• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت عظمیٰ سے نااہل نوازشریف نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر توپ کا گولہ داغ دیا ۔ یہ سوچے سمجھے بغیر اس کے اندرونی اور بیرونی مضمرات کیاہوں گے؟ 2008ء کے ممبئی حملوں پر ان کے بیان کا وقت ۔ اس کے علاوہ ردعمل کی صورت میں جو تنازع اُٹھ کھڑا ہوا، اس نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) اجلاس کے صرف 24 گھنٹوں بعد ہی ملک کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے ایک منفرد ردعمل میں سابق وزیراعظم کے بیان کو گمراہ کن قرار دے کر مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ جوابی ردعمل میں نوازشریف نے بھی قومی سلامتی کونسل کے ردعمل کو افسوسناک قرار دے کر رَدّ کر دیا۔ اس سے قبل واضح طور پر کہہ چکے کہ وہ اپنے بیان یا کہے پر قائم ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاذ و نادر ہی ایسی منفرد صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس وقت بھی خارجہ معاملات سمیت مختلف امور پر سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان رائے کا اختلاف رہا لیکن یہ تنازع طرفین کی جانب سے بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ نواز شریف نے یقیناً اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بڑی مشکل میں لا کھڑا کیا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت جب وہ ان کی معزولی سے ہونے والے ’’نقصان کے ازالے‘‘ کی تگ و دو میں ہے۔ لہٰذا اہم سوال جو ہنوز جواب طلب ہے، وہ یہ کہ انہوں نے اپنے متنازع بیان کے لئے یہی وقت کیوں منتخب کیا اور وہ ممکنہ طور پر اس سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟ ان کی پارٹی اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے لئے اقتدار کی مدت 31 مئی 2018ء کو مکمل ہو جائے گی۔ اگر نوازشریف کے بیان کا مقصد اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پر دبائو ڈالنا تھا، جیسا کہ انہوں نے ممبئی حملہ کیس کی عدم تکمیل کا سوال بھی اُٹھایا، مجھے شک ہے نوازشریف اس سے کچھ حاصل کر پائیں گے۔ البتہ بین الاقوامی طور پر انہوں نے اپنے بیان سے پاکستان کے کیس کو دھچکہ پہنچایا اور شرمندگی کا سامان کیا۔ جوابی ردعمل کے بھی محتاط ہونے کی ضرورت تھی۔ قومی سلامی کونسل نے سخت بیان جاری کر کے درست قدم اُٹھایا اور ریکارڈ برابر رکھنے کی کوشش کی۔ نوازشریف نے قومی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کرکے شاید تنازع کو زندہ رکھنا چاہا۔ تاہم کوئی انتہائی غدّاری کا مقدمہ قائم کرنا بڑی غلطی ہوگی۔ لہٰذا صورتحال کو ٹھنڈا اور نقصان کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اِن کیمرا بریفنگ سمیت پار لیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر سکتی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جب میاں صاحب کی اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن)، حکومت، ان کے بھائی اور پارٹی سربراہ شہبازشریف نے صورتحال کو سنبھالنا چاہا، نوازشریف نے بیان واپس لینے سے انکار کر کے صورتحال کومزید بگاڑا۔ جس نے محض اُلجھنوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو گزشتہ چند ماہ سے نوازشریف کے ساتھ عملی طور پر قطع تعلق کئے ہوئے ہیں، انہوں نے بھی ممبئی حملہ کیس پر حقائق نامہ دینے کی کوشش کی۔ ان کے خیال میں بھارت تعاون کرتا تو مقدمہ کبھی کا مکمل ہو جاتا۔ مسلم لیگ (ن) میں، حتٰی کہ وزیراعظم کی سطح تک اُلجھنیں موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے پارٹی میں ’’سب کچھ اچھا‘‘ نہیں۔ این ایس سی اجلاس کے فوری بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جس طرح نوازشریف سے ملنے گئے، بعدازاں پریس کانفرنس کی۔ جس کو سرکاری ٹیلی وژن نے تک بلیک آوئٹ کیا، اس سے صاف نظر آتا ہے حکومت کہاں کھڑی ہے۔ یہ دھول جلد نہیں بیٹھے گی اور کون جانتا ہے کہیں یہ گرد کے طوفان کی شکل نہ اختیار کرلے۔ نوازشریف کا بیان، اس کے مضمرات، اسے واپس لینے سے انکار سے صورتحال مزید بگڑے گی۔ اپوزیشن کا ردعمل ایسے وقت جب نوازشریف پہلے ہی سے مشکل میں ہیں، متوقع تھا۔ اب شاید ان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ تکمیل کو پہنچ جائے۔ عمران خان اور کچھ دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے تو نوازشریف پر انتہائی غدّاری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تازہ ترین