• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پورا ملک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باقی دنوں کی الٹی گنتی کر رہا ہے کیونکہ 30 مئی 2018 تک موجودہ منتخب حکومتوں کی مدت ختم ہو جائے گی اور ملک میں نگران حکومتیں قائم ہو جائیں گی لیکن جمہوری حکومتوں کے آخری دنوں میں کیا ہو تا ہے ، اس پر بہت کم لوگوں کی نظر ہوتی ہے ۔ صوبائی محکموں کے خزانہ اور منصوبہ بندی کے محکموں اور صوبائی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر میں رات دن کام ہو رہا ہوتا ہے جبکہ وفاقی حکومت میں خزانہ ، منصوبہ بندی ڈویژن ، ایف بی آر اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کے دفاتر کے لیے بھی وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔ یہی حال دیگر وزارتوں ، محکموں اور اداروں کا بھی ہوتا ہے ۔حکمرانوں کے خاص لوگوں کی سرکاری دفاتر میں آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے اور فائلیں تیزی سے سفر کر رہی ہوتی ہیں ۔ مرکز سے لے کر اضلاع اور تحصیل کی سطح کے دفاتر میں بھی زیادہ سرگرمی نظر آتی ہے تاکہ حکومتیں ختم ہونے سے پہلے سارے کام نمٹائے جا سکیں ۔
یہ سارے معمول کے مناظر ہیں ۔ کچھ غیر معمولی چیزیں بھی ہوتی ہیں ، جنہیں لوگ زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہوتے ۔ موجودہ حکومت کے آخری دنوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ممتاز تاجر و صنعت کار مفتاح اسماعیل کا وفاقی وزیر خزانہ بن جانا کوئی معمول کا فیصلہ نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا ۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو ہٹا کر سلیم مانڈوی والا کو وزیر خزانہ بنایا گیا تھا ۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ ڈاکٹر عاصم حسین کے ہر ’ ’ منصوبے ‘‘ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور ان کی وزارت کی چند ارب روپے کی ایک ڈیل کی انکوائری بھی کرا رہے ہیں ۔ سلیم مانڈوی والا کے وزیر خزانہ بنتے ہی اس وقت کی کابینہ سیکرٹری نرگس سیٹھی سے کہا گیا کہ وہ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس بلائیں کیونکہ تقریباً 30 اہم ایجنڈا آئٹمز پر فیصلہ کرانا ہے ۔ حکومت ختم ہونے سے صرف سات دن قبل کابینہ کی اقتصادی کمیٹی ( ای سی سی ) کا اجلاس بلایا گیا ۔ یہ قانونی سوال آج تک موجود ہے کہ حکومت کے خاتمے سے صرف ہفتہ قبل اجلاس بلایا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن یہ اجلاس منعقد ہوا ۔ ای سی سی بہت اہم اور طویل المیعاد فیصلے کرتی ہے ۔ اصولی طور پر ان فیصلوں کو نئی منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے تھا لیکن نہ صرف ای سی سی کا اجلاس منعقد ہوا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں مسلسل دو دن تک جاری رہا ۔ اس اجلاس میں سب سے زیادہ سمریز وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل کی تھیں اور شاید ان میں سے کچھ سمریاں منظور بھی ہوئیں ۔ اسی اجلاس میں مبینہ طور پر ایک پرائیویٹ بحری جہاز کے مالکان کو ہرجانے کے نام پر کروڑوں روپے کی ادائیگی کی منظوری دی گئی ، جس کی مخالفت متعلقہ وزارت نے بھی کی تھی لیکن اس فیصلے کو کوئی نہ روک سکا ۔ اسی طرح ایل این جی درآمد کرنے کے لیے ایک بڑے ٹھیکے کی بھی منظوری دی گئی ۔ ای سی سی کے اجلاس میں اور بھی کئی فیصلے کرائے گئے ، جن میں مبینہ طور پر بڑی ڈیلز تھیں ۔ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے فیصلوں کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا ۔ کابینہ کا اجلاس حکومت کے خاتمے سے شاید ایک یا دو دن پہلے منعقد ہوا ۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ۔ ان کے سامنے ای سی سی کے اجلاس کے منٹس ( Minutes ) رکھے گئے ۔ ایل این جی کی درآمد کی ڈیل کی منظوری دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے متعلقہ حکام سے پوچھا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی سوموٹو نوٹس تو نہیں لیا گیا ۔ متعلقہ وزیر نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس نہیں لیا لیکن وزیر اعظم نے پھر بھی ای سی سی کے اس فیصلے کی کابینہ سے توثیق نہ ہونے دی ۔ پھر بھی اربوں روپے کی کئی ڈیلز منظور ہو گئیں ۔
یہ تو سابق حکومت کے آخری دنوں کی ایک بڑی داستان ہے ۔ اس طرح کے بے شمار قصے اور کہانیاں ہیں ۔ وزراء ، ارکان سینیٹ ، قومی و صوبائی اسمبلی اس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف تھے ، جن سے محسوس ہو رہا تھا کہ ’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے ۔‘‘ ہر طرف سے آوازیں آ رہی تھیں کہ کوئی کام ہے تو بتاؤ ۔ یہی ماحول آج بھی ہے اور یہ آوازیں آج بھی آ رہی ہیں ۔ وہی غیر معمولی سرگرمیاں ہیں اور بڑے بڑے منصوبوں کی اسی طرح آخری دنوں میں منظوری دی جا رہی ہے ۔ سرکار ی دفاتر میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آخری دنوں میں کیا ’’ معجزے ‘‘ ہوتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلسل دو جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری کریں گی ۔ سابقہ اور موجودہ حکومتوں میں شامل لوگوں کو پتہ ہے کہ کب ان کی حکومتیں ختم ہونی ہیں ۔ اس سے پہلے کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ حکومتیں کب ختم ہوں گی ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو جمہوری حکومتوں کے آخری دنوں میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اسے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ دونوں جمہوری حکومتوں کے آخری 30 دنوں میں ہونے والے اجلاس ، فائل ورک ، حکمرانوں کی سرگرمیوں ، حکمرانوں کے کارندوں کی بھاگ دوڑ اور رابطوں اور سرکاری دفاتر کے ماحول پر تحقیقاتی کام ہو تو اس سے کئی دلچسپ اور ضخیم کتابیں شائع ہو سکتی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باقی 18 دنوں میں کیا ہوتا ہے ؟ زیادہ تیزی کے ساتھ مال بنانے اور نوازنے کے آخری دن ۔ !
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین