• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیگ بی فور وکٹ

جب گیند بلے سے چھوئے بغیر بیٹس مین کی ٹانگ پر اس وقت لگے جب وہ وکٹ کے بالکل سامنے کھڑاہو، اوراس کے وکٹوں پر لگنے کا خدشہ ہو، اس و قت بالر کی اپیل پر امپائر کو اسے آؤٹ دینے کافیصلہ کرنا پڑتا ہے۔آؤٹ ہونے پر اس وکٹ کوبالر کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے۔کرکٹ کے قوانین میں ایل بی ڈبلیو کی شق کا اضافہ 1774ء میںکیا گیاتھا، جس کی وجہ بلے باز کا پیڈ کے ذریعے گیند کو وکٹوں کو لگنے سے بچاناقرار دیا گیا۔ کئی سالوں تک اس ترمیم پر بحث ہوتی رہی کہ گیند کوکہاں گرنا چاہیے۔انیسوی صدی کے بعد بلے باز پیڈ پلے میں ماہر ہو گئے۔

کرکٹ کے ابتدائی ادوار میںبیٹس مین جن بلوں سے بیٹنگ کرتے تھے وہ ترچھے ہوتے تھےجس کے سبب وہ وکٹ کے بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بلے بھی سیدھے بنائے جانے لگے، جس کی وجہ سے بلے باز وکٹ کے بالکل سامنے کھڑا ہونے لگے لیکن بعض بلے باز جان بوجھ کر گیند کو وکٹوں پر لگنے سے روکنے لگے۔پیڈ کا استعمال ٹانگ کی حفاظت کے لیے ہوتاہے جب کہ بیٹس مین ’’لیگ پیڈ ‘‘کو دفاع کے طور پر استعمال کرنے لگے یعنی گیند بلے پر نہ لگنے کی صورت میں وکٹ کی بجائے پیڈ سے ٹکراتی تھی یوں وہ آئوٹ ہونے سے بچ جاتےتھے۔ بعض بلے باز ان گیندوں کے سامنے،جن پر رن بنانا ممکن نہ ہوتاتھا، اپنے پیڈ کردیتے اور اسے کھیلنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے،آرتھر شروبری پہلے کھلاڑی تھے جنھوں نے1880میں اس طریقہ کار کی ابتدا کی، بعد ازاں دیگر بیٹس مین بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔ پیڈ پلےکے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سےبالروں میں مایوسی بڑھنے لگی، کیوں کہ بیٹس مین آ ف ا سٹمپ کی جانب آنے والی گیندوں کو کھیلنے کی بجائے انہیں گزرنے دیتے، کچھ بلے باز تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے اور آف سائیڈ گیند کو لات ماردیتے ، لیکن گیند پیڈ پر نہ لگنے کی وجہ سے وہ ایل بی ڈبلیو قانون کی زد میں آنے سے محفوظ رہتے۔1888 میں کائونٹی کرکٹ کلبزکے ایک اجلاس میں ایک کلب کے نمائندے نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ،وہ بلے باز جو بلے کی بجائے اپنے جسم سے وکٹ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں سزا ملنا چاہئے۔

1935ء میں اس ترمیم میں مزید اضافہ کیا گیا جس کی رو سے اگر بال آف سٹمپ سے باہر گر کر بھی بلے باز کے پیڈ کو لگتی ہے تو تب بھی بلے بازکوآؤٹ قرار دیا جائے گا۔1950 سے 1960 کے درمیان پچوں کے معیار میں تبدیلی آئی، جس نے بلے بازی کو مشکل بنادیا لہذا پیڈ پلے بھی بڑھ گیا۔ 1969میں ایل بی ڈبلیوقوانین میںکئی نئی ترامیم کی گئیں،جسے 1970میں آسٹریلیااور ویسٹ انڈیزمیں اپنایا گیا۔ اس میں ایک نیا ضابطہ بھی شامل کیا گیا جس کے مطابق اگر آف سٹمپ پر باؤنس ہوتی گیندبیٹسمین کے جسم پر کہیں بھی ٹکرائے اور یہ گیند امپائر کے نقطہ نظر سےوکٹ کو لگ سکتی تھی تو اسے آؤٹ قرار دیا جائے گا۔ 1972 کے بعد پہلے کی بہ نسبت ایل بی ڈبلیو ہونے والوں کی شرح بتدریج بڑھ گئی۔

1990ء میں ٹی وی اور بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے عام ہونے کے بعدلیگ بی فور وکٹ ہونے والے بلے بازوں کی تعداد میںمزید اضافہ ہوگیا۔ ری پلے کے ذریعے پیڈ پر لگنے والی ان گیندوں کو بھی صحیح طور پرپرکھا جانے لگا جو وکٹوں پر لگ سکتی تھیں۔لیکن1995میںکھیل کے ماہرین نے اسے متنازع قانون قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "کسی بھی آؤٹ ہونےکے طریقے نے اتنے تنازعات کھڑے نہیں کیے جتنے ’’ایل بی ڈبلیونے"۔بعض اوقات ایل بی ڈبلیو کے متنازعہ فیصلے نے تماشائیوں کو بھی مشتعل کردیا جس کی وجہ سے ناخوش گوار واقعات بھی رونما ہوئے۔

کرکٹ کی تاریخ کے پہلے ایل بی ڈبلیوہونے والے کرکٹر ہیری ہوپ تھے جو 1976میں میلورن کرکٹ گراؤنڈ پر انگلستان اور آسٹریلیاکے درمیان منعقد ہونے والے میچ میں آسٹریلین بالر ٹام گیرٹ کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ 1932میں بھارت اور برطانیہ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ لارڈز گراؤنڈپر کھیلا گیا جس میں بھارتی بلے باز ’’ناؤ مل جاؤمل‘‘ انگلش بالر والٹر این کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے، اس کے جواب میں برطانوی ٹیم کی اننگز کے دوران بھارتی بالر، سی کے نائیڈو نے انگلش بیٹس مین ایڈی پینٹر کو ایل بی ڈبلیو کیا۔ 

بھارتی سرزمین پر ممبئی کے جیم خانہ کلب میں انگلینڈ اوربھارت کے درمیان پہلے ٹیسٹ میچ کا انعقاد ہوا۔اس میچ میں برطانوی فاسٹ بالر اسٹین نکولس نے بھارت کے اوپننگ بیٹس مین سید وزیر علی کو لیگ بی فور وکٹ آؤٹ کیا۔ 2008میں سری لنکا اور بھارت کے ٹیسٹ میچ کے دوران ڈی آر ایس سسٹم متعارف کرایا گیا۔پاکستانی بلے باز عمران فرحت ، 2009میں نیوزی لینڈ کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئےکرس مارٹن کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے، انہوں نے ایمپائر کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی جسے تھرڈ ایمپائر نے مسترد کردیا۔

پاکستان میں کرکٹ کا آغاز 1952میں ہوا، جس کے بعد پاکستانی ٹیم پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے بھارت گئی۔ پہلا ٹیسٹ میچ دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ پاکستانی بیٹس مین امتیاز احمد نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے پہلے ایل بی ڈبلیو ہونے والے کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کی جانب سے اس اننگ میںایل بی ڈبلیو ہونے والے دوسرے بلے باز انور حسین تھے ۔ عبدالحفیظ کاردار پہلے بالر تھے جنہوں نے بھارتی بلے باز پولی امریگر کو ایل بی ڈبلیو کیا۔لکھنؤ کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے چار بلے بازوقار حسن، امتیاز احمد، مقصود احمد اور ذوالفقار احمد ایل بی ڈبلیوہوئے جب کہ پہلی اننگ میں تین اور دوسری میں بھی تین بھارتی کھلاڑیبھی ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ 

فضل محمود نے لکھنؤ ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں مجموعی طور سے پانچ کھلاڑی ایل بی ڈبلیوکیے۔ممبئی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ونو منکڈ نے وزیر محمد اور عبدالحفیظ کاردار کو لیگ بی فوروکٹ آؤٹ کیا۔ کول کتہ ٹیسٹ میچ میں بھارتی بالر داتو پھاٹکر نے وقار حسن اور انور حسین کو جب کہ دوسری اننگ میں ونو منکڈ نے نذر محمد کو ایل بی ڈبلیو کیا۔ ٹیسٹ میچوں کی پہلی سیریز میں 24بلے باز ایل ڈبلیو اہوئے، فضل محمود نےسیریز میں سب سے زیادہ بھارتی بلے بازوں کو لیگ بی فور وکٹ کا اعزاز حاصل کیا۔

2016کا یوم آزادی اس وجہ سے بھی یادگار رہے گا کہ اس روز اوول کے میدان میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگ میں سہیل خان جب کہ دوسری اننگ میں تین برطانوی بلے باز ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ الیکس ہیلز اورجوئے روٹ یاسر شاہ نےجب کہ جیمز اینڈرسن کو افتحار احمد نے لیگ بی فور آؤٹ کیا۔ پہلی اننگز میں پاکستانی بلے باز سمیع اسلم کو براڈ، جب کہ یونس خان کو اینڈرسن نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ 1967میں اسی گراؤنڈ پرکھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں صرف ایک کھلاڑی ایل بی ڈبلیو ہوئے اور یہ اعزاز مشتاق محمد نے حاصل کیا۔

1993میں پاکستان اورویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ میچ میںسب سے زیادہ ایل بی ڈبلیو کا عالمی ریکارڈ قائم ہوا۔گیانا ٹیسٹ میں مجموعی طور پر پاکستان کے گیارہ اور ویسٹ انڈیز کے نو بیٹسمین کو لیگ بی فور وکٹ آؤٹ دیا گیا۔ میچ کی پہلی اننگز میں دونوں ٹیموں کےپانچ پانچ کھلاڑی جب کہ دوسری اننگز میںویسٹ انڈیز کے چار اور پاکستان کے چھ کھلاڑی ایل بی ڈبلیو ہوئے،اس طرح اس میچ میں مجموعی طور سے 20بلے باز لیگ بی فور وکٹ آؤٹ ہوئے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں جو پورٹ اسپین میں کھیلا گیا، دونوں ٹیموں کے 17کھلاڑی ایل بی ڈبلیو ہوئے تھے۔

نیوزی لینڈ نے بھی دو مرتبہ سب سے زیادہ لیگ بی فوروکٹ کا ریکارڈ قائم کیا۔ پہلی مرتبہ 2003میں زمبابوے اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچ کی ایک ہی اننگ میں دونوں ملکوں کے 7بلے باز آؤٹ ہوئے۔2005میں یہی کارنامہ کرائسٹ چرچ میں آسٹریلیا کے خلاف میچ میں دہرایا گیا، اس میں بھی میچ کی پہلی اننگز میں دونوں ٹیموں کے سات بیٹس مین ، ایل بی ڈبلیوہوئے۔لیکن گزشتہ سال اکتوبر میںلاہور میںمنعقد ہونے والی قائد اعظم ٹرافی کے ایک میچ میںایل بی ڈبلیوکھلاڑیوںمنفردریکارڈقائم ہوا، جو ملکی کرکٹ کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں بنا۔ٹرافی کے ایک میچ میں،ڈومیسٹک ٹیم کے بالرز نےمخالف ٹیم کے 8 بلے بازوںکو ایل بی ڈبلیو کرکےنیا ریکارڈ قائم کیا۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کو ایل بی ڈبلیو کے دو اعزاز حاصل ہیں۔ اس کے فاسٹ بالر انیل کمبلے نے ٹیسٹ کیریئر کے دوران132ٹیسٹ میچوں میں 619وکٹیں حاصل کیںجن میں سے 156کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو کرکے عالمی ریکارڈ بک میں پہلے نمبر پر آگئے ۔سری لنکا کے اسپن بالر مرلی دھرن کاسب سے زیادہ یعنی 800وکٹیں لینے کا عالمی ریکارڈ ہے، 150ایل بی ڈبلیو کھلاڑیوں کے ساتھ دوسرے، آسٹریلیا کے شین وارن 138اور پاکستان کے وسیم اکرم 119لیگ بی فور وکٹ کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ 

بھارت کے لیجنڈبلے بازسچن ٹنڈولکرنے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے، انہیں لیگ بی فور وکٹ ہونےوالے بلے باز کا عالمی اعزازبھی حاصل ہے ۔ وہ 200ٹیسٹ میچوں میں 63مرتبہ ایل بی ڈبلیو ہوکر عالمی ریکارڈ بک میں اپنا نام پہلے نمبر پر ثبت کراچکے ہیں، دوسرے نمبر پر ویسٹ انڈیز کے شیونارائن چندرپال ہیں جو 55مرتبہ لیگ بی فور وکٹ ہوئے۔ انگلش بیٹس مین گراہم گوچ 50مرتبہ ایل بی ڈبلیو ہوکر تیسرے جب کہ ایلسٹر کک اور رکی پونٹنگ 47,47مرتبہ ایل بی ڈبلیو ہوکرمشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن پر فائز ہیں۔پاکستان کے یونس خان 43مرتبہ، جیکس کیلس،ایلک اسٹیوارٹ 40 اور برائن لارا 37مرتبہ ایل بی ڈبلیو ہونے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

دسمبر 2016میںپورٹ آف الزبتھ میں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے درمیان سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میںپروٹیز بلے باز ہاشم آملہ کو جب سری لنکن بالرنوان پردیپ نے ایل بی ڈبلیو کیا تو وہ کرکٹ کی 140سالہ تاریخ میںلیگ بی فور وکٹ ہونے والے 10,000ویں بلے باز قرار پاکر تاریخی حیثیت اختیار کرگئے۔

2011کے ورلڈ کپ کے دوران امپائروں کے فیصلوںکو سخت تنقید کاسامنا کر نا پڑا۔انگلینڈ کے خلاف میچ ٹائی ہونے کے بعد ہندوستانی ٹیم کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے نظرثانی کے طریقہ کار پر تنقید کی ، جس نے آئی سی سی اور ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے درمیان تنازعہ کی صورت اختیار کرلی ،سب سے زیادہ تنازعہ ایل بی ڈبلیو کے سوال پر ہوا کہ، اگر بال جس جگہ پیڈ سے ٹکرائے، اس کے اور وکٹوں کے بیچ فاصلہ ڈھائی میٹر سے زیادہ ہے، تو کھلاڑی کو ایل بی ڈبلیو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے انگلینڈاور بھارت کے میچ میں ائن بیل کو ایل بی ڈبلیو نہیں دیا گیا تھا۔

لیکن آئرلینڈ کے خلاف بھارت کے میچ میں ایلکس کوساک کو آؤٹ قرار دیا گیا حالانکہ وہ وکٹوں سے ڈھائی میٹر سے زیادہ دور تھے۔فروری 2013میںممبئی میں خواتین ورلڈ کپ میں اسی قسم کے واقعات پیش آئے۔ کرکٹ مبصرین کے مطابق سپر سکس کے ایک میچ نیوزی لینڈ کی صوفیہ ڈیوائن جس گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار دی گئیں وہ ان سائیڈ ایج گیند سیدھی بلے پر آئی، کمنٹری بکس میں بیٹھے مبصرین نے بھی بیٹ اینڈ پیڈ کی آواز سنی مگرایمپائر نے اسے آؤٹ قرار دیا۔ڈیوائن کے غلط آئوٹ ہونے پر تھرڈ ایمپائر نے بھی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کیا۔ 

وو واکی ٹاکی کے ذریعے ان فیلڈ ایمپائر کو آگاہ کرسکتے تھے کہ یہ گیند بیٹ اینڈ پیڈ ہو کر گئی ہے لہٰذا اس فیصلے کو کالعدم قرارے کر ڈیوائن کو اپنا کھیل جاری رکھنے دیاجائے،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے رکی پونٹنگ کے پہلے ٹیسٹ میچ کی بھی مثال دی جس میں پاکستانی ایمپائر خضر حیات نےانہیں ایل بی ڈبلیو قرار دیا تھا، حالاں کہ مذکورہ گیند رکی پونٹنگ کے تھائی پیڈ پر لگی تھی اور گیند کا باؤنس وکٹوں کی اونچائی سے کہیں زیادہ تھا لیکن انہیں آئوٹ قرار دے دیا گیا۔

حال ہی میںآئی سی سی نے لیگ بی فور وکٹ سے متعلق امپائروں کے فیصلوں پر متنازعہ ڈی آر آیس سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی منظوری دی، جس سےبالرز کو مدد ملنے کا امکان ہے، ایل بی ڈبلیو پر امپائر کے فیصلے سے متعلق ڈی آر ایس کی پوزیشن کے بارے میں آئی سی سی نے کہاہے کہ، اگر ایل بی ڈبلیو سے متعلق فیلڈ امپائر کا فیصلہ تبدیل کیا جاتا ہے تو گیند کا آدھا حصہ اسٹمپ کےاندر ہونا چاہیے جو آف اور لیگ اسٹمپ سے باہر کی حد بھی ہوگی۔اس سے پہلے گیند کا آدھا حصہ آف اورلیگ اسٹمپ کے درمیان میں ہونا ضروری ہوتا تھا۔آئی سی سی نے کہا کہ یہ ترمیم یکم اکتوبر یا پھر اس تاریخ سےپہلے شروع ہونے والی کسی سریز ،جس میں ڈی آرایس ہو، نافذ ہو گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین