• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کی گہما گہمی پورے پاکستان میں شروع ہوچکی ہے، سیاسی جماعتیں ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم میں مصروف عمل ہیں اور جلسے کررہی ہیں۔ ایم کیو ایم کی دو دھڑوں میں تقسیم کے بعد کراچی کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا ہے اور ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے کراچی کی سیاست میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) جنہوں نے گزشتہ 5سالوں میں کراچی کو چھوڑ رکھا تھا، آج اُن کے قائدین کراچی کے شہریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ہر ہفتے کراچی کے دورے کرکے جلسے جلوس اور بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ سندھ میں حکومت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا کراچی کی سیاست سے قدرتی تعلق اور رشتہ ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی بدلتے حالات دیکھ کر کراچی میں اضافی سیٹیں لینے کیلئے اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ دنوں 29 اپریل کو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کے گڑھ لیاقت آباد میں ٹنکی گرائونڈ پر ایک کامیاب جلسہ کیا جس کے بعد اِسی جگہ 5مئی کو ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑوں نے مل کر جلسہ کیا۔
پیپلزپارٹی کے ٹنکی گرائونڈ جلسے میں، میں اپنے دوست اور صوبائی وزیر اطلاعات، محنت و ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچا۔ ہمارے ساتھ وزیر صنعت و تجارت منظور وسان اور آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ بھی موجود تھے۔ جلسے میں سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے اور اسٹیج کیلئے سینئر لیڈران، سینیٹرز، وزراء اور پارلیمنٹرینز کو خصوصی پاسز جاری کئے گئے تھے۔ اسٹیج پر میرے ساتھ مراد علی شاہ، سینیٹر سلیم مانڈوی والا، سینیٹر شیری رحمن، سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر انور لال دین، نثار کھوڑو، جام مدد علی، جام خان شورو، سہیل انور سیال، سینیٹر مولا بخش چانڈیو، وقار مہدی، سعید غنی، منظور وسان، ناصر حسین شاہ، شہلا رضا،شگفتہ جمانی، شاہدہ رحمانی اور احمد شاہ بھی پارٹی قائدین کیساتھ موجود تھے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جلسہ گاہ پہنچے تو انہوں نے فرداً فرداً اسٹیج پر موجود پارٹی قائدین سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہید امجد صابری قوال کی والدہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور جلسے کے دوران صابری برادرز کی 40 سال پہلے گائی ہوئی قوالی ’’صدا رہے آباد بھٹو، بھٹو زندہ آباد‘‘ جو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے کیلئے گائی تھی اور نہایت مقبول ہوئی تھی، کی یاد تازہ کرنے کیلئے امجد صابری کی قوالی ’’صدا رہے آباد بھٹو‘‘ سنائی گئی جس کی ویڈیو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ پیپلز بزنس فورم کے صدر کی حیثیت سے میں نے بھی شہر کی شاہراہوں اور جلسہ گاہ میں بینرز آویزاں کئے تھے جس میں شہید بینظیر بھٹو کی 18اکتوبر 2007ء کو کراچی آمد کے موقع پر میری انتخابی کیپ پہنی تصویر لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ جلسہ میں موجود کارکنوں کا جذبہ قابل دید تھا جنہیں دیکھ کر مجھے شہید بینظیر بھٹو کے جلسے یاد آگئے۔ اس موقع پر مجھے بلاول بھٹو زرداری کا 18 اکتوبر 2014ء کو مزار قائد پر ہونیوالا پہلا جلسہ یاد آرہا تھا جس میں بلاول بھٹو نے عملی سیاست میں آنے کا اعلان کیا تھا جس میں، میں بھی ان کیساتھ اسٹیج پر موجود تھا ۔ اس تاریخی جلسے کے بعد بلاول بھٹو نے پورے ملک سے آئے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنمائوں کو بلاول ہائوس میں عشایئے پر مدعو کیا تھا جن میں میرے علاوہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، امین فہیم، خورشید شاہ، رضا ربانی، اعتزاز احسن، شیری رحمن، نیئر بخاری، قمر الزماں کائرہ، قائم علی شاہ، ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا، فریال تالپور اور نوید قمر کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنما، پارلیمنٹرینز اور سینیٹرز شامل تھے اور رات دیر تک ہماری بلاول بھٹو زرداری کی تقریر پر بحث جاری رہی۔
لیاقت آباد روایتی طور پر ایم کیو ایم کا گڑھ ہے، سیاسی مبصرین اس جلسے کو کراچی میں پیپلزپارٹی کی ری لانچنگ قرار دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے بتایا گیا کہ جلسے میں شرکت کیلئے پیپلزپارٹی کے صرف کراچی کے اضلاع سے لوگ ریلیوں کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچے۔ 70ء کی دہائی میں اُس وقت کے وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کے علاقے لیاقت آباد کا دورہ کیا تھا اور اپنے مخصوص جوش خطابت سے لوگوں کا لہو گرمایا تھا۔ انہوں نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا ایسا نعرہ دیا جو آج تک پیپلز پارٹی کا نعرہ ہے۔اس بات کو چار دہائی سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے مگر آج بھی وہی نعرہ پہلے کی طرح لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور اب 44 سال بعد ان کے نواسے بلاول بھٹو زرادری نے کراچی میں اسی مقام لیاقت آباد میں ہی اپنا سیاسی میدان لگایا۔ لیاقت آباد جلسے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا کہ کراچی میں امن پیپلزپارٹی نے قائم کیا ہے لیکن اس کا کریڈیٹ دوسرے لوگ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر کراچی کے شہریوں نے انہیں ووٹ دیا تو وہ شہر کو غیر امن پسند لوگوں سے نجات دلادیں گے۔انہوں نے کہا کہ کراچی اور بھٹو کا رشتہ نسل در نسل کا رشتہ ہے لیکن اس عرصے میں کچھ لوگوں نے نسل پرستی اور لسانیت کے نام پر کراچی میں لسانی سیاست کو جنم دیا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا لیکن آج میں محبت کا پیغام لیکر آیا ہوں۔ کراچی کے مسائل کراچی سے محبت کرنیوالا ہی ختم کرسکتا ہے،میں کراچی میں پیدا ہوا اور یہ میرا شہر ہے ، مجھے اس سے محبت ہے۔ بلاول بھٹو نے ایم کیو ایم کے علاوہ سابق صدر پرویز مشرف پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے امجد صابری قوال کے نام سے صوفی انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ آج کا جلسہ کراچی کے سیاسی مستقبل کے لئے اہم ہے، آج لوگ متحدہ کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں۔ جلسے سے سندھ کے وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی بلاول اور بلاول کراچی کا ہے،ہماری پیدائش اسی شہر کی ہے اور اس شہر کی اونر شپ اْن سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے اس شہر کو یرغمال بنارکھا تھا۔جلسے سے سینیٹر شیری رحمن، سینیٹر رضا ربانی، نثار کھوڑو اور وقار مہدی نے بھی خطاب کیا۔میں پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو ، کراچی ڈویژن کے صدر سعید غنی اور ان کی ٹیم کو ایک کامیاب جلسہ منعقد کرنے پرمبارکباد پیش کرتا ہوں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں 30 سال تک ایم کیو ایم کے علاقوں میں کوئی سیاسی جماعت اپنے جھنڈے بھی نہیں لگاسکتی تھی، سیاسی جماعتوں کے دفاتر جلادیئے جاتے تھے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ورکرز اور ان کےخاندانوںکو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن آج اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو دوبارہ وہ مقام عطا کیا ہے جو اس کا حق بھی ہے اور منصب بھی۔ جلسے کا مقصد کراچی کے شہریوں کا یہ پیغام دینا تھا کہ شہر کراچی اب آزاد ہے اور اب کوئی اسے یرغمال نہیں بناسکتا، یہ غریب پرور شہر سب کا ہے اور خوف کی بنیاد پر شہریوں کو اپنے رائے سے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد ورکرز انتشار کا شکار ہیں اور اب چند منٹ میں ہڑتال کے نام پر شہر کو بند نہیں کرایا جاسکتا۔
گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے حکیم سعید گرائونڈ میں 12 مئی کی مناسبت سے جلسے کا اعلان کیا جس پر دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے مابین تصادم بھی ہوا اور پبلک املاک جلائی گئیں تاہم بلاول بھٹو نے بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کا جلسہ باغ جناح مزار قائد پر کرنے کا اعلان کرکے محاذ آرائی کی فضا ختم کی۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ تشدد کی سیاست سے گریز کریں تاکہ شہر کا امن دوبارہ خراب نہ ہو۔ میں افواج پاکستان، رینجرز اور سیکورٹی ایجنسیوں کا مشکور ہوں جنہوں نے پاکستان بالخصوص روشنیوں کے شہر کراچی میں 30سال بعد امن دوبارہ قائم کیا۔ کراچی ہم سب کا شہر ہے، عوام سے درخواست ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں لسانیت اور فرقہ واریت کے نام پر تشدد کی سیاست کو مسترد کردیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین