• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترسیلات زر میں کمی اور مزدوروں کی صورتِ حال مسائل کیسے حل ہوں گے؟

ترسیلات زر میں کمی اور مزدوروں کی صورتِ حال مسائل کیسے حل ہوں گے؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبے پی آر آئی نے پوری کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان میں قانونی طور پر ملک میں زرمبادلہ آئے، لیکن ہنڈی کا راستہ ابھی مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ تازہ تخمینہ کاری کے مطابق اس سال بیرون ملک پاکستانی محنت کشوں کی ترسیلات زر میں کمی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 15 ارب ڈالر کی رقوم پاکستان آئیں، جبکہ کوشش تھی کہ اوسطاً پاکستان میں 18سے 20 ارب ڈالر آئیں، تاکہ برآمدات میں کمی کی وجہ سے جو زرمبادلہ کی قلت ہے، اسے دور کیا جاسکے۔ اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خطرناک ہدف سے آگے چلا گیا ہے ،جوتقریباً 18 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے۔ ترسیلات زر میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ، جہاں سے سب سےزیادہ محنت کش زرمبادلہ بھیجتے ہیں، وہاں بھی کساد بازاری کے ساتھ ساتھ شام، عراق کی جنگ نے تباہی پھیلادی ہے۔ 

سعودی عرب بھی یمن کی جنگ میں مصروف ہے، اس کے علاوہ امریکا نے شیل گیس کے پیداوار کے بعد تیل کی درآمد میں ضرورت سے زیادہ کمی کردی ہے، جس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سرد بازاری دیکھنے میں آرہی ہے، جس کے نتیجے میں خاص طور پر سعودی عرب میں ہزاروں پاکستانی محنت کشوں کو ملازمتوں سے نکال باہر کیا جارہا ہے، حالانکہ پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 89 ارب ڈالر ترسیلات زر کے ذریعے پاکستان آئے ہیں، لیکن انہیں پانچ سالوں میں اگر پاکستان کی برآمدات، جو 21.4 ارب ڈالر ہیں اور درآمدات 55 ارب ڈالر ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو35 ارب ڈالر کا خسارہ ہے۔ توازن ادائیگیوں کا خسارہ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ماہر معیشت کے مطابق چار سالوں میں 102 ارب ڈالر رہا ہے۔ 

اُنہوں نے بھی یہ بار بار رائے دی ہے کہ ترسیلات زر، جو89 ارب ڈالر پاکستان آئی ہیں، انہیں منظم طور پر سرمایہ کاری کی مد میں خرچ نہیں کیا گیا، لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ترسیلات زر، اگر اس حجم میں نہ آتیں تو پاکستان دیوالیہ ہوسکتا تھا۔ محنت کشوں کی زرمبادلہ کی رقوم زیادہ تر توازن ادائیگیوں میں خرچ ہوتی رہی ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں پاکستانی تارکین وطن جو رقوم بھیجتے رہے ہیں، انہیں کسی حکومت نے وہ مراعات نہیں دیں، جو پاکستان میں بڑے صنعتی یا تجارتی حلقوں کو دی جاتی ہیں۔ 

ستم ظریفی یہ ہے کہ محنت کش جب بیرون ملک سے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر پہنچتے ہیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ۔ المیہ دیکھئے کہ کسی بھی بجٹ میں ان لوگوں کو مراعات یا سہولتیں نہیں دی گئیں، ورنہ ترسیلات زر میں محنت کشوں کے واپسی کے باوجود کمی نہ آتی۔ پاکستانی جمہوریت کے تمام ادوار میں درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی پر کبھی مباحثہ نہیں ہوا، نہ ہی کسی لیڈر نے اپنے جلسوں اور منشور میں ذکر کیا کہ وہ برآمدات کیسے بڑھائیں گے۔ 

مصیبت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ہر بڑی کرسی پر چھوٹا آدمی بیٹھا ہے، وہ صرف اپنے مفاد کی بات کرتا ہے، اسے یہ علم ہی نہیں کہ اشیائے سرمایہ کی بار بار فروخت سے فاضل زر پیدا ہوتا ہے۔ دوم مالیاتی منڈیوں میں زر یا کرنسی خود تجارت کا روپ دھار لیتی ہے۔ منی مارکیٹوں میں کرنسیوں کے عوض کرنسی فروخت ہوتی ہے، اس میں مددوجزر پیدا کئے جاتے ہیں اور خام مال برآمد کرنے والے ممالک کی کرنسی کی قدر گرتی رہتی ہے ۔زر کی منڈی میں عام مال کی طرح کرنسیوں اور قرضوں کی خریدوفروخت ہوتی رہتی ہے ۔ اسٹاک مارکیٹوں اور کسینوز میں فاضل کرنسی پیدا ہوتی رہتی ہے، جس سے محنت کشوں اور نچلے درمیانی طبقوں کی قوت خرید پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ 

اس وقت عالمی سطح پر تجارت میں زر کا حجم صنعتی سرمائے کے حجم سے زیادہ ہے۔ منافع کے لیے اشیائے سرمایہ کی تجارت اور سود کے لیے مالیاتی قرضوں کی تجارت سے مصنوعی زر کی پیداوار میں تیزی آگئی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو عشروں میں مقامی بینکوں سے ہزارہا ارب روپوں کے قرضے ٹی بلز کے حوالے سے لیے ہیں، چنانچہ 2016 میں بینکوں کے منافع جات 300 ارب روپے تک پہنچ گئے تھے۔ ملک میں نوٹ چھاپنے سے افراط زر کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ محنت کشوںاور نچلے طبقوں پر پڑا، دوسری جانب بے روزگاری کا تدارک نہیں کیا گیا۔ 

محنت کش زرمبادلہ بھیجتے رہے اور حکومتیں آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض سود پر حاصل کرتی رہیں اور انہیں غیرپیداواری پروجیکٹس پر لگایا گیا، جس سے مجموعی قرضے 90ارب ڈالر اور سود کی ادائیگی 1620 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، ایسے مالیاتی ماحول میں اگر ترسیلات زر کی رقوم پاکستان نہ آتیں تو ایک عذاب آجاتا ۔ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے مزدوروں ایک ہوجائو اور پاکستان میں فیکٹریوں کے مزدور ایک نہیں ہیں۔ بڑی بڑی ٹریڈ یونین مزدوروں کا استحصال کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جڑی رہتی ہیں۔ 

آج پاکستان میں محنت کشوں کے حالات 1986کے شکاگو کے حالات سے بھی بدتر ہیں۔ پاکستان میں محنت کشوں کے مسائل سننے والا کوئی نہیں ہے، ملک کی بیورو کریسی ،فیکٹریوں کے مالکان اور طاقتور طبقوں نے ایک منصوبے کے تحت محنت کشوں کا استحصال کرنے کی منصوبہ بندی بڑے پیمانے میں کی ہے۔ جسے جمہوری دور کہا جاتا ہے، اس میں بھی محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا، ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ اداروں میں کلریکل اور نان کلیریکل کیڈرز مستقل بھرتیاں کرنے کے بجائے تھرڈ پارٹی، ڈیلی ویجز اور کنٹرکیٹ پر بھرتیاں شروع کی گئیں، جو آئین کے آرٹیکل25اور 38کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس پر کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں، حالانکہ سپریم کورٹ نے بھی مذکورہ خلاف ورزیوں کی وضاحت کرتے ہوئے 3،4،9،17،25اور 38آئین کے آرٹیکلز کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، لیکن سیاسی پارٹیوں نے ان خلاف ورزیوں کو دور کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل اپنے منشور میں نہیں دیا ۔ 

محنت کش پاکستان میں ہوں یا بیرون ملک ، انہوں نے پیداوار کو بڑھایا ہے، کسانوں نے خوراک میں فوڈ سیکورٹی کے لیے کام کیا ہے، لیکن دونوں طبقوں کو پاکستانی معیشت میں گم شدہ ہندسے سمجھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں میں منافع اور سود کی تحریک پر چلنے والی منڈی میں امیر کی جیت اور غریب کی ہار، تاریخ کے جبر کی حیثیت سے کار فرما ہے۔ اشیائے سرمایہ کی مقدار سے زر کی مقدار فاضل ہو جانے سے خام مال پیدا کرنے والے ممالک صنعتی سرمائے اور مالیاتی سرمائے کے پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔

سی پیک کے حوالے سے یہ امید ہو چلی تھی کہ محنت کشوں اور ہنر مندوں کی بڑی تعداد اس میں کھپ جائے گی، لیکن پاکستان کی حکومتوں نے بلتستان سے لےکر بلوچستان تک محنت کشوں کو جدید ٹیکنالوجی میں تربیت ہی نہیں دی اور نہ ہی پاکستان کے فیکٹری مالکان نے چین سے اب تک کسی شعبے میں جائنٹ و ینچر کر سکے، اس کی ایک وجہ پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پس ماندہ ہے ، چین بہت آگے ہے اور نہ ہی کوئی کوشش ہو رہی ہے کہ پاکستان میں انجینئرنگ اور اسکلز ڈویلپمنٹ میں انسانی وسائل کو تربیت دی جائے ،تاکہ یہ انسانی سرمایہ بن سکے،سی پیک کے بارے میں جو کچھ دستیاب ہے، اس سے زرمبادلہ کے تناظر میں توازن ادائیگیوں کو دیکھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ مشرق وسطی کے بحران سے ترسیلات زر میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ بیرونی قرضہ جات اور توازن ادائیگیوں کا مسئلہ کس طرح حل ہو گا۔ 

بجلی کا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اس کا ٹیرف کیا ہو گا،ان سب مسائل میں پانی کا مسئلہ بھی شامل کر لیا جائے ۔ یہ مسائل پاکستان کے عوام کے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین سابق گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے قرضوں کی سروسنگ اور نجکاری کئے ہوئے ادارے وغیرہ کے منافع جات کا ’’آئوٹ فلو ‘‘ ہر سال3.5ارب ڈالر سے بڑھتا رہے گا، اس کے علاوہ سی پیک سے جڑے ہوئے زرمبادلہ کا ’’آئوٹ فلو‘‘ اس تخمینہ کاری میں شامل نہیں ہے، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو ترسیلات زر پر کتنا انحصار کرنا پڑے گا۔ اس میں کمی کی خبر سنگین صورتحال کی غمازی کرتی ہے۔ زر مبادلہ کی زیادہ اس لیے بھی ضرورت ہےکہ پاور پلانٹس جو لگائے جا رہے ہیں، ان کے لیے فیول بھی درآمد کرنا پڑے گا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق2022تک سی پیک کے ذریعے 8910میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ 

اس میں ایل این جی گیس بھی استعمال ہو گی۔ نیلم، جہلم اور تر بیلا ڈیم کے لیے بھی فیول کی ضرورت ہو گی۔ گوادر اور رحیم یار خان کے پروجیکٹس اس میں شامل نہیں ہیں ،کیونکہ ان کی تکمیل کی تاریخوں کا علم نہیں، البتہ ان میں کوئلے پر چلنے والے منصوبوں سے 6240میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی ،جن میں دو پراجیکٹس پرکوئلہ تھر کا استعمال کیا جائے گا۔ اس میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مستقبل میں اگر فرنس آئل مہنگا ہو گیا تو پاکستان کو کس قدر زرمبادلہ کی ضرورت ہو گی۔ ان سارے مسائل میں ترسیلات زر میں اضافہ، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری اور برآمدات کا بڑھانا بہت ضروری ہو گا۔اہم بات یہ ہے کہ مستقبل میں پاکستان کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کی ضرورت ہو گی۔ پاکستان کے گیس ریزو کم ہو رہے ہیںاور ایل این جی کا قطر سے معاہدہ بھی متنازع ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اربوں ڈالر کی ایل این جی کی امپورٹ کی ضرورت پڑے گی ۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ چین جو بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹس لگا رہا ہے، یہ کافی مہنگے ہیں اور بجلی کے ٹیرف میں مستقبل میں اضافہ ہو گا، جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام کے لیےزندگی گزارنا دو بھر ہو جائے گا۔ غلط فہمیاں اس لیے بڑھتی جا رہی ہیں، معلوم نہیں کہ پاور خریدنے کے معاہدوں پر جو پاکستانی حکام نے دستخط کئے ہیں، ان کی شرائط اور نرخ کیا ہیں۔ وزارت بجلی و پانی کے مطابق بجلی کا ٹیرف 9.6سینٹ سے 9.1سینٹ ہو گا،جو بہت مہنگا ہے، اس لیے برآمدات کے ساتھ ترسیلات زر میں اضافہ ضروری ہو گیاہے۔

تازہ ترین