• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


متنازعہ اور مقبول، یہ وہ دو ایسی خصوصیات ہیں، جو اردو ادب میں سعادت حسن منٹو کے ساتھ وابستہ کی جائیں ، تو بے جا نا نہ ہو گا۔ ترقی پسند اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو قلم سے الفاظ میں ڈھالنے والے سعادت حسن منٹو کی آج 106 ویں سالگرہ ہے۔

11مئی 1912کو سعادت حسن منٹو نے لدھیانہ میں جنم لیا، ہوشمندی کا دور شروع ہوا تو ارد گرد کا ماحول اور معاشرے میں پھیلی نا انصافیاں منٹو کے قلم سے نکل کر کاغذوں پر نقش ہوتی چلی گئیں۔

منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھا۔ جو سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔

ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔ وہ ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔

1921ء میں انہیں ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔

میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا-

انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو شامل ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے معاشرے کی زبوں حالی، پسے ہوئے طبقات کا احوال، کڑوے سچ کی داستانیں اور وہ موضوعات جن پر بات کرنا، کہنا حتی کہ سننا بھی مشکل مانا جائےوہ کر کے دکھایا ہے۔

انہوں نے مختصرکہانیاں، ریڈیو پلے، ناول، کرداروں کے خاکے، سب ہی کچھ آنے والی نسلوں کے لئے قلم بند کئے۔

وکٹر ہوگو، آسکر وائلڈ، چیکوو اور گورکی کے مضامین کے مترجم کے طور پر ادب سے منسلک ہونے والے منٹو، کب انڈین پرگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے، اس کا اندازہ انہیں بھی نہ ہوا، بس معلوم رہا تو یہ کہ انکا قلم ٹوبا ٹیک سنگھ ، ٹھنڈا گوشت، کھول دو اور کالی شلوار جیسے شاہکار تخلیق کرتا چلا گیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین