• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین نیب نے سابق وزیراعظم سمیت کئی افراد کے خلاف 4.9 ارب ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے انڈیا بھیجنےکے الزام پر تحقیقات کا حکم دیاتوکئی لوگوں نے کہا:یہ الزام درست ثابت نہیں ہوسکتامگرسابق وزیراعظم کا ری ایکشن دیکھ کر وہ بھی مشکوک ہوگئے ہیں۔ (تیری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ ‘‘ چیئرمین نیب کے خلاف کارروائیوں کے مشورے جاتی امرا سے وزیر اعظم ہائوس جاری و ساری ہیں ۔بظاہر تومعاملہ صرف میڈیا کی طرف سے لگائے گئے ’’منی لانڈرنگ ‘‘ کےالزام کی تحقیق کا ہے ۔اگر الزام غلط ثابت ہوا تو سابق وزیر اعظم سر خرو ہوجائیں گے ، درست ہوا تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔پوٹلی کھلے گی تو سب کو نظر آجائے گا کہ اس میں کیا ہے ؟چیئرمین نیب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کوئی وجہ ہے ہی نہیں ۔یہ کیس چیئرمین نیب کی طرف سے میڈیا کے پاس نہیں پہنچا بلکہ میڈیا کی طرف سے چیئرمین نیب کو دیا گیا ہے۔ ساتھ ثبوت بھی فراہم کئے گئے ہیں ۔ جس پر چیئرمین نیب نے اِس عزم کا اظہار کیاکہ ’’بدعنوان عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا ‘‘تو اس میں برا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی نیب قوانین کی اصلاحات کےلئے وزیراعظم کی بنائی ہوئی پارلیمانی کمیٹی کو مسترد کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی اس کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی ۔کوئی ذی شعور کسی ایسی دیوار کی تعمیرمیں کیسے شریک ہو سکتا ہےجوانصاف کے راستے میں بنائی جارہی ہو۔
اِس میں کوئی شک کہ شریف فیملی نے جس زمانے میں مختلف ممالک میں سرمایہ کاری شروع کی تھی اُس وقت ’’منی لانڈرنگ ‘‘ کی اصطلاح تک وضع نہیں ہوئی تھی۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ۔پہلی بار 80 کی دہائی میں منشیات کی رقوم کی منتقلی پر منی لانڈرنگ کے قوانین بنائے گئے تھے جو نائن الیون کے واقعہ کے بعد بہت سخت کر دئیے گئے ۔یقیناًجن دنوں شریف فیملی نےسرمایہ باہر منتقل کیا تھا ان دنوں یہ کام کسی بڑے جرم کے زمرے میں نہیں آتا تھا ۔ شریف خاندان کافی عرصہ سےاپنا کاروبار بیرون ِ ملک پھیلانے میں مصروف تھااور یہ کوئی بری بات نہیں تھی ۔ کاروبار کرنا اور اسے فروغ دیناہر پاکستانی کا حق ہے مگر ہمارا دین حکمران ِ وقت کو کاروبار کرنے کا حق نہیں دیتا ۔حضرت ابو بکر اپنی دکان بڑھا گئے تھے کہ اگر خلیفہ ء وقت کی دکان ہوئی تو پھر کاہگ کسی اور کی دکان پر کیوں جائے گا ۔یہی وجہ تھی کہ جب پچھلے سال سعودی شہزادے مشال بن عبداللہ نے کہا تھاکہ یورپ میں ہونے والی تین ارب ریال کی منی لانڈرنگ اور سرمایہ کار ی میری نہیں بلکہ شریف خاندان کی تھی تواس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نہیں شہباز شریف کو خصوصی طیارے پر سعودیہ بلایا گیا تھا۔
اس وقت مسئلہ وزیر اعظم کے کاروبار کرنے کا نہیں وہ تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کرتے ہیں ۔ایک ایئرلائن کے مالک ہیں ۔اس وقت مسئلہ ’’منی لانڈرنگ ‘‘ کا بھی نہیں ۔منی لانڈرنگ کے کئی کیس سابق وزیر اعظم پر پہلے سے موجود ہیں ۔اس وقت مسئلہ ’’ایک دشمن ملک میں رقوم کی منتقلی ‘‘ کا ہے ۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اسمگل ہو کر انڈیا سے بے شمار مصنوعات آتی ہیں ۔کراچی کی مارکیٹیں انڈین مال سے بھری پڑی ہیں یقیناً اس مال کی کسی نہ کسی طرح ادائیگی بھی ہوتی ہوگی۔ یعنی اس بات سے تو انکار کیا ہی نہیں جا سکتا کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقوم بھارت بھیجی جاتی ہیں ۔یہاں معاملہ شریف خاندان کا ہے کہ انہوں نے بھارت رقوم بھیجی یا نہیں ۔شریف فیملی کی انڈین سرمایہ دار جندال اور میتل کے ساتھ کاروباری پارٹنر شپ کے قصے بھی زبانِ زد عام ہیں ممکن ہے غلط ہوں مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جب سابق وزیر اعظم مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہونے دہلی گئے تھے تو اپنے بیٹے کے ساتھ جندال کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے۔ کھٹمنڈو میں مودی کے ساتھ سابق وزیر اعظم کی ملاقات کا بندو بست بھی جندال نے کرایا تھا ۔پھرجندال کے ساتھ مری میں سابق وزیر اعظم کی صرف خاندان تک محدود ملاقاتیں ایسی افواہوں کی تصدیق کرنے لگیں۔معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ۔رمضان شوگر مل میں کام کرنے والے کئی انڈین انجینئر کے روابط بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے نکلے۔اسی طرح راجستھان میں جاکر جوپاکستانی انجینئر شوگر مل لگا رہے ہیں وہ ایک طویل عرصہ سے شریف فیملی کے ساتھ کام کرتے چلے آرہے ہیں۔یہ سب لوگ ویزے لے کر انڈیا گئے ہیں اُن کی فہرست اداروں کے پاس موجود ہے ۔اس سلسلے میں شاہدرہ لاہور میں رہنے والا ایک خاص شخص بہت اہم ہے جس کا 35سال سے شریف فیملی سے تعلق ہے ۔یہ سب باتیں افواہوں کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ اگرراجستھان والی شوگر مل واقعی شریف فیملی کی ہے تو اُس کےلئے یقیناًپاکستان سے سرمایہ بھارت منتقل کیا گیا ہوگا۔
ایک اور اہم ترین بات کہ کابل سے کچھ آگے جندال کی کوئلے کی کانیں ہیں ۔سابق وزیر اعظم وہاں سے پشاور تک ریلوے لائن بچھانا چاہتے تھے اِس ٹریک کےلئے انہوں نے ملٹری لیڈر شپ کو بھی کہا تھا۔جندال کو اتنی بڑی سہولت بہم پہنچانے کی خواہش بھی یہی بتاتی ہے کہ کہیں کوئی کاروباری تعلق ضرور ہے اور کاروباری تعلق سرمایہ لگائے بغیر تو نہیں بن سکتا یقیناً انڈیا میں سرمایہ کاری کی گئی ہوگی ۔اِس خبر سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ’’کرپشن اور غیر قانونی کاروبار سے کمائے گئے اربوں ڈالر کا کالا دھن دبئی منتقل کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے میں ازسرنو تحقیقات شروع ۔غیر قانونی آمدنی سے بیرون ملک رئیل اسٹیٹ کے کاروبارمیں سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صرف ایک برس کے دوران پاکستان سے 4 ارب ڈالرز سے زائد کی خطیر رقم پہلے دبئی منتقل ہوئی اور اس کے بعد یہ رقم بھارت کے بینک اکائونٹس میں پہنچی۔‘‘یہ رقوم کسی ایک شخص کی نہیں ہیں اس میں بے شمار لوگ شامل ہیں ۔یعنی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان سے سرمایہ بھارت منتقل ہوتا رہتا ہے ۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھارتی رقوم کی منتقلی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ورلڈ بینک نے غلط اندازوں پر رپورٹ تیار کی تھی‘‘رپورٹ ورلڈ بنک کی غلط ہے یا اسٹیٹ بینک کی ، اس کا فیصلہ تو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نئی حکومت نہیں آتی کیونکہ اعداد کے ہیر پھیر کی کہانیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیزنہیں۔ ماہرین ِمعاشیات اکثر پاکستانی بچوں کو بہلانے کےلئے ایسے قصے کہتے رہتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین