• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کُرہ ارض صرف انسانوں کا نہیں!

’’ابو! آپ اس درخت کو کٹوا کیوں نہیں دیتے۔‘‘ صائمہ نے صحن میں جھاڑو لگاتے ہوئے کہا: ’’دیکھیے، کتنا کوڑا ہے، صبح سے تین مرتّبہ صفائی کرچکی ہوں، جب دیکھو پتے بکھرے رہتے ہیں، میں تو تنگ آگئی ہوں۔‘‘ بیٹی کی بات سن کر باپ نے مسکرا کر کہا، ’’بیٹا! درخت اللہ کا انعام ہیں، تم جسے ایک درخت سمجھ رہی ہو، وہ پوری ایک دنیا ہے، اس گھر میں ہم صرف چار پانچ افراد ہی رہتے ہیں، مگر اس درخت پر تو پورا جہاں آباد ہے، دن بھر بے شمار پرندے اس پر بسیرا کرتے ہیں۔ شام ڈھلتی ہے، تو سیکڑوں چڑیاں شاخوں پر سونے کے لیے آجاتی ہیں۔ کچھ پرندوں نے گھونسلے بھی بنا رکھے ہیں، اس کی جڑوں میں نہ جانے کتنے حشرات الارض پل رہے ہیں، کچھ کیڑے مکوڑے پتّوں پر رہتے ہیں۔ تتلیاں بھی آتی ہیں، درخت کاٹنے کا مطلب یہ ہوگا ان سب کی دنیا اجاڑ دی جائے۔ دوسری طرف اس سے ماحول کی آلودگی بھی کم ہوتی ہے۔ لہٰذا اب تم کاٹنے کی بات نہ کرنا۔‘‘

یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں، ہمارے مُلک میں بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ انسان کی زندگی کا زیادہ تر انحصار اس حیاتیاتی تنوّع پر ہے، جسے قدرت نے ہمارے لیے تخلیق کیا ہے۔ ہمارا کرۂ ارض قدرت کا ایک حسین شاہ کار ہے، ہوا، بادل، بارش، دریا، جنگلات، پہاڑ، سمندر یہ سب مل کر ایک ماحول بناتے ہیں، انسان، نباتات، حیوانات، پرندے، حشرات الارض وغیرہ اس ماحول کا حصّہ ہیں۔ یہ سب مل کر ایک ایسی رنگا رنگ دنیا کو وجود میں لاتے ہیں، جس میں انسان ایک غالب ترین ہستی ہے۔ ایک خاص ترتیب کے ساتھ تشکیل دیا ہوا یہ حیاتیاتی تنوّع، دنیا اور انسانی زندگی کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے، مگر انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور حضرت انسان کے کچھ اقدامات اس حیاتیاتی تنوّع کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے 2010ء کو حیاتیاتی تنوّع کا سال قرار دیا تھا۔ حیاتیاتی تنوّع کے لیے انگریزی میں "Biodiversity" کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہر سال 22 مئی حیاتیاتی تنوّع کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے نیز 2011ء سے 2020ء کے برسوں کو حیاتیاتی تنوّع کا عشرہ قرار دیا جاچکا ہے۔

حالیہ برسوں میں حیاتیاتی تنوّع کو درپیش خطرات، عالم گیر مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ صنعتی ترقّی، آلودگی، بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کے پھیلائو، جنگلات اور زرعی زمینوں کے رقبے میں کمی کی صورت میں حیاتیاتی تنوّع، تباہی کا شکار ہو رہی ہے، دوسری جانب کیڑے مار ادویہ کے استعمال سے ماحول دوست حشرات بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا، بالخصوص یورپ اور امریکا میں شہد کی مکھیاں ناپید ہوجائیں تو دنیا بھر کے اسٹورز میں موجود نصف سے زائد اشیا از خود غائب ہوجائیں گی۔ لہٰذا یورپی یونین نے اس انتباہ کے پیشِ نظر گھر کے باہر اسپرے کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ غیر قانونی شکار کے باعث پاکستان میں پائے جانے والے چار جان داروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں، جن میں اڑنے والی گلہری، بارہ سینگھا اور شیروں کی دو اقسام شامل ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، مُلک کی 80 فی صد زمین خشک اور نیم خشک ہے۔ مُلک کی 79.6 ملین ہیکڑ اراضی میں سے 68ملین ہیکڑ اراضی ایسے علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں سالانہ بارش کا اوسط 300 ملی لیٹر سے کم ہے۔ صرف 20 ملین ہیکڑ اراضی قابلِ کاشت ہے۔ جس میں 16 ملین ہیکڑ زمین نہری اور 4 ملین ہیکڑ اراضی بارانی ہے۔ عالمی ماحولیاتی معیار کے مطابق کسی بھی مُلک کا 20 سے 25 فی صد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں جنگلات کا رقبہ صرف 5.2 فی صد ہے۔ اس میں سے بھی تین فی صد سالانہ کم ہورہا ہے۔ 

حکومت کی عدم توجّہی کے باعث جنگلات کی قیمتی لکڑی تعمیرات اور جلانے کے لیے بے دردی سے کاٹی جارہی ہے۔ سب سے افسوس ناک صورتِ حال بلوچستان کے علاقے زیارت کی ہے، جہاں صنوبر کے جنگلات واقع ہیں۔ یونیسکو نے اس علاقے کو حیاتیاتی ذخیرہ قرار دے رکھا ہے۔ یہاں صنوبر کے کچھ درخت چار ہزار سال پرانے ہیں مگر مقامی آبادی، اس قیمتی ذخیرے کو بہ طورِ ایندھن کھانے پکانے کے لیے استعمال کرتی ہے، اس کے علاوہ صنوبر کی لکڑی مکان کی چھتوں، دروازوں اور چوکھٹوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ موسمِ سرما میں جب یہاں کا درجۂ حرارت منفی درجے تک پہنچ جاتا ہے تو نقل مکانی کرنے والے خاندان صنوبر کی لکڑی بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ 

یہ لکڑی زیارت کے علاوہ دیگر علاقوں مثلاً ہرنائی، پشین اور لورالائی تک کے مکانوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے صنوبر کے درخت کاٹنے پر پابندی عائد کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود درخت کاٹنے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ مقامی افراد صنوبر کے درخت کاٹ کر وہاں کھیتی باڑی کررہے ہیں اور پھل دار درخت لگا رہے ہیں تاکہ رقم کمائی جاسکے۔

پاکستان کے شمالی علاقے حیاتیاتی تنوّع اور قدرتی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ علاقے جنگلات، معدنیات، گلہ بانی، جنگلی حیات، زرعی پیداوار، بالخصوص پھل اور میوہ جات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں مارکو پولو بھیڑ، مارخور، برفانی، تیندوا، جنگلی مرغ، چکور، تیتر بہ کثرت پالے جاتے ہیں، لیکن غیر قانونی شکار سے یہ جانور تقریباً ناپید ہوتے جارہےہیں۔ تاہم، کچھ بین الاقوامی تنظیموں کی کوششوں سے غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور مختلف ترغیبات کے ذریعے مقامی افراد کو جنگلی حیات کے تحفّظ پر مائل کیا جارہا ہے، ان کوششوں کے نتیجے میں مقامی افراد جنگلی حیات کی حفاظت کرتے ہیں۔

حیاتیاتی تنوّع کے تحفّظ کے ضمن میں ایک اہم پیش رفت 1992ء میں ہوئی تھی، جب ایک سو اڑسٹھ ممالک نے برازیل میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ حیاتیاتی تنوّع کو بچانے کے اقدامات کا ساتھ دیں گے، مگر آئندہ بیس پچیس سال کے دوران زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔ ماہرین اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ رواں صدی میں بہت سے جانوروں کی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔ گزشتہ ساٹھ ستّر سال کے عرصے میں بڑی جسامت والے جانوروں کی تعداد میں اسّی سے نوّے فی صد کمی آئی ہے۔ حیاتیاتی تنوّع کا تحفّظ اکیسویں صدی میں ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ 

اس ضمن میں بنیادی مسئلہ ہے کہ اکثر لوگ حیاتیاتی تنوّع کے بارے میں کچھ نہیں جانتے شہروں کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، جہاں حیاتیاتی تنوّع صنعتی ترقّی اور شہری پھیلائو کے سبب قدرتی ماحول تقریباً ختم ہوگیا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں جہاں یہ رنگا رنگ اقسام پائی جاتی ہیں، مقامی آبادی ماحول کے تحفّظ کا ادراک نہیں رکھتی اور اقتصادی فائدے کی خاطر جانوروں اور پرندوں کی رہائش والی جگہوں کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔

حیاتیاتی تنوّع کے حوالے سے درختوں کا کردار زیادہ اہم ہے، صرف ایک درخت لگانے سے ماحول میں حیاتیاتی تنوّع بڑھ جاتا ہے، ماحول کے لیے ضروری جان دار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ صرف ایک درخت سے ذیلی پودے، کیڑے مکوڑے، پرندے، رینگنے والے مختلف جانور ماحول کا حصّہ بن جاتے ہیں، ایک درخت سے خارج ہونے والی آکسیجن کی مقدار اتنی ہوتی ہے کہ جو 36 ننھے منے بچّوں کو مہیا کی جاسکتی ہے۔ حکومت پاکستان نے گرین پاکستان پروگرام کے تحت جو 2017ء میں شروع کیا گیا تھا، 4 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک سو ملین درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے جو آئندہ پانچ برسوں میں مکمل ہوگا، اس پروگرام کے تحت سڑکوں اور نہروں کے کنارے پر درخت لگائے جائیں گے۔ ایسا ہی ایک پروگرام صوبہ کے پی کے میں شروع کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر بدعنوانی کی نذر ہوگیا ہے۔ 

درخت نہ صرف حیاتیاتی تنوّع میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ بنجر اور خشک زمین کی زرخیزی کا سبب بنتے ہیں۔ ماہی پروری کے تالابوں اور نہروں کے کنارے لگائے جانے والے درخت ماحول کی خوب صورتی میں اضافے کے ساتھ، مچھلیوں کو قدرتی غذا بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کھیتوں کے کنارے لگائے جانے والے درختوں سے فصلوں پر اچھے اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ یہ پانی، ہوا اور درجۂ حرارت کو متعدل رکھتے ہیں۔ درختوں پر رہنے والے پرندے فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو کھاکر قدرتی مدافعتی نظام فراہم کرتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں بھی حیاتیاتی تنوّع میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ خشک سالی، سیلاب، زلزلہ، بارش اور درجہ حرارت میں اضافہ حیاتیاتی تنوّع کو متاثر کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔ سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ہر سال سیکڑوں ایکڑ اراضی سمندر برد ہورہی ہے۔ سندھ میں انڈس ڈیلٹا کا رقبہ 1833ء سے اب تک 92 فی صد گھٹ چکا ہے۔’’ڈیلٹا‘‘ اس مقام کو کہا جاتا ہے، جہاں دریا سمندر میں گرتا ہے، سمندر کی جانب دریا کا سفر، حیاتیاتی تنوّع کی تخلیق کرتا ہے، جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں یا تالاب وجود میں آتے ہیں، ان کے کنارے مختلف درخت مثلاً تیمر، کیکر اور مختلف پودوں اور گھاس کا اگ جانا ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ڈیلٹا والے علاقے انتہائی خوب صورت قدرتی مناظر رکھتے ہیں، جہاں سیکڑوں اقسام کے پرندے، حشرات الارض، مچھلیاں، جھینگے اور دیگر انواع ملتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ تمام قدرتی وسائل میں جو قدرت نے فراہم کیے، انسانوں نے دریائوں کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ 

آج بھی دنیا کی چالیس فی صد سے زائد آبادی، دریا کے کناروں پر آباد ہے، انسانی معاشرہ ہمیشہ سے دریائوں کے ساتھ پھیلا اور بڑھا ہے۔ یہ دریا انسان کے لیے پانی، خوراک اور روزگار کا ذریعہ بھی بنے ہیں۔ آب پاشی، سفر، سیر و سیاحت اور صنعتی ترقّی کے لیے بھی دریا معاون ثابت ہوتے ہیں۔ انڈس ڈیلٹا سے بھی لاکھوں کسانوں اور ماہی گیروں کا روزگار وابستہ تھا، لیکن دریائے سندھ پر مختلف ڈیمز کی تعمیر اور پنجاب میں نہری نظام کے قیام سے انڈس ڈیلٹا میں میٹھے پانی کی آمد کم سے کم ہوتی چلی گئی اور سمندر آگے بڑھ آیا۔ میٹھے پانی کی کمی سے جہاں پائے جانے والے جانور اور آبی پرندے ناپید ہوگئے۔ زراعت، ماہی گیری اور گلہ بانی کو ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔خشک آب گاہوں کی وجہ سے سائبریا سے آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ ہر سال ہزاروں پرندے غیر قانونی طور پر شکار کیے جاتے ہیں۔ یہ تو خیر دریا کا قصہ ہے سمندر کی کہانی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، مینگروز کے جنگلات کے خاتمے سے لے کر صنعتی فضلہ، سمندر میں پھینکے جانے تک، حیاتیاتی تنوّع کی بربادی کی ایک الم ناک داستان موجود ہے۔ حکومت سندھ نے حال ہی میں ساحلی علاقے گھارو میں تیمر کے دس لاکھ پودے لگانے کی مہم کا آغاز کیا ہے، شاید اس سے صُورتِ حال کچھ بہتر ہوجائے۔

حیاتیاتی تنوّع برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اردگرد جتنے طبعی عناصر ہیں ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے اور انھیں ان کی طبعی حالت پر چھوڑ دیا جائے، ماہرین اس ضمن میں دریا کا بہائو بدلنے، اُن پر ڈیمز بنانے کی بھی مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات آبی حیات کے ارتقائی عمل اور افزائش کو متاثر کرتے ہیں اس طرح دریا پر انحصار کرنے والے لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک بہتا دریا قدرتی وسائل کا بیش بہا خزانہ ہے، یہ وہ واحد ماحولیاتی نظام ہے جو دیگر ماحولیاتی اکائیوں کو ایک دوسرے سے نتھی کرتا ہے۔ 

تازہ پانی کا ذریعہ ہے، معدنیات کو پانی کا جزو بناتا ہے اور نامیاتی مواد زمین پر تقسیم کرتا ہے، دریا زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو نئے سرے سے بھرنے اور انہیں تر و تازہ رکھنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ لہٰذا انہیں مشینی یا تیکنیکی نظر سے نہیں، زندگی کی نظر سے دیکھا جائے۔ حیاتیاتی تنوّع، فطرت کا ترتیب دیا ہوا نقشہ ہے، قدرت ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ زندگی کس جگہ ہو اور کس صورت میں ہو، لہٰذا حیاتیاتی تنوّع کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا۔ فطرت کے بنائے ہوئے نقشے میں انسانی مداخلت کے نتائج خود انسان کے لیے بہتر نہیں ہوں گے۔

تازہ ترین