• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز تاریخ کے کٹھن ترین دور سے گزر رہا ہے۔اداروں میں تلخی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان 10سال پیچھے جا چکا ہے۔ مہنگائی کا طوفان نگران حکومت کا منتظر ہے۔ہر آنے والا دن نوازشریف کو تھکانے کے بجائے مزید مضبوط کررہا ہے۔دو روز قبل جنوبی پنجاب جانے کا اتفاق ہوا۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے جلسے کی وجہ سے ملتان ،لاہور روڈ مسلم لیگی جھنڈوں اور پینا فلیکسز سے بھرا ہوا تھا۔وہاڑی چوک پر ہماری گاڑی تین گھنٹے تک بڑی ریلی کی زد میں آکر رکی رہی۔چونکہ خاکسار نے ڈیرہ غازی خان جانا تھا ،اس لئے تین گھنٹے تک ریلی گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔مقامی دکانداروں نے بتایا کہ یہ ریلی ملتان کے ایم این اے عبدالغفار ڈوگر کی قیادت میں جلسہ گاہ جارہی ہے۔کئی انتخابات کی براہ راست رپورٹنگ اور تجزیوں کی روشنی میں میرا ذاتی اندازہ تھا کہ دو ،تین درجن گاڑیاں ہونگی اور چند منٹ میں روڈ صاف ہوجائے گا،یوں میں اپنا سفر جاری رکھ سکوں گا۔مگر ان آنکھوں نے طویل ریلی کا منظرخود دیکھا۔تپتی دھوپ میں گاڑی کے اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھ کر اور تو کچھ نہیں کرسکا،البتہ ریلی میں شامل گاڑیوں ،ٹرانسپورٹ اور موٹر سائیکل سواروں کی گنتی ضرور کی۔ 623ویگنیں ،98بڑی کوچز، 29ہینو ڈالے،163عام کاریں اور جیپ جبکہ محتاط اندازے کے مطابق 600سے زائد موٹر سائیکلیں قافلے میں شامل تھیں۔
یہ تو وہ تعداد ہے جو اس خا کسار نے خود گنی ہے،شاید اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو،لیکن اگر اسی تعداد پر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات تو صاف ظاہر ہے نوازشریف عہدے پر موجود نہیں ہیں اور ضلعی انتظامیہ یا کسی اور سرکاری ادارے کا تو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کہہ دیا جائے کہ سرکار نے ٹرانسپورٹ فراہم کی تھی ،اس لئے ممبر اسمبلی زیادہ سے زیادہ گاڑیاں لے کر جلسہ گاہ میں پہنچ رہے تھے۔ان حالات میں ممبر قومی اسمبلی نے اپنی جیب اور دوستوں کی مدد سے گاڑیاں اکٹھی کی ہونگی۔میرے اندازے کے مطابق ایک ویگن کا کرایہ 6سے7ہزار روپے ہوتا ہے،جبکہ تیل کا خرچہ الگ ہوتا ہے۔یوںصرف ویگن کا کرایہ نکالا جائے تو 43لاکھ61ہزار روپے تو صرف ویگن کا کرایہ بنتا ہے۔جبکہ بڑی کوچز کا کرایہ 15ہزار روپے بھی لگایا جائے اور تیل کا خرچ شامل نہ کیا جائے تو 14لاکھ70 ہزار روپے بڑی بسوں کا کرایہ بنتا ہے۔ باقی عام کاریں،ڈالے اور موٹر سائیکل علیحدہ۔ اس طرح 60لاکھ روپے صرف ٹرانسپورٹ پر اپنی جیب سے خرچ کرکے کوئی پاگل ہی ہوگا کہ بغیر بندوں کے گاڑیاں لے جائے گا۔اگر ایک ویگن میں 24بندے آئیں اور ایک بس میں40لوگ ہوں۔ چھتوں پر لٹکے لوگوں کو نکال بھی دیں تو یہ تعداد 20ہزار سے زائد بنتی ہے،جبکہ عام گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کی تعداد الگ ہے۔یعنی محتاط طور پر کہا جاسکتا ہے کہ موصوف ایم این اے 25ہزار سے زائد لوگوں کو لے کر نوازشریف کے جلسے میں جارہے تھے۔ ویسے یہ منظر اس طالبعلم نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا کہ ہر بس اور ویگن کی چھتیں بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔تپتی دھوپ میں ایم این اے صاحب مسلم لیگ ن کا پرچم اٹھائے بڑی کوچ کی گرم چھت پر فخر سے براجمان تھے ۔ریلی کو لے کر گزرنے والے ممبر قومی اسمبلی عبدالغفار ڈوگر کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ اب یہ گزر گیا ہے اور راستہ کھل جائے گا۔کیونکہ مجھے شدید دھوپ میں کھڑے دو گھنٹے سے زائد ہوگئےتھے اور میں بیٹھے بیٹھے اکتا چکا تھا۔مگر ایم این اے صاحب کے گزرنے کے بعد بھی ریلی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور یوں مجھے مزید ایک گھنٹہ لگ گیا اور ملتان کی گرمی تو ویسے ہی مشہور ہے۔جتنی دیر گاڑی میں بیٹھا رہا،گوگل پر ملتان کی سیاست کے متعلق پڑھتا رہا۔
مجھے تین گھنٹے تک دھوپ میں کھڑا کرنے والے ممبر قومی اسمبلی سے کوئی خاص شناسائی نہیں تھی۔مگر موصوف کے بارے میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹس سے پڑھنے کو ملا۔ماضی کے انتخابات کا تقابلی جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ ن عبد الغفار ڈوگر کے حلقے سے پہلی مرتبہ جیتی ہے۔اس حلقے سے ہمیشہ شاہ محمود قریشی کامیاب ہوتے رہے ہیں اور یہ ان کی آبائی نشست مشہور ہے۔جاوید ہاشمی جیسے مضبوط قد کاٹھ کے آدمی بھی اس حلقے سے ہارتے رہے ہیں مگر عبدالغفار ڈوگر پہلی مرتبہ بڑے مارجن سے یہاں سے جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔بہرحال جونہی میری گاڑی ریلی کے جھرمٹ سے نکلی اور اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئی مجھے شدید احساس ہوا کہ میں تین گھنٹے سے اے سی گاڑی میں بیٹھا بیٹھا اکتا گیا جبکہ موصوف ایم این اے چالیس ڈگری درجہ حرارت اور تپتی دھوپ میں بس کی چھپ پر ایسے بیٹھے تھے ،جیسے زندگی کا سب سے بڑا مقصد حاصل کرچکے ہوں۔تب مجھے محبت کا اصل مفہوم سمجھ میں آیا۔یہ تو اس خاکسار نے اپنی آنکھوں سے ایک عبدالغفار ڈوگر کو دیکھا مگر اس تپتی دھوپ میں لوگ پتہ نہیں کہاں کہاں سے پہنچے ہونگے۔یہاں تو ایم این اے صاحب نے ٹرانسپورٹ فراہم کردی ،کچھ جگہوں پر تو لوگ نوازشریف کی محبت میں بغیر ٹرانسپورٹ کے ادھار پیسے مانگ کر بھی پہنچے ہونگے۔ ملتان کی شدید گرمی میں عبدالغفار ڈوگر کی ریلی دیکھ کر مجھے یہ تو یقین ہوگیا کہ لوگ نوازشریف کے پیچھے پاگل ہیںاو ر اس سے جنونی عشق کرتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے جلسوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔جی ٹی روڈ لانگ مارچ کے بعد پہلی مرتبہ اپنی آنکھوں سے عوامی جم غفیر نوازشریف کے جلسے میں جاتا ہوا دیکھا ہے۔ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے باوجود نوازشریف تھکنے کا نام نہیں لے رہے۔ذاتی رائے میں وزیراعظم نوازشریف کے مقابلے میں آج کے نوازشریف بہر حال مقبول ہیں۔حقیت لکھنی چاہئے،کوے کو سفید کہہ کر حقیت سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔پاکستان انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔طاقت کا صرف بھرم ہوتا ہے اور جب یہ بھرم ٹوٹتا ہے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔مجھے وطن عزیز کی بہت فکر ہے۔آج کی صورتحال دیکھ کر بانی پاکستان بابائے قوم کی روح ضرور بے چین ہوگی۔قائد کا پاکستان خطرے میں ہے۔عوامی سمندر کو روکنا بہت مشکل ہے۔آج تمام اداروں اور قومی قیادت کو نیشنل ڈائیلاگ کرنا چاہئے۔ہر کسی کو تلخی بھلا کر پاکستان کی خاطر بیٹھنا چاہئے۔اگر آج ہم نے نیشنل ڈائیلاگ نہ کیاتو پھر شاید چھ ماہ بعد کرنا پڑے مگر تب تک وطن کی بنیادیں مزید کمزور ہوچکی ہوںگی۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین