• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاستی جبر و تشدد سے پیکار کشمیری نوجوانوں کیلئے اپنی مایوسیوں اور جوش و جنون کے اظہار کے لئےسوشل میڈیا ایک بڑا وسیلہ ہے. یہی وجہ ہے کہ حکومت ’نقص عامہ‘ کے بہانے اکثر انٹرنیٹ پر پابندی لگادیتی ہے۔ جولائی 2016 ء کے فوراً بعد حکومت نے کئی ہفتوں تک موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کردیئے تاکہ لوگوں کے احتجاج اور ظلم و جبر کے بارے میں خبروں، تصاویر اور ویڈیو کی ترسیل کو روکا جاسکے۔ پچھلے دو سالوں میں وقفے وقفے سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بیسیوں بار پابندیاں لگائی جاچکی ہیں، اس وقفے کے دوران مجھے بھی کم از کم دو درجن ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا گو کہ میں اس عرصے کے دوران آدھے سے زیادہ وقت کیلئے ملک سے باہر رہا ہوں۔
مئی کے اوائل میں میں نے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے آزادئ اظہار پروفیسر ڈیوڈ سے اس سلسلے میں ایک تفصیلی گفتگو کی جس میں انہوں نے آئے دن کی ان پابندیوں کو ’ڈیجیٹل ایج سنسرشپ‘ قرار دیتے ہوئے دبے لفظوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ یہ پابندیاں صرف مسلمانوں یا مسلم اکثریتی علاقوں میں لاگو کی جاتی ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ یہ پابندیاں سرکاری ظلم و جبر اور تشدد کی رپورٹنگ اور تشہیر کو روکنے کیلئے لگائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کیلئے اطلاعات کی ترسیل اور رسائی نا ممکن بن جاتی ہے۔انہوں نے اس کو انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں حکومت ہند کی توجیہات کو بےبنیاد قرار دے کر ان کو مسترد کردیا، ساتھ میں انہوں نے اس بات کا بھی برملا اعتراف کیا کہ بھارت کشمیریوں کیساتھ اپنے شہریوں کے مقابلے میں دہرا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے، بھارت کیجانب سے گزشتہ ستر برسوں سے زائد عرصے سے جاری اسی دہرے رویئے کی وجہ سے کشمیری ہمہ وقت نالاں ہیں،یہاں کے بیشتر نوجوان سوشل میڈیا خاص کر ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنی پروفائل کیساتھ ’بھارتی مقبوضہ کشمیر‘ لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے نظر آتے ہیں،ساتھ ہی وہ اسکے ذریعے کشمیر کی تصفیہ طلب سیاسی حیثیت اور اپنی سیاسی پوزیشن کا واشگاف اعلان بھی کرتے ہیں، 2010 ء سے ابت ک بیسیوں نوجوانوں کو کشمیر میں جاری عوامی بغاوت کے بارے میں مواد نشر کرنے پر نشانہ عتاب بنایا جاچکا ہے مگر اسکے باوجود بھی جوش جنوں سے لبریز جواں سال کشمیر باز نہیں آتے اور بار بار حکومت اور اس سے وابستہ سیکورٹی اداروں کو زچ کرتے نظر آتے ہیں۔
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے،فلپائن میں زیر تعلیم کشمیری نوجوان شیخ عتیق نے بھارتی وزیر داخلہ محترمہ سشما سوراج سے بذریعہ ٹوئٹر درخواست کی کہ نئے پاسپورٹ کے اجرا میں ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر ہنگامی طور پر اپنا میڈیکل چیک اپ کرواسکیں، شیخ عتیق کے پیغام کے بقول کسی وجہ سے ان کا پہلا پاسپورٹ خراب ہو گیا تھا جس کے بعد انہوں نے نئے پاسپورٹ کیلئے متعلقہ بھارتی سفارت خانے میں کاغذات جمع کروائے مگر ایک مہینہ گزرنے کے باوجود اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، روز اول سے ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیریوں کیلئے پاسپورٹ کا اجرا، اس کی تجدید حتیٰ کہ اپنی فیملی کیلئے ویزوں کا حصول ایک نہایت ہی مشکل معاملہ ہے۔ میں پاکستان میں مقیم کئی ایسے کشمیری خاندانوں کو جانتا ہوں جن کے بچوں کے پاسپورٹ کئی کئی سال سے بھارتی سفارت خانے میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کی تجدید نہیں کی جاتی، یہی حال کشمیر سے باہر شادی کرنے والوں کا ہے جن کیلئے بھارتی ویزے کا حصول ہندو دیومالائی سنجیونی کی بوٹی لانے کے مترادف ہے۔
وزیر داخلہ محترمہ سوراج صاحبہ اپنے وزیراعظم نریندرا مودی کی طرح ٹوئٹر پر کافی مستعد رہتی ہیں اور اکثر لوگوں کے ٹوئٹس کا جواب بھی تندہی سے دیتی ہیں، چونکہ پاکستان میں صحت عامہ کی بنیادی سہولتوں کا شدید فقدان ہے اسلئے پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد بھارت جاکر اپنا علاج یا آپریشن کروانے پر مجبور ہے۔ ویزا کے بڑھتے مسائل کی وجہ سے اب کئی پاکستانی بلاواسطہ محترمہ سوراج سے بذریعہ ٹوئٹر میڈیکل ویزوں کیلئے درخواستیں کرتے رہتے ہیں، انہیں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ تندہی سے لوگوں کے مسائل کو سمجھتی ہیں اور ٹویٹر کے ذریعے ہی اس سلسلے میں اپنے ماتحت عملے کو ہدایت جاری کرتی ہیں، شیخ صاحب کے ٹوئٹر کے پیغام کے فوری ردعمل میں محترمہ سوراج نے لکھا: ’’اگر آپ جموں و کشمیر سے ہیں تو ہم آپ کی ضرور مدد کریں گے مگر آپ کے پروفائل کے مطابق آپ ’بھارتی مقبوضہ کشمیر‘ سے ہیں،یہاں پر کوئی ایسی جگہ نہیں ہے‘‘۔ وزیر داخلہ کے اس مشاہدے کے بعد کشمیری طالب علم کو مجبورا ’بھارتی مقبوضہ کشمیر‘ کو ’جموں و کشمیر‘ میں تبدیل کرنا پڑا، اس کے اعتراف میں سوراج نے لکھا: ’’مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنے پروفائل کو درست کرلیا‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے منیلا میں مقیم جئے دیپ نامی سفارتکار کو مذکورہ طالب علم کی مدد کرنے کو کہا کیونکہ وہ ’’جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھارتی شہری ہیں‘‘۔ میرے ساتھ خود اسی قسم کا مسئلہ در پیش ہے، بھارتی حکومت پچھلے کئی سالوں سے میری فیملی کو بھارت کا ویزا دینے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے میری بیگم اور بچے جموں و کشمیر نہیں جاسکتے، گھریلو حالات کیوجہ سے میں کشمیر میں رہنے پر مجبور ہوں مگر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی سے میری فیملی بٹی ہوئی ہے، دو بار ویزے کے فارم جمع کرنے کے علاوہ میں نے کئی بار بھارتی اہلکاروں کو بذریعہ ای میل اور خط لکھ کر یاد دہانی کرائی مگر نتیجہ صفر رہا، اس کے علاوہ میں نے بھی دیگر لوگوں کی طرح سشما جی سے اپنے مسائل کے حل کیلئے ٹوئٹر کے ذریعے رابطہ کیا جسے انہوں نے در خور اعتناء نہیں سمجھا، خیر! شیخ عتیق کو ابھی وزیر داخلہ کی نصیحت ہی ملی تھی کہ موقع غنیمت جان کر میں نے بھی محترمہ سے رابطہ کرنے کیلئے ٹوئٹ کیا: ’’سشما جی: میری بیگم پاکستان مقبوضہ لاہور سے ہیں جبکہ میری بیٹی پاکستانی مقبوضہ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں پیدا ہوئیں تھیں۔ کیا آپ ویزا کے حصول میں مدد کر سکتی ہیں تاکہ میں انہیں آزاد شدہ جموں و کشمیر لے جا سکوں، انہیں تین سال سے ویزا نہیں ملا ہے, بے پناہ محبّت". جب سشما جی نے شیخ عتیق کے ٹوئٹ کے جواب دیتے ہوئے اپنے سفارتی عملے کو ان کی مدد کرنے کو کہا تو میں نے دوسرا ٹویٹ داغ دیا: ’’اور میرے بارے میں جی؟ میں نے پہلے ہی لگ بھگ نصف پاکستان کو مقبوضہ قرار دیدیا جس پر بھارت کی مرضی کیخلاف پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے،میں تو اس ٹاؤن جہاں آجکل میں قیام پذیر ہوں کی آزادی کا اعلان کرنے کیلئے تیار ہوں‘‘،کھلے عام اتنی بڑی قربانیوں کا عندیہ دینے کے باوجود محترمہ سشما سوراج نے مجھے خاطر میں نہیں لائیں اور میں کسی عاشق نامراد کیطرح ابھی تک انکے نامہ محبت کا متمنی ہوں اور اس کے انتظار میں کبیدہ خاطر ہو رہا ہوں۔ شام ڈھل گئی تو میں کافی بددل ہوگیا، اپنے دل کی بڑھاس نکالنے کیلئے جاتے جاتے میں نے آخری ٹوئٹ کردیا: ’’سشما سوراج: آپکی طرف سے ابھی تک کوئی رسپانس نہیں ملا، میں آپکو امپریس کرنے کیلئے قومی ترانےکو الٹا سناسکتاہوں اور وہ بھی جنوبی بھارت کے مہیب لہجے میں نہیں جو بنگالی زبان کی ایسی کی تیسی کردیتے ہیں‘‘. دلی ہنوز دور است
نہ اسکی بات میں سمجھوں نہ وہ میری نظریں
معاملات زباں ہو چلے ہیں مبہم پھر
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین