• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’1992ء میں راولپنڈی میں پولیس کا عالمی سطح کا ایک سیمینار ہوا تھا۔ اس سیمینار میں شرکت کے لیے بیرون ملک سے بے شمار پولیس افسر پاکستان آئے۔ ان افسروں میں جاپان کا پولیس چیف بھی شامل تھا۔ سیمینار کے بعد ڈنر تھا۔ ڈنر میں راولپنڈی کے ڈی آئی جی اور جاپان کے پولیس چیف ایک میز پر بیٹھ گئے اور دونوں نے گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو کے دوران ڈی آئی جی نے جاپانی چیف سے پوچھا : ’’ آپ لوگوں پر کبھی سیاسی دبائو نہیں آتا ؟ ‘‘ جاپانی پولیس چیف نے تھوڑی دیر سوچا اور اس کے بعد جواب دیا: ’’ صرف 1963ء میں ایک بار آیا تھا۔ ‘‘ ڈی آئی جی صاحب ہمہ تن گوش ہوگئے۔ چیف نے بتایا : ’’ 1963ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جاپان کے دورے پر آئے تھے۔ وہ ایک دن کے لیے اوساکا شہر چلے گئے۔ دوسرے دن ان کی جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات تھی۔ انہوں نے اوساکا سے سیدھا پرائم منسٹر ہائوس آنا تھا۔ راستے میں ٹریفک جام ہو گیا۔ ان کے ساتھ موجود پروٹوکول افسروں نے ہمارے پولیس چیف سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی۔ پولیس کسی خصوصی بندوبست کے ذریعے انہیں ٹوکیو پہنچا دے۔ پروٹوکول افسروں کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر خارجہ کی وزیراعظم سے ملاقات انتہائی ضروری ہے اگر وہ انہیں وقت پر نہیں ملتے تو یہ ملاقات ملتوی ہو جائے گی کیونکہ ایک گھنٹے بعد وزیراعظم چین کے دورے پر روانہ ہو جائیں گے۔ پولیس چیف نے ان کی بات سن کر معذرت کرلی۔ اس کے بعد وزیراعظم نے بذات خود پولیس چیف سے درخواست کی لیکن پولیس چیف کا کہنا تھا : ’’ ہمارے پاس وی آئی پیز کو ٹریفک سے نکالنے کا کوئی بندوبست نہیں‘‘ یوں یہ ملاقات منسوخ ہو گئی اس ملاقات کی منسوخی کی وجہ سے جاپان اور برطانیہ کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ۔ ‘‘ جاپان کے پولیس چیف خاموش ہوگئے۔ ہمارے ڈی آئی جی نے شدت جذبات میں پہلو بدلا اور ان سے پوچھا : ’’ اس کے بعد کیا ہوا ؟ ‘‘ پولیس چیف مسکرائے اور کہا : ’’ اس کے بعد کیا ہونا تھا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہو گئی۔ لوگوں نے وزیراعظم کے رویے پر شدید احتجاج کیا اور وزیراعظم کو قوم اور پولیس دونوں سے معافی مانگنا پڑی ۔ ‘‘ ہمارے ڈی آئی جی کے لیے یہ انوکھی بات تھی، چنانچہ انہوں نے حیرت سے پوچھا: ’’ اگر پولیس چیف کے انکار سے وزیراعظم برا منا جاتے اور دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ۔ ‘‘ پولیس چیف نے تھوڑی دیر سوچا ، پھر اس کے بعد مسکرا کر بولا کہ : ’’ پہلی بات تو یہ ہے ہمارا وزیراعظم کبھی پولیس چیف کے ساتھ لڑائی نہ کرتا، لیکن بالفرض محال اگر دونوں میں جنگ چھڑ بھی جاتی تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ۔ ‘‘ پولیس چیف سانس لینے کے لیے رکا اور سنجیدگی سے بولا: ’’ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑتا ۔ ‘‘ ہمارے ڈی آئی جی صاحب کا رنگ پیلا ہوگیا اور انہوں نے حیرت سے پوچھا: ’’ کیا جاپان میں پولیس چیف اتنا مضبوط ہوتا ہے؟ ‘‘ جاپانی پولیس چیف نے ہنس کر جواب دیا: ’’ نہیں ہمارے ملک کا قانون، انصاف اور سلامتی کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ہم نے عوام کی حفاظت کے لیے پولیس بنا رکھی ہے۔ وی آئی پیز کو پروٹوکول دینے کے لیے نہیں، لہٰذا جاپان کا ہر شخص جانتا ہے، اگر وزیراعظم اور پولیس چیف میں لڑائی ہو گی تو اس میں وزیراعظم ہی کا قصور ہوگا، لہٰذا استعفیٰ بھی اسے ہی دینا پڑے گا۔ ‘‘ یہ واقعہ ڈاکٹر محمد شعیب سڈل نے سنایا ہے۔ شعیب سڈل صاحب سابق وفاقی ٹیکس محتسب، ڈی جی آبی اور آئی جی سندھ رہے ہیں۔ قارئین! آپ واقعہ سامنے رکھیں اور پھر اپنے ملک کے تمام سرکاری محکموں، اعلیٰ اداروں اور تمام شعبوں کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہر طاقت ور اپنے سے کمزور کو روندتے چلا جارہا ہے۔ دیکھیں! ایک طرف غریب عوام ہیں تو دوسری طرف حکمران۔ ایک طرف عیش وعشرت ہے تو دوسری طرف فقروفاقہ۔ ان ملکی حالات کو مدنظر رکھ کر چانکیہ اور میکاولی بےساختہ یاد آجاتے ہیں کیونکہ اس وقت بھی ہمارے حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے چانکیہ اور میکاولی کے اُصولوں پر عمل پیرا ہیں تو دوسری طرف ملک کے غریب عوام کی حالت صدیوں قبل انڈیا اور اٹلی کے عوام سے بھی بدتر ہے۔ ملک کی اقتصادی اور معاشرتی حالت انتہائی کمزور ہے۔ غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی اور اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ماورائے عدالت قتل اور گمشدہ افراد کے مسائل نے کئی خاندانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں کو چانکیہ اور میکاولی کے ’’فرمودات ‘‘کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کو گمبھیر مسائل کے حل کے لیے اور بھنور میں پھنسی کشتی کو نکالنے کے لیے کسی مصلح اور دانشور، مدبر ومفکر نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ ایسا نجات دہندہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب اسلام کے زریں اُصولوں پر خلافتِ راشدہ کے دور کو مدنظر رکھ کرلائحہ عمل طے کیا جائے۔ تبھی ہم کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ اسلام میں ملک کا سربراہ درحقیقت عوام کا خادم ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت عوام کی بھلائی اور فلاح کے لیے ہی سوچتا ہے لیکن ہمارے حکمران اپنی اپنی فکر میں ہیں۔ اسلامی دورِ حکومت میں یتیموں، بیوائوں، معذوروں اور لاوارثوں کے لیے باقاعدہ وظیفہ اور الائونس جاری تھا۔ انہیں بھی خوشی کے وہی مواقع میسر تھے جو مالداروں اور حکمرانوں کے لیے تھے لیکن آج اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کے دعوے دار حکمرانوں اور عوام میں بعدالمشرقین ہے۔ حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار اور کرسی ہی عزیز ہے۔ وہ ہر حال میں بادشاہ رہنا چاہتے ہیں۔ چاہے انہیں لاشوں پر گزرنا پڑے ۔ آپ خود سوچئے! جس ملک کے 38فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہوں۔ جس ریاست کی اکثریت بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو اس کے سیاستدانوں کے لیے ایسے رویے زیب دیتے ہیں؟ ہمارے سامنے اسلامی تاریخ کے وہ زریں اُصول ہیں جن پر بجا طور پر ایک مسلمان رشک کرسکتا ہے۔ اور جو لوگ تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ تاریخ کے پاٹوں میںپس کر رہ جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے قابلِ تقلید مثال حضرت فاروقِ اعظم فرماتے تھے: ’’اگر ہزاروں میل دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا پیاسا مرجائے تو اس کا بھی میں ذمہ دار ہوں۔‘‘ اسی طرح خلیفہ دوم راتوں کو بھیس بدل کر گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کی اصل صورتِ حال سامنے آسکے۔ اس بڑھیا کا واقعہ تو ہر ایک کو یاد ہوگا جس نے اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے ہنڈیا میں ہڈیاں اور پانی ڈال بھر کر چولہے پر چڑھایا ہوا تھا تاکہ بچوں کو تسلی ہوسکے۔ اس کی خبر حضرت عمر فاروقؓ کو ہوئی تو وہ اپنی کمر پر سامانِ خورونوش اُٹھائے اس بڑھیا کے گھر پہنچے اور اپنی لاعلمی پر معذرت کرتے ہوئے انہیں پیش کردیا۔ آج وطنِ عزیز میں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف ہے۔ رشوت، حرام خوری اور سودہے۔ قتل اور غارت گری ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ ملاوٹ اور کرپشن ہے۔ بد امنی، چور بازاری اور بد دیانتی ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت، خود کشی اور بے روزگاری ہے۔ ظلم اور ناانصاف ہے۔ تعلیم اور شرح خواندگی ہے۔ تھانہ کلچر ہے۔ مال وعزت کا تحفظ ہے۔ علاج معالجہ ہے۔ دو وقت کی روٹی ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے اور دبانے سے فرصت ملے تو کبھی بھیس اور روپ بدل کر کسی اسپتال، کسی تھانے، کسی دورافتادہ گائوں جائیں تو سسکتے ،بلکتے اور آہیں بھرتے غریب اور مفلوک الحال عوام کے اصل مسائل معلوم ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین