• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی حماقت کے بعد ن لیگ سخت بدنظمی کا شکار ہوگئی

اسلام آباد (تجزیہ / انصار عباسی) سابق وزیراعظم نواز شریف کے متنازع بیان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس وقت مکمل بدنظمی سے دوچار کر دیا ہے جب عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ عمومی طور پر بھارتی موقف کی تائید اور پاکستان کی ممبئی حملوں پر پالیسی کی نفی سمجھے جانے والے بیان کی وضاحتیں دی جا رہی ہیں حتیٰ کہ سینئر رہنمائوں بشمول وزیراعظم شاہد عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے کسی حد تک اسے مسترد بھی کر رہے ہیں۔ تاہم، نواز شریف نہ صرف اپنے موقف پر قائم ہیں بلکہ اصرار کرتے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ دیگر لوگوں کی طرح، حکمران جماعت میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا بیان پاکستان کیلئے نقصان دہ ہے۔ لیکن اب تک کوئی بھی حتیٰ کہ شہباز شریف بھی اپنے بھائی کو منانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ وہ خود کو اس بیان سے دور کریں جو ان کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ سیاسی لحاظ سے، مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں اور ان کے ارکان پارلیمنٹ جانتے ہیں کہ پارٹی تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے لیکن کوئی واضح طور پر نہیں جانتا کہ اسے روکا کیسے جائے کیونکہ نواز شریف جس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اس کے متعلق آزاد مبصرین سمجھتے ہیں کہ وہ خود کش مشن سے کم نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ پنجاب ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے نواز شریف سے ان کے متنازع بیان کے فوراً بعد ملاقات کی اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ شہباز شریف نے نواز شریف سے پوچھا کہ انہوں نے آخر اسی صحافی کو انٹرویو دیا ہی کیوں جس کی وجہ سے نواز لیگ کی حکومت اور ساتھ ہی ملک کو ڈان لیکس کے معاملے پر سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز شریف حقیقتاً سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو وہ نہیں کہنا چاہئے تھا جو ان کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی جانتے ہیں کہ اس بیان نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ شہباز شریف کے بیان کا ابتدائی مقصد پہلے تو مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کے ممبئی حملوں کے معاملے پر انٹرویو اور ان کی سوچ سے دور رکھنا تھا اور دوسری جانب شائع ہونے والے انٹرویو کی تردید جاری کرکے نواز شریف کو بچانا تھا۔ شہباز شریف کے مطابق، شائع ہونے والی خبر میں غلط انداز کے ساتھ بیان کو مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ جوڑا گیا تھا، اور یہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسی نہیں تھی۔ تاہم، ابتدائی طور پر اسی دن مریم نواز نہ صرف انٹرویو کو درست قرار دیا بلکہ نواز شریف کے اس بیان کی توثیق کی جس کی وجہ سے بھارت میں جشن منایا گیا اور پاکستان میں سخت تنقید کی گئی۔ اگلی صبح، نواز شریف نے اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نہ صرف انٹرویو کے حوالے سے اپنے بیان کو درست قرار دیا بلکہ متنازع حصے پڑھ کر بھی سنائے اور میڈیا سے پوچھا کہ انہوں نے کیا غلط کہا ہے۔ اسی دن، یعنی پیر کے روز، قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں شرکاء نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹھوس شواہد اور حقائق کے برعکس غلط تاثر یا پھر ناراضی کی وجہ سے آراء سامنے آ رہی ہیں۔ شرکاء نے متفقہ طور پر الزامات کو مسترد کیا اور گمراہ کن بیانات کی مذمت کی۔ نیشنل سیکورٹی کونسل نے ممبئی حملوں کے متعلق ’’گمراہ کن تبصرے‘‘ کے گرد پائے جانے والے تنازع کا حوالہ دیتے ہوئے نواز شریف کا نام نہیں لیا۔ اجلاس کے فوراً بعد وزیراعظم نے نواز شریف سے ملاقات کی اور، ذرائع کے مطابق، ان سے وضاحت جاری کرنے اور اخبار میں شائع ہونے والے بیان سے فاصلہ اختیار کرنے کو کہا۔ بعد، میں وزیراعظم کو پہلے پیر کے روز پریس کانفرنس کے دوران اور بعد میں منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں انٹرویو کے مندرجات کی تردید جاری کرنا پڑی۔ وزیراعظم عباسی نے واضح کیا کہ قومی سلامتی کونسل نے درحقیقت ’’غلط رپورٹنگ‘‘ کی مذمت کی ہے نہ کہ ان کی پارٹی کے قائد کے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بیان کی ’’غلط رپورٹنگ‘‘ کی گئی اور اس کی ’’غلط تشریح‘‘ کی گئی۔ وزیراعظم عباسی نے منگل کو ایوان میں کہا کہ انٹرویو میں جو کچھ کہا گیا اور رپورٹر نے جو کچھ لکھا اس کی بھارت کے مفادات کیلئے بھارتی میڈیا میں غلط تشریح کی گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت کی اور انٹرویو کے مندرجات کی تردید کی اور نہ ہی وضاحت جاری کی۔ اس کی بجائے، نواز شریف نے قومی سلامتی کونسل کے بیان کو مسترد کر دیا اور اسے ’’تکلیف دہ اور افسوس ناک‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ بیان ’’حقائق پر مبنی نہیں۔‘‘ وہ اپنے بیان پر قائم رہے کہ ’’جنگجو تنظیمیں فعال ہیں، انہیں آپ نان اسٹیٹ ایکٹرز (غیر ریاستی عناصر) کہہ سکتے ہیں۔ کیا ہمیں انہیں سرحد پار کرنے اور 150؍ لوگوں کو ممبئی میں ہلاک کرنے کی اجازت دینی چاہئے؟ مجھ پر واضح کریں۔ ہم کیوں ٹرائل مکمل نہیں کر سکتے؟‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اگرچہ اپنے پارٹی لیڈر کے حق میں بیان دیا لیکن قومی سلامتی کونسل کے بیان کو مسترد نہیں کیا۔ خود کو مشکل صورتحال میں پھنسا دیکھ، شاہد عباسی نے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کونسل نے ’’غلط رپورٹنگ کی مذمت کی‘‘ بالخصوص نان اسٹیٹ ایکٹرز کے متعلق شریف کے غلط انداز سے پیش کیے گئے بیان کی مذمت کی۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے درجے کی قیادت، بالخصوص اس کے ارکان پارلیمنٹ کیلئے بھی امتحان کا وقت ہے جو آئندہ الیکشن کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران پارٹی پر یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی مشکلات کے باوجود وہ پراعتماد تھے لیکن اب وہ پریشان اور دبائو کا شکار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف نے جو کچھ کہا ہے اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایسا چورن ہے جسے بیچا جا سکے۔

تازہ ترین