• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہا پسندانہ اقدامات سے عالمی امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ امریکہ کے اسرائیل اور بھارت کی طرف جھکائو سے معاملات دن بدن بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں، عالمی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال تشویشناک ہوچکی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی مظالم بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت پر غیرمعمولی نوازشات کا یہ نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ پاکستان امریکی کیمپ سے دور ہوچکا ہے اور چین کیساتھ مستقبل میں ترقی وخوشحالی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے حالیہ اعلان سے ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر سخت معاشی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ جاری رہا تو ایران بہت جلد ایٹمی ہتھیار حاصل کرلے گا۔ اقوام متحدہ نے امریکہ کے ایران ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہونے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یورپی ممالک کو تاکید کی ہے کہ وہ اس ڈیل پر قائم رہیں۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے امریکہ کے انتقامی رویے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ایرانی جوہری معاہدہ امریکہ، جرمنی اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل ممالک کے ساتھ 2015میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ایران 5فیصد سے زیادہ یورینیم کی افزودگی روک دے گا اور آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر کام نہیں کرے گا۔ اس جوہری معاہدے کی وجہ سے ایران پر معاشی پابندیوں پر نرمی کردی گئی تھی اور اُسے تیل فروخت کرنے کی حد مقرر کرکے 14ارب بیس کروڑ ڈالرز کا زرمبادلہ بھی حاصل ہوا تھا۔ ایران پر اس معاہدے کی رو سے کوئی نئی پابندی بھی نہیں لگائی گئی تھی لیکن اب امریکی حکومت کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے بعد دوبارہ سخت معاشی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے جو سراسر ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت نے ایران سے ایٹمی معاہدہ ختم کرکے اسرائیل کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے ٹرمپ کے اقدام کو دلیرانہ قرار دے کر اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ نفسیاتی جنگ کا نتیجہ ہے۔امریکہ کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کے باوجود ایران ترقی کے سفر کو جاری رکھے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیردانشمندانہ اقدام کیخلاف یورپی یونین، روس، چین، ترکی اور پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پرخلوص دل سے عملدرآمد کیا جس کی گواہی برطانیہ، جرمنی، فرانس اور روس نے بھی دی ہے۔ امریکہ کبھی ایرانی جوہری معاہدے سے مخلص نہیں تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے بھی کئی بار ایرانی ایٹمی معاہدے کو توڑنے کی دھمکیاں دے چکے تھے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد کیا ہے۔ اب اس معاہدے کے ثمرات امریکہ سمیت یورپی ممالک کو مل رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر عالمی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ سابق صدر اوباما کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ گمراہ کن اور سنگین غلطی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ نے ایران سے جوہری معاہدہ ختم کردیا ہے اور دوسری طرف وہ شمالی کوریا سے نیوکلیئر پاور کے حوالے سے پُرامن مذاکرات کا خواہاں ہے۔ یہ امریکی صدر ٹرمپ کے دہرے معیارات ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر عدم توازن پیدا ہوگا۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد کوریا کے خطے میں امن عمل مشکوک ہوگیا ہے۔ شمالی کوریا امریکہ پر اب کبھی اعتماد نہیں کرے گا۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اس کے اچھے اثرات نہیں پڑیں گے۔ شام، لیبیا، عراق میں خانہ جنگی مزید بڑھے گی۔ مسلمان ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہونے سے اسرائیل مضبوط ہوگا اور اس کا اسلام دشمن ایجنڈا کامیاب ہوجائے گا۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان یہ جوہری معاہدہ2015میں طے ہوا تھا۔ اس معاہدے میں امریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور یورپی یونین شامل تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے رواں ماہ 12مئی کو اس معاہدے کی تجدید کرنا تھی لیکن انہوں نے معاہدے کی تجدید کی بجائے اُس کی منسوخی کا اعلان کر کے دنیا کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کے علیحدہ ہونے سے تیل اور ہوا بازی سیکٹر کی کمپنیوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ایران کیساتھ سمجھوتے کروانے والی کمپنیوں کے معاہدے جن کا دنیا بھر میں امریکہ کیساتھ تجارتی اور بینکاری کاتعلق ہے، اُنکو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے عائد کرنے سے مزید مسائل اور خطرے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایرانی معاہدہ ختم ہونے سے حالات سنگین ہوجائیں گے۔ اس سے خطے کے حالات تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اسی تناظر میں یورپی گروپ ایئربس نے دو سال سے ایرانی فضائی کمپنی کیساتھ 19ارب ڈالر کے100طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح امریکی بوئنگ کمپنی کا ایران کے ساتھ 17ارب ڈالر مالیت کے 30طیاروں کی فروخت کا معاہدہ ہے۔ امریکی ہٹ دھرمی سے یہ معاہدے اب پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکیں گے۔ یورپی یونین کے کئی رہنمائوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایران کے ساتھ معاہدہ نہ ختم کرنے کی اپیل کی تھی مگر انہوں نے کسی کی بات کو اہمیت نہیں دی اور اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے۔ فرانسیسی کمپنی ٹوٹل نے بھی ایران کیساتھ 20سال کی مدت کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ امریکہ نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تو ایران اُسے منہ توڑ جواب دے گا۔ ایرانی حکومت نے ایسے کسی بھی ممکنہ اقدام پر اپنے ادارے اٹامک انرجی کو سخت مزاحمت کاحکم دے دیاہے۔ ماضی میں ایران کی طرح امریکہ نے پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام پر بھی ناروا پابندیاں لگائی تھیں لیکن پاکستانی قوم نے امریکی پابندیوں کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھا اور ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ 1998 میں پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے قبل بھی امریکہ نے روکا اور دھمکیاں دیں۔ اس موقع پر پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ اس معاملے میں جرات مندی اور دلیری کاثبوت دیا اور ایٹمی دھماکے کر کے ثابت کردیا کہ پاکستانی ایک ناقابل تسخیر قوم ہیں۔ اس وقت ایرانی عوام میں بھی یہی جذبہ پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ یورپ اور اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار رکھنے کا حق حاصل ہے تو پھر کیوں مسلمان ممالک کو اس حق سے محروم کیا جاتا ہے؟ پاکستان اور ایران کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو خطرہ نہیں۔ البتہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کیلئے ایران، ترکی سمیت دیگرمسلمان ملکوں کے پاس نیوکلیئرطاقت ہونی چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین