• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ رمضان کے دوسرے عشرے میں نگراںحکومت مسلم لیگ (ن) کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد اب تک اندازے اور آئینی حدود کے تحت 60دنوں کے لئے اپنا کام شروع کردے گی، تاہم اس عرصہ میں ملک میں سیاسی سرگرمیاں آئندہ انتخابات کے حوالے سے تیز ہوچکی ہوں گی جس میں تین بڑی پارٹیوں میں حصول اقتدار کی لڑائی یا جنگ ہوگی۔ ان میں مسلم لیگ (ن) پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں، باقی کچھ دینی جماعتیں بھی انتخابی عمل میں سرگرم ہوں گی۔ ان جماعتوں کے جلسوں کے حجم کے لحاظ سے ان کا ووٹ بنک اتنا قابل ذکر نہیں ہوتا اس لئے عمومی طور پر مقابلہ انہی تین جماعتوں میں ہوگا جس کی کامیابی یا ناکامی میں بہرحال نگراں حکومت کا اعلانیہ یا غیر اعلانیہ کوئی نہ کوئی رول ہوگا، جیسے 2013کے سیٹ اپ کے حوالے سے کافی باتیں سامنے آئی تھیں۔ اس بار ایک طویل عرصہ کے بعد مسلم لیگ (ن) پہلی بار غیر سرکاری حیثیت یا آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے گی، جبکہ ماضی میں انہیں بہرحال کسی نہ کسی کی سرپرستی ضرور حاصل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف اسے مانیں یا نہ مانیں، جہاں تک ان کی اب تک کی سیاسی سرگرمیوں کا معاملہ ہے اس میں ان کو یہ کریڈٹ یاا سمارٹ پن کہا جاسکتا ہے کہ ان پر کرپشن کے مختلف الزامات کے حوالے سے کیس تو بہرحال نیب عدالت میں چل رہا ہے لیکن وہ عوام کی ا کثریت کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ یہ سب محض الزامات ہیں، انہیں پاکستان کے عوام آئین اور مسائل کا بڑا درد ہے حالانکہ حقائق کچھ اور ہیں، بہرحال سیاست میں چال بازی چلتی رہتی ہے جس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بس وہ بے وقوف بنتے چلے آرہے ہیں ۔
جہاں تک نئے نگراں سیٹ اپ کا معاملہ ہے اس حوالے سے پاکستان کے عوام اور بزنس کمیونٹی خاص کر معاشی ماہرین کو یہ فکر لاحق ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو کیا وہ جاری رکھیں گے اور اگر نہیں تو پھر معاشی فرنٹ پر وہ کون سے اقدامات کریں گے جس سے عوام اور معاشی ماہرین مطمئن ہوسکیں۔ اس کے علاوہ کہیں نگراں حکومت کسی کو نکتہ کوجواز بنا کر آئی ایم ایف سے تو دوبارہ رجوع نہیں کرےگی۔ اس لئے کہ کئی معاشی شعبوں کی کارکردگی کے حوالے سے نہ تو عالمی ادارے مطمئن نظر آرہے ہیں اور نہ ہی اندرون ملک بہت سے معاشی ماہرین، اس طرح نگراںحکومت کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ انتخابی عمل کو کیسے غیر جانبدار اور شفاف رکھنا ہے اور ملک میں مہنگائی میں کمی اور ٹیکسوں کے نظام کو موثر بنانے کے لئے کون سے اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نگراں حکومت کا تصور اب بھی موجود ہے جبکہ اب یہ سلسلہ یہاں بھی ختم ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کا سیاسی نظام اب دن بدن میچور تو ہورہا ہے مگر اس کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں مطمئن ہو تو نگراں حکومت اس حوالے سے نئی حکومت کے لئے کچھ اقدامات بھی تجویز کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک سے بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ حکومتی دعوے الگ سہی، مگر حقیقت یہی ہے کہ ملک میں عملی طور پر بے روزگاری کم نہیں ہوئی، بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس وجہ سے معاشرے کے سماجی مسائل میں ہر سطح پر اضافہ بہرحال تشویشناک ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پارلیمنٹ تک وہ کردار ادا نہیں کرسکی جو اسے ادا کرنا چاہئے تھا، مگر اس مسئلہ کے حل نہ ہونے سے معاشرے میں امیر اور غریب افراد میں عدم توازن مزید بڑھنا ایک لمحہ فکریہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین