• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ فقط عالم پریشانی ہے یا پہلے سے خطرات میں گھرے پاکستان کو سراپا تشویش بنانے کی سوچی سمجھی اور گہری منظم سازش؟ معاملہ یہیں تک محدود ہے کہ نوازشریف نے ملتان میں ’’معتبر‘‘ اخبار کے ’’ رپورٹر‘‘ کو جو نیوز انٹرویو دیا ہے، وہ فقط نوازشریف کی اتھاہ مایوسی میں ڈوباہوا بیانیہ ہےجو افواج پاکستان ہی نہیں کروٹ بدلتے پورے پاکستان سے ناراضی کا اظہار ہے؟ یا یہ پاکستان کو مزید خطرات اور بیرونی دبائو میں لا کر اس کی سلامتی کے سوال کھڑا کرنے کاٹیلر میڈ پریشانیہ ہے؟ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے کے نتیجےمیں ہمیشہ کے لئے نااہل (برائے عوامی نمائندگی) ہو جانے والے نوازشریف نے جو بم چلایا ہے، یہ کثیر الہدف ہے۔ اس کے مفصل تجزیے کے کتنے ہی پہلو ہیں، جن سب کا واضح ہونا ہماری فوری بڑی قومی ضرورت بن گئی ہے۔ لیکن اس کا اہم ترین پہلو قومی صحافت، دشمن ملک کے پروپیگنڈے اور ملکی و غیر ملکی رائے عامہ سے ہے۔ یہ سارے موضوعات علم ابلاغیات (کمیونیکیشن سائنس) کے موضوعات ہیں جو ہماری یونیورسٹیز میں پڑھائے جاتے ہیں۔

خاکسار نے 9سال عملی صحافت بطور نیوز رپورٹر اور چیف رپورٹر گزارے، دو سال نیوز روم میں کام کیا۔ 36سال ابلاغیات پڑھائی اور پڑھا رہا ہوں، اس طویل عرصے میں بھی عملی صحافت سے وابستگی الحمد للہ بخوبی قائم ودائم رکھی۔ ابلاغ عامہ میں ’’پروفیشنلزم بمقابلہ نیشنلزم‘‘ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ ایسے میں یہ ناچیز کا پیشہ ورانہ (اور قومی بھی) فریضہ بن گیا ہے کہ نوازشریف کے ’’ٹیلر میڈ پریشانیے‘‘ کا تجزیہ اپنے تئیں کروں۔ میں اپنی ذات کو اپنی ہی تحریروں میں لانا سخت غیر پیشہ ورانہ اور اعلیٰ صحافتی اقدار کے منافی جانتا ہوں۔
لیکن کالم صحافت کی وہ صنف ہے جو کالم نویس کوذاتی جذبات و احساسات کے اظہار کی گنجائش دیتا ہے، بشرطیکہ یہ ذاتی اسلوب کا مستقل عنصر نہ بنے۔
میں اس ماں کا بیٹا ہوں جس نے برقعہ پہن کر اپنے پہلے پانچ چھ سالہ بیٹے کی انگلی تھامے دہلی میں قائداعظم کے جلسے جلوسوں میں پاکستان کےقیام کے نعرے بلند کئے ہیں اوراس باپ کا جو محکمہ آبپاشی میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ اسٹاف ممبر سے زیادہ لیگی ورکر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ہندو سینئر جس کے ویری تھے اور جس نے پاکستان ہجرت کے لئے اپنے ایک معروف کانگریسی
کزن آصف علی بیرسٹرکی ریلوے اسٹیشن تک محفوظ پہنچنے کی مدد لینے سے انکار کردیا تھا۔ شیخ مشتاق علی منصوری نے محلے میں بلوے کے بعد اپنی بیوی محمودہ لطافت اور دس سال تک کے تین بچوں کے ہمراہ ہمایوں کے مقبرے پر لگے کیمپ میں پناہ لی اور درجنوں عازم ہجرت مسلم گھرانوں کے ہمراہ ان پر جو گزری وہ بے حد دلخراش داستان، بس یوں سمجھیں کہ پناہ سے پہلے میرا بھائی محمد علی تیزابی بوتلوں کے حملے سے اپنی ایک آنکھ گنوا بیٹھا تھا اور دوسری شدید زخمی تھی جس سے وہ ہر وقت ماں کی گود میں بلبلاتا رہتا۔ سب سے بڑے بھائی عرفان علی کی پنڈلی جل گئی تھی اور ماں جلی جھلسی ساڑھی اوپر برقعہ پہنےاپنے زیور کی پوٹلی کمر سے لپیٹ کر گھر سے نکلیں۔ میرے بزرگوں کاہوم ٹائون تو مراد آباد تھا اور وہیں ہماری زرعی اراضی بھی تھی۔ میرے والد دہلی کے کوچہ چیلان میں ممتاز ماہر آثار قدیمہ ولی اللہ خان (پاکستان محکمہ آثار قدیمہ کے بانی ڈائریکٹر) کے کرائے دار تھے جو والد کی طرح سرگرم مسلم لیگی تھے۔ کسی خبر پر ایک معاصر انگریزی اخبار کی کاپیاں کانگریسی ورکرز نے جلائیں تو اس پر ڈان سے یکجہتی کیلئے ڈان آفس کے گردونواح کے مسلم محلوں میں جلوس نکالے گئے جس میں ولی اللہ خان اور میرے والد پیش پیش تھے، اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کے گھر پرحملہ ہوا۔ ایسے بوتل بموں سے جس کی کرچیاں چاروں طرف پھیلتیں تھیں۔ گویا اس وقت کی پیلٹ گن تھی جو اسرائیلی سپلائی کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں استعمال ہورہی ہے۔
بوتل بم سے پیلٹ گن تک کا یہ سفر اور آج کشمیر کے گلی بازاروں میں پیلٹ گن کا استعمال اور بزرگوںسے سنی ہجرت کی سچی کہانیوں کا پس منظر لئے ریاستی راز کھولنے کی دھمکیوں کے چند روز بعد ہی نوازشریف کے ٹیلر میڈ بیانئے نے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی اور مجھے اپنے گھرانے کی ہجرت کی یہ کہانی قارئین سے شروع کرنی پڑ رہی ہے۔
آج پاکستان خطرات میں اس وقت گھرا ہے جب ہماری افواج پولیس اور قوم کے ہر طبقے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے کر ملک کو دہشت گردی سے پاک ہی نہیں کیا۔ داخلی سیاست کے حوالے سے عملاً اپنی سوچ اور انداز بھی تبدیل کرڈالا۔ ہوسکتا ہے 10-5 فیصد کوئی ایسا عنصر اب بھی ہو، لیکن یہ تبدیلی 3مرتبہ اور فوج کی مدد اور اشیرباد سے وزیراعظم بنے شخص کو نظر نہیں آئی۔ جہاں تک نوازشریف کی پریشانی اور بلند تر درجے کی مایوسی کا عالم ہے، ان سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا کہ و ہ ان کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ اب تو نااہل نوازشریف کا انداز سیاست اور اس کا مقصد اور ان کے ناطے اور ان کا مقصد سب کچھ بے نقاب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سلامتی کو زک پہنچانے والا تحریری مواد یا کلام ابلاغ عامہ کا پیغام بن سکتا ہے؟ میڈیا لاز دنیا کی ہر جمہوری ریاست میں ہوتے جو ہنگامی حالات اور ملکی سلامتی کے خطرات میں سخت ترین بھی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے آئین و قانون میں اس کی گنجائش ہے؟ نہیں ہرگز نہیں اور کبھی نہیں۔ فکر یہ ہے کہ فوج کی پشت بانی سے بنا ہمارا ’’عوامی لیڈر‘‘ جو ملکی عدلیہ کے مقابلے میں ہجوم از سماجی پسماندگی کو عوامی عدالتیں کہتا ہے اور قائداعظم کا نکالا معتبراخبار۔ یہ نہیں جانتے کہ اس کے چھپے جس مواد کو دشمن ملک سفارتی مہمات اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کیلئے موثر ٹول کے طور پر استعمال کررہا ہے، اس کی اشاعت کیسی پیشہ وریت ہے؟ سرل المیڈا ایسا رپورٹر ہے جو ارینجنڈ رپورٹنگ کیلئے ضلعی صدر مقامات پر جا کر رپورٹنگ کرتا ہے اور نیوز لیکس میں جس کا یقین کی حد تک مشکوک کردار آزادی صحافت کے احترام میں نظر انداز کردیا گیا۔ اب پھر وہ اس کو دہرا رہا ہے اور اسی سیاسی محاذ سے جو ریاستی عدلیہ کے مقابلے عوامی عدلیہ کے بیانیے کو عام کرنے کے جرم کا مرتکب ہے۔
نوازشریف پریشان اور مایوس ہیںتو اپنے کرتوتوں پر۔ سو ان کا بیانیہ فقط مایوسی اور بیٹی کے وزیراعظم بننے کے راستے بند ہونے کے غم کا ہی اظہار نہیں۔ یہ قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت ہے۔ لیکن اس کی ضرورت نہیں، آئین میں سزا آرٹیکل 6کی سزا سے زیادہ سخت ہوگی۔ وہ پہلے ہی گرفت میں ہیں جس کا سامان انہوں نے خودکیا ہوا ہے۔
بہرحال اس کا توڑ یہ ہی ہے کہ بھارتی میڈیا، وہاں کے بنیاد پرستوں اور جہاں جہاں نوازشریف کا پریشانیہ، دہلی کا بیانیہ بن کر پہنچایا جارہا ہے، وہاں وہاں یہ پہنچایا جائے کہ نوازشریف ہماری عدالتوں سے ثابت شدہ جھوٹا ہے۔ جس وزیراعظم کی پارلیمان میں قوم کی وضاحتی تقریر کو عدالتی کارروائی میں اس کا وکیل ’’سیاسی‘‘ قرار دے دے ، وہ جھوٹا نہیں تو اور کیا۔ جو پارلیمان کی اتنی رسمی لگی بندھی تقریر کو ’’حقائق‘‘ کے طور اون نہ کرے، اس کا دستاویزاتی ریکارڈ کا جھوٹ پارلیمان میں مفصل وضاحت کے مقابل ہیچ ہے۔ ایسے جھوٹے لیڈر کا ہر بیان جھوٹ ہوسکتا ہے۔ نوازشریف کو جھوٹ پر ہی ہماری اعلیٰ عدلیہ نے نااہل قرار دیا ہے۔ ہمیں یہ دنیا کو بتانا ہوگا کہ پاکستان پر حملہ اور ٹیلر میڈ بیانیہ نوازشریف کا ٹیلر میڈ پریشانیہ ہے جو پاکستان میں سپریم کورٹ سے قرار دیئے گئے واحد جھوٹے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین