• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ُُُُُُُُچند روز قبل ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر بابر غوری نے جیو کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بات کرتے ہوے کہا کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کی بجائے سیکولر ریاست بنانے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسلام اور ریاستی امور کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے بلکل اُسی طرح جس طرح بنگلہ دیش میں مذہب اور ریاستی امور کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ چوں کہ میں بھی وہاں موجود تھا تو میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کو کوشش کی گئی تو یہ ملک کو توڑنے کی ایک سنگین سازش ہو گی۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ پاکستان کو اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظریہ یا نظام نہیں بچا سکتا اس لیے اس بحث میں پڑے بغیر کہ ہمیں قائد (اعظم) کا پاکستان چاہیے یا طالبان کا ، ہماری جدوجہد ہونی چاہیے کہ ہم پاکستان کو اللہ اور اُس کے رسول کی تعلیمات اور بتائے ہوے اصولوں کے مطابق چلائیں۔ شو کے آخر میں غوری صاحب کا کہنا تھا کہ سیکولر پاکستان کا مطالبہ کرنے والے بھی مسلمان ہیں اور اللہ اور رسول سے محبت کرتے ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہو گا مگر اللہ اور رسول سے یہ کیسی محبت ہے ہم دین کو عبادات کی حد تک محدود کر دیں اورشریعت کی اُن تمام باتوں کو رد کر دیں جن کا تعلق معاملات اور خصوصاً ریاست کے معاملات سے ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے، بتاتا ہے کہ کاروبار کیسے کیا جانا چاہیے، سود سے کیوں کر ہر حال میں باز رہنا چاہیے، حکومت، سیاست اور جنگ کے کیا کیا اصول ہیں، ایک بہترین معاشرہ کے قیام کے لیے لوگوں کو کس قسم کا ماحول فراہم کیا جائے، جزاو سزا کے کیا طریقے ہوں گے، کن کن جرائم کے لیے کون کون سی سزاوں کا نفاذ ہو گا، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا کیسے تحفظ کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ شریعت کے ایک حصہ کو پکڑ کر اور دوسرے حصہ کو چھوڑ کر ہم کس قسم کے اسلام کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کا آئین اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے ۔ اگرچہ یہ وعدہ عدہ ہی رہا مگر ماضی میں پاکستان کے اسلامی نظریہ کو کم ہی اس طرح سے نشانہ بنایا گیاجس کا اظہار 9/11 کے بعد” روشن خیالوں“ کی طرف سے دیکھا جا رہا ہے۔ اب تو سیکولر اور لبرل طبقہ کھلے عام دو قومی نظریہ کا مزاق اڑاتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک اسلامی آئین اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر غلطی کی تھی۔ وزیر اعظم کے ایک مشیر اور ایک وفاقی وزیر نے حال ہی میں کچھ دوسرے افراد کی موجودگی میں میرے ساتھ اس معاملہ میں بحث کرتے ہوے بھٹو کو ان وجوہات کی بنا پر غلط قرار دیا۔ ہو سکتا ہے اُن کی نیت نہ ہو مگر جس رستہ پر پاکستان کو ڈالنے کو کوشش کو جا رہی ہے وہ رستہ پاکستان کی مکمل تباہی اور بربادی کا ہے۔ آئینی وعدہ کے باوجود اسلامی نظام کے نفاذ کے برعکس سیکولرزم کے فروغ نے پہلے ہی ہمیں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے اور اگر ہم نے باقاعدہ سیکولرزم کو اپنا نظریہ و نظام تسلیم کر لیا توپاکستان کویکجا رکھنے کا کوئی دوسرا زریعہ نہیں بچے گا۔ حال ہی میں امریکا کی اسلام دشمن وڈیو کے خلاف مظاہروں میں otherwiseزبان، نسل، علاقہ، سوچ اور فرقوں میں منقسم پاکستان متحد نظر آیا۔ آخر وہ کون سا سانجھا دکھ تھا جس نے پاکستان کے کونے کونے میں سب کو یک زبان کر دیا؟؟؟ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ بلوچستان کے چپے چپے میں پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح حرمت رسول کے حق میں مظاہرے ہوں گے؟؟؟ ان مظاہروں نے ثابت کیا کہ اسلام وہ واحد حل ہے جس کی بنیاد پر پاکستان متحد اور قاہم و دائم رہ سکتا ہے۔
یہاں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ محض فیشن کے طور پر بغیر سوچھے سمجھے خود کو سیکولر کہلوانا پسند کرتے ہیں کیوں کہ اسلام کا نام لینے والوں کا اب تو یہاں مزاق اڑانے کو کوشش کی جاتی ہے۔ اگر اسلام کے نفاذ کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ آپ طالبان کا گلے کاٹنے والا نظام لانا چاہتے ہیں۔ کچھ سیکولر اور لبرل فاسشٹ تو اسلامی سزاووں کا کھلے عام مزاق بھی اڑاتے ہیں اور پاکستان میں فحاشی کا دفاع کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ہم نے تو ان لوگوں کو پارلیمنٹ کے ممبران کو اُلو کے پٹھے بھی کہتے سنا کیوں کہ اٹھارویں ترمیم میں کسی بھی اسلامی شق (بشمول وہ جو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے آئین میں شامل کی تھیں) کو آئین سے نہیں نکالا۔ ان سیکولر اور لبرل فاسشٹوں کے پیٹ میں اس لیے بھی مڑور پڑا کہ قومی اسمبلی نے حال ہی میں فحاشی کے خلاف اور اسلامی اقدار کے حق میں ایک متفقہ قراردار کیوں پاس کی۔ جہاں تک شوقیہ سیکولرز کا تعلق ہے اُن کو چاہیے کہ وہ حال ہی میں طارق جان کی شائع ہونے والی کتاب ”سیکولزم۔ مباحثہ اور مغالطے“ پڑھ لیں بہت سی
غلط فہمیاں دور ہو جاہیں گی۔ اس کتاب کے کچھ اقتسابات قارئیں کے لیے پیش کرتا ہوں: ”.... یہ سوچنا کہ دونوں (مذہب اور سیکولرزم)باہم رہ سکتے ہیں دونوں کی فطرت سے ناواقفی کی دلیل ہے۔ ان کا ٹکراو ان کی فطرتوں میں ودیعت ہے۔ مذہب کو زندہ رہنے کے لیے لازم ہے کہ وہ پہاڑوں اور غاروں سے اُترے اور زندگی کے بہاو میں آئے۔ سیکولرزم کو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب پہاڑوں پر اور مزاروں اور خانقاہوں میں ہی رہے تا کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے انسانی آدرشوں کو اُن کے اخلاقی اور روحانی متن سے محروم کرے.............. ساتھ ہی یہ بات بھی بے جوڑ ہے کہ ایک شخص خدا پر ایمان بھی رکھے اور سیکولر بھی ہو ۔ کیوں کہ ’یہ ایک ناممکن مقدمہ ہے کہ خدا کو موجود تو مان لیا جائے لیکن مادی موجودات سے اس کے کسی تعلق اور واسطے کو تسلیم نہ کیا جائے‘ .............سیکولر سوسائٹی جیسی کچھ ڈھل مل ہے، یہ رسم و رواج اور عادت کے نام پر کچھ بھی ضابطے اور طور طریق وضع کر سکتی ہے۔ جنسی آزادروی اور حرامی بچوں کی پیدائش سے لے کر اسقاط حمل اور نشہ بازی سے آگے بڑھ کر ہم جنسیت تک اس کے لیے سب کچھ فطرت کے عین تقاضے ہیں................ جو مسلمان اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ اسلام سے جان چھڑائے بغیر بھی وہ سیکولرزم کی پیروی کر سکتے ہیں، اُن سے کئی سوال پوچھے جا سکتے ہیں: قرآن پاک میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی معاملات کے متعلق بہت سے احکامات اور اخلاقی تعلیمات موجود ہیں جو مملکتی انتظام و انصرام کے بغیر تشنہ تعمیل رہتے ہیں۔ جب صورت واقعہ یہ ہے تو کیا اسلام کے ایک بڑے حصے کو چھوڑ دیا جائے؟ اس کے لیے کون سا قانونی یا شرعی جواز موجود ہے؟............ آپ منطق کی زبان میں بات کریں یا اسلامی حوالے سے جائزہ لیں، سیکولزم کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ جب صورت واقعہ یہی ہے تو کیا مسلم معاشرے کے اندر سیکولر دوست بہانہ بازیاں کر رہے ہیں؟ یا کیا واقعی یہ بات صحیح ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا مہمل بات کر رہے ہیں۔“
تازہ ترین