• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک کہانی ہے۔آپ اسے خواب سمجھیں یا پھر ایک ایسی کہانی سمجھیں جو پوری کی پوری خواب پر مشتمل ہے کالم کا عنوان ظاہری طور پر جناب سہیل وڑائچ کی کتاب غدار کون؟ہے مگر خواب کی کہانی اور ہے ۔ گاڈ فادر کے پاس راستے محدود ہو گئے تھے ، مقدمات میں اسے وکیلوں اور حواریوں نے خراب کیا، نا اہلی ہوئی تو اس کا خیال تھا کہ لوگ سڑکوں پر اس طرح ہوں گے جیسے طیب اردگان کے لئے تھے جب کوئی نہ نکلا تو وہ مری چلا گیا، حواری پھر پہنچ گئے، کہنے لگے ڈیٹ انائونس کر کے نکلو، لوگ ہی لوگ ہوں گے ، حکومتیں بھی اپنی ہیں۔ وہ تاریخ کا اعلان کر کے نکلا مگر نکلتے وقت ہی مشکلات تھیں، لوگ نہ آ سکے بلکہ جلوس کے اندر سے چور، چور کی آوازیں آتی رہیں، پہلے اس کا خیال تھا کہ وہ عدالت سے بچ جائے گا پھر اس کا خیال تھا کہ لوگ سڑکوں پر ہوں گے، خیالات کی ناکامی کے بعد اس نے ایک طرف نیب عدالت میں پیش ہونا شروع کیا تو دوسری جانب مختلف شہروں میں جلسے شروع کر دئیے۔ جلسوں میں لوگ آتے رہے پھر اس کی بدقسمتی کا دن آ گیا۔ اس نے جہلم میں جلسہ رکھا، جس کا وقت پہلے تین بجے تھا پھر پانچ ہوا اور پھر پورا زور لگا کر سات بجے ڈھائی ہزار افراد پر مشتمل جلسہ کیا۔ وہ اتنا مایوس ہوا کہ اس نے خوشاب، چکوال اور گوجر خان کے جلسے ملتوی کر دئیے،جہلم میں اس کے جلسے کے خلاف آگاہی مہم ملاقاتوں کے ذریعے چودھری شہباز حسین اور سوشل میڈیا پر فراز چودھری نے چلائی، جہلم نے مسترد کیا تو پھر اس نے کچھ روز بعد ملتان کا رسک لیا۔ملتان میں اسے گرد چاٹنا پڑی۔ اس ناکامی کے بعد اس کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ لوگوں کو اپنا اصلی ’’چہرہ‘‘ دکھا دے ، سو اس نے وہ دکھا دیا، آپ کو تو پتہ ہے کہ خدا اس وقت تک کسی کو موت نہیں دیتا جب تک اس کا اصل روپ دنیا کو نہ دکھا دے ۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔
وطن سے محبت، ایمان کی نشانیوں میں سے ایک ہے، لوگوں کو پتہ تو ہے کہ مذہبی حساسیت کے حوالے سےترمیم کرنے والے کون تھے یہ تو اللہ بھلا کرے شیخ رشید احمدکا جس نے یہ کوشش ناکام بنا دی ورنہ دین کے ٹھیکیدار بھی وہیں تھے۔ اب ایم ایم اے کے نام پر اکٹھےہونیوالوں نے اس ناپاک جسارت کے بعد بھی وزارتوں سے چپکے رہنا ہی دین کی خدمت سمجھا۔ میں گیانی ذیل سنگھ کے بتائے گئے جانے پانڈی اور دلے ہاراں والے کی بات بھی نہیں کرتا، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ رائیونڈ کے پاس اپنی بستی کا نام جاتی امراءکیوں رکھا گیا تھا۔ چند برس پہلے جو لوگ سیفما کے پروگرام میں شریک تھے، انہیں پتہ ہے کہ وہاں کس نے قائد اعظمؒ کے نظریات کی نفی کی تھی۔ کس نے دو قومی نظریئے کے خلاف باتیں کی تھیں۔ کس نے ہندوئوں سے کہا تھا جو تمہارا رب ہے وہی ہمارا رب ہے بس تم بھگوان کہتے ہو، ہم رب کہتے ہیں پھر اس نے ایک آیت پڑھی تھی اور کہا تھا کہ رب صرف مسلمانوں کا نہیں، سب کا ہے۔ اس نے پاک بھارت سرحد کو لکیر قرار دیا اور پھر کہا کہ ہم ایک ہیں۔
کھیلوں کی بنیاد پر کالج میں داخل ہونے والا کبھی کرکٹر بننا چاہتا تھا، کبھی اداکار اور کبھی کونسلر ، سب جگہوں سے ناکام ہوا۔ ایک زمانے میں اس نے کرکٹ کے شوق میں ریلوے کی درجہ چہارم کی ملازمت بھی کی۔ اداکاری کے شوق میں رنگیلے کا شاگرد بنا۔ کونسلر ناکام ہوا پھر اس نے آمر کی چھتری تلے اقتدار حاصل کیا ورنہ اس سے پہلے تو حالات یہ تھے کہ ایک زمانے میں وہ اس بات پر خوش تھا کہ میری کسٹم انسپکٹر ذہین بادشاہ سے دوستی ہو گئی ہے اور میں نے ذہین بادشاہ کی شادی کے موقع پر اس کی گاڑی چلائی ہے۔ وہ مسلسل ناکامیوں کے بعد مارشل لائی عہد میں پہلےا سپورٹس بورڈ کا چیئر مین پھر حکومت کا مشیر اور پھر 1981میں صوبائی وزیر بن گیا۔اسی چھتری تلے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا، پہلے 1985ءمیں اور پھر 1988ء میں وزیر اعلیٰ بنا۔ یہ 1989کی بات ہے وہ ایک منصوبے کے افتتاح کیلئے سانگلہ ہل گیا۔ واپسی پر اندھیرا ہو گیا تو وہ ہیلی کاپٹر کے بجائے گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں لاہور کیلئے روانہ ہوا، اس کیساتھ ایک صوبائی وزیر ملک خدا بخش ٹوانہ تھے وہ بولا اور ٹوانہ صاحب سے کہنے لگا کہ ملک صرف پنجاب ہونا چاہئے۔ جب خدا بخش ٹوانہ نے دوسرے صوبوں کی اہمیت اجاگر کی اور خاص طور پر بندرگاہ کا ذکر کیا تو گریٹر پنجاب کے خواہش مند نے چند ایسے ملکوں کے نام لئے جنکے پاس بندرگاہیں نہیں ہیں بس پھر خدا بخش ٹوانہ سوچ میں پڑ گئے کہ اس نالائق کو کس نے بریف کر رکھا ہے ۔ 1990میں وزیر اعظم بننے والے کے لئے ایک پیغام چودھری پرویز الٰہی کے ذریعے جنرل آصف نواز جنجوعہ نے دینے کی کوشش کی، پھر چند دنوں بعد آصف نواز جنجوعہ وفات پا گئے، پتہ نہیں انہیں کیا ہوا تھا، بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیااور خود آئی ایس آئی سے الیکشن کیلئے پیسے لے لئے، اس نے ایک عالمی دہشتگرد سے بھی بینظیر بھٹو کے خلاف پیسے لئے تھے۔ اس نے 1997ءمیں بھاری مینڈیٹ حاصل کیا، اس نے 1999ءمیں اپنی ہی فوج کے خلاف اشتہار چلوائے۔ اس نے اکتوبر 99ءمیں یہ کوشش کی کہ پاکستان کا آرمی چیف مجبوراً بھارتی سرزمین پر اترے مگر وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوا۔ پھر اسے جیل میں خوف آتا تھا بس اسی پریشانی میں اس نے دس سالہ معاہدہ کیا، ساتھ ہی قوم سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا کہ کوئی معاہدہ نہیں۔ یعنی وہ بہت پہلے کا جھوٹا تھا۔ سپریم کورٹ نے تو اسے اب جھوٹا قرار دیا ہےجب مئی 2006 میں میثاق جمہوریت تحریر ہورہا تھا تو سوال آیا کہ فوج کا راستہ کیسے روکا جائے تو اس مرحلے پر وہ بولا کہ میرے پاس ایک راستہ ہے ،پیپلز پارٹی کے لوگ حیران ہو گئے کہ پتہ نہیں کونسا راستہ ہے؟ اصرار پر بتایا کہ اب اگر فوج آئی تو میں تو اپنا سامان اٹھا کر جاتی امراء، امرتسر چلا جائوں گا اور کہوں گا کہ سنبھالو اپنا ملک۔ اگست 2006ءمیں اس نے لندن میں چند افراد کی ایک محفل میں کہا کہ میری تو خواہش ہے کہ پاک فوج کو افغانستان کی طرف سے مارپڑے اور دوسری طرف سے انہیں انڈین فوج مارے۔اس دوران قوم بھی اس فوج کے خلاف کھڑی ہو جائے۔پھر وہ بے نظیر بھٹو کے طفیل پاکستان آ گیا۔ این آر او ہو گیا۔ اس نے 2013 کا الیکشن کیسے جیتا، یہ سب کو پتہ ہے، ایک روز انڈین ٹی وی پر کون کہہ رہا تھا کہ ہم نے نواز شریف پر سرمایہ خرچ کیا ہے ، اسے اقتدار میں لانے کے لئے پیسہ خرچ کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کس نے بیرون ملک اثاثوں کے انبار لگائے۔ مجھے کیا پتہ کہ رمضان شوگر مل میں کہا ں کے بندے کام کر رہے تھے اور کیا کام کر رہے تھے؟ مودی کی حلف برداری میں کون گیا تھا۔کن کی شادی پر مودی اور اجیت کمار دوول آئے تھے وہی دوول جس نے کہا تھا کہ ہم کبھی سی پیک کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہ تو پتہ ہی نہیں چل سکا کہنیوز لیکس میں کون کون شریک تھا، کس نے شیخ مجیب الرحمن بننے کی باتیں کیں، کس نے اچکزئی کا نظریہ اپنایا؟
ممبئی حملوں کے ذکر سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کی بات ہو جائے خود بھارت نے مانا کہ یہ آر ایس ایس نے کیا تھا۔ ممئی حملوں کے حوالے سے ایک کتاب Betrayal of India by elias davidsonپڑھی جا سکتی ہے۔ جس میں ان حملوں کو امریکہ اور بھارت کا مشترکہ منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔ مہاراشٹرا کے سابق آئی جی نے کہا تھا کہ ممبئی حملوں سے پہلے دو سال سے اجمل قصاب انڈین پولیس کی تحویل میں تھا اور اسے کھٹمنڈو سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اب جب لوٹ مار کے حساب کا وقت قریب آ ن پہنچا تو اس نے دشمن کی زبان بولنا شروع کی، وہ کرپشن پر سزا سے بچنا چاہتا ہے،اس لئے جتن کر رہا ہے، پوری مسلم لیگ ن الیکشن میں کس کس بات کا جواب دے گی، لوٹ مار کا، ختم نبوت میں ترمیم کا یا پھر غداری کا؟
خواتین و حضرات !یہ خواب تھا اسی لئے تو مجھے احمد فراز کا شعر یاد آرہا ہے کہ
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
اگر یہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین