقوق کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ کے کئی ممتاز اقتصادی ماہرین نے اس بجٹ کو آئین اور قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں سندھ کی ضرورتوں اور حتیٰ کہ ان کے جاری اہم منصوبوں کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ یہ ماہرین بجٹ پیش ہونے کے بعد سے سندھی چینلوں پر کئی بار اپنی آرا کا اظہار کرچکے ہیں، کاش اردو چینلوں کی طرف سے بھی سندھ کے ان ممتاز اقتصادی ماہرین کو مدعو کرکے معلومات لی جائیں تاکہ ملک بھر کے عوام سندھ کی رائےاور موقف سے آگاہ ہوسکیں۔ سندھ کے ان اقتصادی ماہرین کا ایک تو یہ اعتراض ہے کہ چار سال سے این ایف سی ایوارڈ نہیں دیا جارہا ہے اس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے پناہ زیادتیاں کی جارہی ہیں، ان میں سے کچھ اقتصادی ماہرین نے توجہ مبذول کرائی ہے کہ ترقیاتی پروگرام کے ذریعے زیادہ تر پنجاب کے منصوبوں کے لئے رقم مختص کی گئی ہے جبکہ سندھ کے لئے برائے نام رقم رکھی گئی ہے، مجھے پتہ نہیں کہ باقی دو صوبوں کے اقتصادی ماہرین کی کیا رائے ہے۔ سندھ کے کچھ اقتصادی ماہرین خاص طور پر اس بات کی شکایت کررہے ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت نے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کے منصوبے میں بھی فی الحال زیادہ سے زیادہ منصوبے پنجاب میں شروع کیے ہیں جبکہ باقی صوبوں میں برائے نام منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں سی پیک کے تحت ملک بھر میں شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے موجودہ حکومت نے زیادہ منصوبے پنجاب میں مکمل کیے ہیں یا شروع کیے ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان میں شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبے پنجاب کے منصوبوں کے عشر عشیر بھی نہیں حالانکہ سی پیک کے مطابق کم سے کم شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے ترجیح سندھ اور بلوچستان کو دینی چاہئے تھی۔ اس سلسلے میں ماہرین کا موقف ہے کہ سی پیک کی شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے سندھ اور بلوچستان Tail End صوبے ہیں، کیا وفاقی حکومت اور اس کے ماہرین اس بات سے آگاہ نہیں کہ سی پیک کے تحت جو بھاری ٹرک سندھ اور بلوچستان کی شاہراہوں کو استعمال کریں گے، ہیوی ٹرالرز کے ذریعے جو انتہائی بھاری مشینری آئے گی، اس کی منزل سندھ اور بلوچستان ہوگی جبکہ پنجاب میں یہ ٹریفک تو جزوی طور پر آئے گا۔ اس پس منظر میں سندھ کے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ مرکز نے جان بوجھ کر یہ اقدامات کیے کیونکہ انتخابات قریب تھے اور اس بار (ن) لیگ کی قیادت کو اندیشہ تھا کہ کہیں (ن) لیگ مرکز میں اقتدار میں نہ آسکے۔ علاوہ ازیں ان ماہرین نے ایک بار زوردار انداز میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب انتخابات ہونے والے ہیں تو موجودہ حکومتوں کی رٹ دو ماہ تک ہوگی تو بجٹ سارے سال کے لئے پیش کیے جانے کا کیا جواز ہے؟ ان ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ اس بجٹ میں لوگوں کو خوش کرنے اور انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے بڑے اعلانات کیے گئے ہیں کیا اس بجٹ کے ذریعے پاکستان کو جنت میں تبدیل کردیں گے؟ سندھ کے عوام کو تو ویسے بھی اس بات پر شدید اعتراضات ہیں کہ جن وفاقی اداروں کی طرف سے بجٹ کی تجاویز تیار کی گئی ہیں کیا ان کو وفاقی ادارے کہا جاسکتا ہے، سندھ سوال کرتا ہے کہ کیا ان اداروں کو حقیقی معنی میں وفاقی کہا جاسکتا ہے۔ پلاننگ کمیشن، فنانس ڈویژن اور ایسے دیگر اداروں میں سندھ کی کیا نمائندگی ہے؟ مثال کے طور پر سندھ کے ماہرین سوال کرتے ہیں کہ بتایا جائے کہ پلاننگ ڈویژن جو بجٹ تجاویز تیار کرنے والا اہم ادارہ ہے اس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے اور بڑے افسران کی کتنی تعداد ہے، کتنے عرصے سے پلاننگ ڈویژن کا سیکرٹری ایسے کسی افسر کو مقرر نہیں کیا گیا جس کے پاس سندھ کا ڈومیسائل، چلئے سیکرٹری کا ذکر نہیں کرتے، یہ بتایا جائے کہ پلاننگ ڈویژن میں کن عہدوں پر سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے افسر مقرر ہیں اگر نہیں ہیں تو کب سے یہ صورتحال ہے؟ اوریہی صورتحال فنانس ڈویژن کی نہیں ہے تو ایسے ادارے حقیقی معنی میں وفاقی ہونے چاہئیں اگر محض کچھ لوگوں کی میراث بنے ہوئے ہیں تو کیا ایسے اداروں کی طرف سے تیار کیے گئے بجٹ کو آئین کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ کہ کیا ایسے بجٹ کو وفاقی بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج کل یہ سوالات خاص طو رپر سندھ کے اقتصادی ماہرین اور دانشوروں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس پریکٹس کو ختم کیا جائے اور نہ صرف سارے اداروں کو حقیقی وفاقی ادارے بنایا جائے بلکہ سارے صوبوں کو تمام سرگرمیوں میں مساوی حصہ دار بنایا جائے، یہی بات پاکستان کے مفاد میں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین