• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (NAB) کے چیئرمین کی جانب سے گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف پر منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت کو 4 ارب 90 کروڑ ڈالر بھجوانے کے سنگین الزام اور اُن کے خلاف انکوائری کے اعلان نے ہر ذی شعور شخص کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ نیب کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ قومی احتساب بیورو نے نواز شریف پر اتنا بڑا الزام اور انکوائری کا اعلان ایک کالم کو بنیاد بناکر کیا جو 4 مہینے قبل ایک گمنام کالم نگار نے تحریر کیا تھا۔ ان الزامات اور اعلامیے کے باعث نیب اور ادارے کے سربراہ کو سیاسی، سماجی اور قانونی حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
چیئرمین نیب کے الزامات اور جاری کردہ اعلامیے کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا، سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی فیملی نے الزامات کو سوچی سمجھی سازش اور پری پول ریگنگ قرار دیا جس کا مقصد الیکشن سے قبل اُنہیں اور اُن کی جماعت کو بدنام کرنا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی نیب کے چیئرمین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ میں طلب کرکے ان سے تفتیش کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ الزامات بہت سنگین ہیں اور معاملے کی تفتیش کیلئے خصوصی کمیٹی قائم کی جائے۔ انہوں نے احتساب قوانین میں ترمیم کی تجویز بھی پیش کی۔ (ن) لیگ کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ نیب کے مذکورہ اعلان پر چیئرمین نیب سے کس نے دستخط کروائے؟ نیب کے الزامات مسترد کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے بھی پاکستان سے 4.9 ارب ڈالر بھارت بھیجنے سے متعلق رپورٹس کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اپنے اعلامیے میں واضح کیا کہ مرکزی بینک نے 2016ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ مذکورہ رپورٹ میں کوئی صداقت نہیں۔ مرکزی بینک کے مطابق ورلڈ بینک کی مائیگریشن اینڈ ریمی ٹینسز فیکٹ رپورٹ اور غیر قانونی طور پر بھارت رقم منتقل کرنے سے متعلق اعداد و شمار عالمی بینک کا آفیشل ڈیٹا نہیں بلکہ ایک تجزیاتی تخمینہ تھا۔ ورلڈ بینک نے بھی اپنے اعلامیے میں اس بات کی تردید کی کہ بینک نے اپنی کسی رپورٹ میں اتنی بڑی رقم پاکستان سے غیر قانونی طور پر بھارت بھیجے جانے کی نشاندہی یا اور کسی فرد کی جانب اشارہ کیا تھا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نیب کی جانب سے اتنی بڑی غلطی، جس سے اِس کی شفافیت پر انگلی اٹھی، پر پہلے ہی ابتدائی انویسٹی گیشن کرلی جاتی اور گوگل پر ورلڈ بینک کی وہ رپورٹ جسے Evidence بنایا گیا، سرچ کی جاتی جسے پڑھنے کے بعد حقیقت کھل کر سامنے آجاتی مگر ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا اور نیب نے یہ موقف اختیار کیا کہ ادارے کو منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا مکمل اختیار حاصل ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ نیب کے اس اقدام پر سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں نیب پر الزام لگایا کہ قومی احتساب بیورو شریف خاندان کو خصوصی طور پر نشانہ بنارہا ہے۔ انہوں نے چیئرمین نیب کو 24 گھنٹے میں الزامات کے ثبوت فراہم نہ کرنے کی صورت میں معافی مانگنے بصورت دیگر عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا مگر اسٹیٹ بینک اور ورلڈ بینک کی تمام وضاحتوں کے باوجود چیئرمین نیب نے اپنی سنگین غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے یہ اعلامیہ جاری کردیا کہ ’’کرپشن کے خلاف انکوائری کرنا نیب کی ذمہ داری ہے اور وہ ایسا کرتا رہے گا۔‘‘
سابق وزیراعظم پر دشمن ملک کو غیر قانونی طور پر اتنی بڑی رقم بھیجنے کا الزام کوئی معمولی نہیں بلکہ ایک سنگین الزام ہے جس سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی بلکہ موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ قبل از وقت دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے۔ آج ہر ذی شعور شخص یہ سوال کررہا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین انویسٹی گیشن ادارے نے کس طرح بغیر انویسٹی گیشن ایک کالم پر اتنے بھیانک الزامات لگاکر پبلک انکوائری کا اعلان کیا؟ نیب کو اس معاملے پر انکوائری کا اعلان کرنے سے قبل ورلڈ بینک اور اسٹیٹ بینک کا موقف پڑھ لینا چاہئے تھا اور یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ جب پاکستان کا مجموعی بجٹ 35 ارب ڈالر ہے تو کوئی کیسے اتنی بڑی رقم کسی دشمن ملک کو منتقل کرسکتا ہے، جس کی ملکی معیشت متحمل نہیں ہوسکتی۔
ماضی میں بھی نیب پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں کہ ادارے کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا گیا جبکہ نیب کے کئی سابق سربراہان اس بات کا برملا اعتراف کرچکے ہیں کہ نیب کو ماضی میںVictimization اور مخالفین کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 2009ء میں سپریم کورٹ نے جب جنرل پرویز مشرف کے این آر او کو کالعدم قرار دیا تھا تو نیب نے سینکڑوں کیسز ری اوپن کئے تھے جو ابھی تک سرد خانے کی نذر ہیں اور اُن کیسز پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ آج بھی نیب کے بارے میں یہ تاثر ابھرکر سامنے آرہا ہے کہ نیب کو Toolکے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جس کا سب سے بڑا نشانہ شریف فیملی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی کئی بار اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’نیب کا سورج صرف پنجاب پر بڑی آب و تاب سے چمک رہا ہے اور پنجاب حکومت کے لوگوں کو کرپٹ ثابت کیا جارہا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں نیب کا سورج طلوع نہیں ہوتا۔ ‘‘
کچھ حماقتیں غلطیوں کے زمرے میں آتی ہیں مگر نواز شریف کے خلاف نیب کا حالیہ سنگین الزام غلطی نہیں بلکہ ایک Blunder ہے کیونکہ اگر نیب کا یہ الزام غلط ثابت ہوگیا تو ادارے کے تمام اقدامات مشکوک ہوجائیں گے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ مطالبہ انتہائی مناسب ہے کہ ’’چیئرمین نیب پارلیمنٹ میں پیش ہوکر یہ بتائیں کہ اُن کے پاس اتنی بڑی رقم کی بھارت میں منی لانڈرنگ کے الزامات کے کیا ثبوت ہیں؟‘‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف کے تقاضے اس انداز میں پورے کئے جائیںکہ انصاف ہوتا نظر آئے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال سپریم کورٹ کے جج اور ایبٹ آباد آپریشن پر تشکیل دیئے گئے کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں،ان کی ذات شکوک و شبہات سے بالاتر سمجھی جاتی تھی مگر حالیہ واقعے نے اُن کے کردار پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے۔ چیئرمین نیب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت پیش کریں اور اگر نہ کر سکیں تو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مطالبے پر عمل کریں بصورت دیگر نیب کی ساکھ قائم نہ رہ سکے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین