• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے یہ جملہ رواں دہائی سے سنتے آ رہے تھے لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب اسکا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے بھی کر رہے ہیں۔ ادھر آپ کی انگلیوں نے جنبش کی ادھر سوشل میڈیا کے ذریعے آپ کی سوچ صوتی لہروں کے ذریعے سات سمندر پار بیٹھے اس شخص تک بھی پہنچ گئی جس سے آپ کی کوئی شناسائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو اشرف المخلوقات اور زمین پہ اپنا نائب بنا کر بھیجا تو انسان نے اس کی عطا کردہ صلاحیتوں اور علم کو بروئے کار لا کر ستاروں پہ کمندیں ڈال دیں۔ زمین میں چھپے رازوں کو آشکار کیا ،فضائوں کو تسخیر کر ڈالا اور خلائی دنیا میں جھانکنا بھی شروع کر دیا۔ انسان کے ذہن کی یہی معراج ہے کہ وہ تھری ڈی جیسی ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے اعضا حتی کہ اپنے جیسے انسان کی نقل تیار کرنے کی جستجو میں ہے۔ وہ وقت بھی دور نہیں جب ہالی وڈ کی فلموں میں دکھائی جانے والی ٹائم مشین کے ذریعے انسان ایک ہی وقت میں کئی مقامات پہ اپنے وجود کو ممکن بنا سکے گا، اسی لئے شاعر مشرق نے کہا تھا کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں- محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ دنیا کے ایک گائوں کی شکل اختیار کر لینے کی وجہ سے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ دنیا کو ساتھ لیکر چلا جائے یا اتنی استعداد پید اکی جائے کہ آپ دنیا کیساتھ چل سکیں ورنہ رینگنے والوں کو دنیا روند کر آگے نکل جایا کرتی ہے۔ یہ پاکستان پہ اللہ کی خاص رحمت ہے کہ اس کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ دنیا کسی طور اسے نظر انداز نہیں کرسکتی لیکن یہ اب ملکی قیادت پہ منحصر ہے کہ وہ اس رحمت کو مواقع میں کیسے تبدیل کرتی اور پاکستان کو ایشیا کا وہ ٹائیگر بنانے کی جستجو کرتی ہے جس کے دعوے کئی دہائیوں سے عوام سن رہے ہیں۔ زمین نام کے اس سیارے پہ موجود ممالک کے ساتھ روابط کیلئے بہت اہم ہے کہ انہیں انگیج کیا جائے اور ایسی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جسکے باعث دنیا پاکستان کی طرف کھنچی چلی آئے۔ بہت معروف مقولہ ہے آپ کو دنیا میں مفت لنچ کہیں سے نہیں ملتا۔ اگر کوئی آپکو مفت میں کھانا کھلا بھی رہا ہے تو اس کے پس پردہ بھی یقیناً سخاوت کرنے والے کا کوئی نہ کوئی مفاد ضرور وابستہ ہو گا۔ موجودہ حالات میں ایک دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کی ایک ہی بنیاد سب سے مضبوط نظر آرہی ہے اور وہ ہے اقتصادی یا معاشی مفادات۔ یہ معاشی مفاد ہی ہے جو ڈیڑھ ارب کی منڈی رکھنے والے بھارت کے مکروہ چہرے کو ڈھانپ دیتا ہے، اقوام عالم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے انسانیت پہ ڈھائے جانیو الے بدترین مظالم پہ آنکھیں بند کر لیتی ہے، یہ اقتصادی فوائد ہی ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے فلسطین تک اقوام متحدہ کی آنکھوں پہ وہ پٹی باندھ دیتے ہیں کہ جو دہائیاں گزر جانے کے باوجود نہیں اترتی۔ یہ بھی معیشت ہی ہے جو امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے اسلامی دنیا کے ممالک کو باری باری تاراج کرنے پہ تلی ہوئی ہے لیکن عالم اسلام کے قلعے سعودی عرب کے ساتھ اسی امریکہ کی اربوں ڈالرز کی تجارت اس کا غیر مشروط ساتھ دینے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ بھی مالی فوائد ہی ہیں جو مودی اور ٹرمپ کو آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے والے چین سے ہاتھ ملانے پہ مجبور کرتے ہیں۔ یہ بھی اقتصادیات ہی ہے جو جرمنی کو فرانس سے اور شمالی کوریا کو جنوبی کوریا سے بغلگیر کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہی وہ گیدڑ سنگھی ہے جسے اب پلو میں باندھ کر پاکستان کو اپنی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔ ملکی قیادت میں اس حقیقت کا بخوبی ادراک موجود ہے جس کا ثبوت گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پاکستان میں تعینات غیر ملکی سفارتکاروں کو دی گئی خصوصی بریفنگ میں کیا ہے۔ غیرملکی سفارتکاروں کو گھیرکر لانے اور ایک میز پہ بٹھانے کے فن کے مشاق سینیٹر مشاہد حسین سید کی اس کاوش کو جتنا سراہا جائے کم ہے لیکن ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی کے کھیل میں ایسے تعمیری اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نہ تو کسی کے پاس وقت ہے اور نہ ہی میڈیا کے پاس جگہ۔ یہ کانفرنس کئی پہلوئوں سے نہایت اہمیت کی حامل تھی، سب سے پہلے تو اس بیٹھک میں غیر ملکی سفارتکاروں نے مشاہد حسین سید کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو آئندہ ممکنہ وزیراعظم پاکستان پیش کرنے کی کوشش کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ ایسے برتائو کیا جیسے اقتدار کا ہما آئندہ الیکشن میں انہی کے سر بیٹھے گا۔ دوسرا اس نشست میں غیرملکی سفیروں نے وہ تمام سوالات پوچھے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے متمنی کسی بھی ملک کی قیادت کے ذہن میں آ سکتے ہیں اور یہ امر نہایت خوش آئند تھا کہ شہباز شریف نے نہ صرف سفارت کاروں کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے مدلل جوابات دئیے بلکہ روانی کے ساتھ انگریزی زبان میں گفتگو کر کے انہیں قائل بھی کیا۔ عرب، فرانس، آسٹریا اور دیگرممالک کے سفیروں کے ساتھ تو انہوں نے ان کی زبان میں مکالمہ کر کے انہیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ اس کانفرنس کے ذریعے نہ صرف شہباز شریف نے پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے وژن پیش کیا بلکہ دنیا بھر کے ان نمائندوں کے سامنے یہ بھی باور کرا دیا کہ پاکستان اب ان سے امداد کی صورت میں بھیک نہیں لے گا اورخود انحصاری کی پالیسی پہ چلتے ہوئے اپنے پائوں پہ کھڑا ہو کر دنیا کے ساتھ باہمی مفادات اورقومی وقار پہ مبنی تجارتی تعلقات قائم کرے گا۔ اس نشست میں غیر ملکی سفارتکاروں کی اکثریت نے سی پیک کا حوالہ دے کر جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان صرف چین اور سی پیک کو ہی اپنی خارجہ پالیسی میں اہمیت دے گا لیکن شہبا زشریف نے امریکہ، جرمنی، خلیج اوروسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مختلف گیس پاور پلانٹس کی تنصیب، افرادی قوت کی فراہمی، تاپی اور کاسا ایک ہزار جیسے منصوبوں کی مثالیں دے کر واضح کیا کہ پاکستان صرف چین نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کے ساتھ دو طرفہ تعاون کے معاہدوں کے لئے تیار ہے۔ شہباز شریف نے غیر ملکی سفیروں کو باور کرایا کہ پاکستان ہر ملک کے ساتھ سی پیک کرنے کے لئے تیار ہے۔ بعض سفیروں نے آئندہ الیکشن کےبارےمیں بھی کچھ تحفظات ظاہر کیے تو شہباز شریف نے واضح کیا کہ عوام آئندہ الیکشن میں کسی بھی سیاسی جماعت کو منتخب کرنے کے لئے آزادانہ حق رائے دہی استعمال کریں گے بلکہ انہوں نے مثبت سوچ کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک بھی کہا کہ اس بات پہ یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ ہے ہی نہیں کہ آئندہ انتخابات صاف شفاف اور غیر جانب دار نہیں ہوں گے۔ ہمسایہ ملک افغانستان کی نمائندگی کرنے والے چارج ڈی افیئرز نے تو براہ راست استفسار کیا کہ اگر آپ وزیراعظم بن گئے تو افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی کیونکہ موجودہ حکومت میں تو یہ تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ شہباز شریف نے انہیں برملا جواب دیا کہ اگر کابل میں کوئی افغانی بم دھماکے کا نشانہ بنتا ہے تو انہیں ویسے ہی افسوس ہوتا ہے جیسے لاہور یا کراچی میں کسی پاکستانی کے دہشت گردی کا نشانہ بننے پہ ہوتا ہے۔اس لئے دونوں ممالک کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے اور پاکستان افغانستان میں دیرپا قیام امن کے ہر عمل کی بھرپورحمایت کرے گا۔ شہباز شریف نے ملکی آبادی خصوصاََبے روزگاری کو اہم مسئلہ قرار دیتے ساٹھ فیصد یوتھ کو لاوا قرار دیا کہ اگر اسے تعمیری سمت نہ دی گئی تو یہ سب کچھ ساتھ ہی بہا لے جائے گا۔ اس کانفرنس کا انعقاد ہرحوالے سے ایک انتہائی مثبت قدم تھا جس میں شہباز شریف نے انسانی ترقی سے معاشی وژن اور سیکورٹی پالیسی سے خارجہ پالیسی تک تمام شعبوں کا مکمل احاطہ کیا۔ ان کی بریفنگ دلائل اور حقائق سے اتنی بھرپور تھی کہ برطانیہ جیسے بعض ممالک کے سفیروں نے سوال پوچھنے کی بجائے ان کی پریزنٹیشن کو سراہا۔اس کانفرنس میں بعض سفیروں کے استفسار پہ شہباز شریف نے یہ اعتراف بھی کیا کہ پاکستان میں حکومتیں جو بھی آئیں یا جائیں عمران خان سے مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے نواز شریف تک ایسے میثاق معیشت پہ سب کو متفق ہونا چاہئے جس پہ حکومتوں کی تبدیلی سے کوئی فرق نہ پڑے۔ موجودہ کھینچا تانی کے ماحول میں دنیا کو پاکستان کے بیانیے اور مستقبل کے وژن سے روشناس کرانے اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان کا روشن چہرہ پیش کرنے پہ مشاہد حیسن سید اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین