• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ بھڑکنے کو ہے؟

مشرق وسطیٰ کی صورت حال گمبھیر سے گمبھیر تاکی طرف جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں اسر ائیل نے شام پر بڑا حملہ کرکے وہاں ایرانی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔اس بڑے آپریشن میں 28 ایف 15 اور ایف 16 طیاروں نے حصہ لیا اور اسرائیلی فوجیوں نے زمین سے میزائل داغے ۔ تاہم شام کی فوج کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے دس میزائلوں کو ہوا ہی میںتباہ کردیا گیا۔لیکن اس حملے کےضمن میں ایران کی جانب سے تادمِ تحریر کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی تھی۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران نے گولان ہائیٹس پر میزائل سے حملہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے،کیوں کہ اب یہ اسرائیل کا علاقہ ہے۔اس حملے کے بعد ہم نے شام میں ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔اسرائیلی وزیر دفاع نے ا یر ا ن کو دھمکی دی ہے کہ اگر پھر شام کی طرف سے کوئی حملہ ہوا تو اسرائیل صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ د ے گا۔ ا نہو ں نے یہ بھی کہا کہ شام اگر ایران کو مزید مورچہ بندی کی ا جا زت دیتا ہے تو وہ نتائج کاخود ذمے دارہوگا، کیوں کہ ا سر ا ئیل کو علم ہے کہ شام میں سات سالہ خانہ جنگی کے دوران ا یر ا ن نے صدر بشارالاسد کی مدد کے لیےوہاںبڑے پیمانے پربھاری اور ہلکے ہتھیار جمع کیےہیںاورایرانی فوجی مشیر و ں اور ماہرین کی بھی بڑی تعداد شام میں موجود ہے۔

دراصل 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد سے ا یر ا ن خطے میں اسرائیل کو بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسرائیل بھی ایران کے خلاف ہے اور وہ اسے اپنےلیے بڑا خطرہ تسلیم کر تاہے۔قبل از ایرانی انقلاب جب ایران میں رضا شاہ پہلو ی کی حکومت تھی تب پورے خطے کا نگراں ایران تھا اور اسرائیل سے اس کےگہرے اور دوستانہ تعلقات تھے۔ تر کی بھی اسرائیل کو تسلیم کرتا تھا، مگر انقلاب ایران اور آیت اللہ خمینی کے طاقت میں آنے کے بعد خطے میں وا ضح تبد یلیا ں آئیں۔ دوست، دشمن اور دشمن، دوست بن گئے۔ خاص طورپر امریکااور اسرائیل کو زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے اور بیش تر عرب ریاستیں خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگیں جس کے جواز میں امریکا اور برطانیہ نے عرب ریا ستو ںمیں ا پنے مزید قدم جمائے اور ان کی تیل کی دولت اپنے ہتھیا ر خریدنےپر خرچ کرائی۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ پالیسی 1967 اور پھر 1972 کی جنگیں،ان کے مہیب اثرات اور فلسطینیوں کے خلاف مسلسل ظالمانہ اقدام نے پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار بنادیا۔ اس کے ساتھ اسرائیل نے غیراعلانیہ طور پر جوہری ہتھیار بھی تیار کرلیے۔ ایسے میں ایران کے لیے ناگزیر تھا کہ وہ بھی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کو شش کرے۔ امریکاکی اعلانیہ سرپرستی اور یورپی ممالک کے نرم رویےّ نے اسرائیل کو مزید جارحانہ پالیسی پر کاربند کردیا۔ 

اس پس منظر میں ایران نے یورینیم کی پروسیسنگ پر توجہ دی اور جو ہری صلاحیت کی کچھ عیاں اور کچھ درپردہ کوششیں جاری رکھیں۔ اس حوالے سے اسرائیل نے دنیا سر پر اٹھالی اور ایرانی جوہری بم بن رہا ہے کاخوب پروپیگنڈاشروع کر د یا ۔ اس دبائو میںامریکانے اقوام متحدہ کے ذریعے ایران پر ا قتصادی پابندیاں عائد کرادیں اور اس پر یہ شرط عایدکی گئی کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے لیے کھول دے۔ طویل بحث ،مباحثےکے بعد ایرانی حکومت نے نرم رویہ اختیار کیا، کیوں کہ ایران پر عاید ا قتصا د ی پابندیوںکی طوالت سے ایرانی معیشت نڈھال ہوچکی تھی اور دیگر مسائل میں اضافہ ہورہا تھا۔تب امریکاکے اس وقت کےصدر باراک اوباما اور ان کے وزیر خارجہ جان کیری نے ایران سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا اور امریکانے روس، چین، برطانیہ اور فرانس کو ثالث بنالیا۔ طو یل نشستوںاور مراحل کے بعد آخرکارایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدہ 2015 میںطے پایا۔

ان دنوں جوں جوں ایران سے جوہری معاہدے کے لیے بات چیت آگے بڑھ رہی تھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا احتجاج اور غم و غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ ایسے میں پہلی بار وائٹ ہائوس اور تل ابیب کے تعلقات خراب ترین سطح تک پہنچ گئے تھے اورنیتن یاہو نے کھلم کھلا باراک اوباما کے خلاف بیانات جاری کرنے شروع کردیے تھے۔ادہر امریکامیں موجود صہیونی لابی اپنا کام کررہی تھی اور وال اسٹریٹ میں موجود یہودی لابی بھی متحرک تھی۔ مگر امریکا اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔

ڈونلڈٹرمپ برسراقتدار آئے تو انہوں نے واضح طور پر ایران اور ایرانی جوہری معاہدے کے خلاف بیانات دینے شروع کردیے۔اس ضمن میں اسرائیلی وزیراعظم اور ان کی یہودی لابی پوری طرح متحرک تھی۔ صدر ٹرمپ بار بار معاہدہ ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے تھے۔ بالآخر 15 مئی 2018 کو معاہدے کی تجدید کرنا تھی یا اس سے علیحد ہ ہونا تھا۔ایسے میں صدر ٹرمپ نے دو دن پہلے ہی معا ہد ے سے الگ ہونے کا اعلان کرکے ایک بار پھر عالمی رہنمائوں کو حیرت زدہ کردیا۔

فرانس کے صدر میکرون نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں،بہ صورت دیگر صورت حال تیسری عالمی جنگ کی طرف جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے تجزیہ کیا جارہا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، وہ انہیں استعمال کرنے سے نہیں چوک سکتا۔ ایران آب نائےہرمز کو بندکرے عالمی طور پر تیل کا بحران پیدا کرسکتا ہے۔ داعش جو عراق سے پس پا ہوکر نکلی ہے، جوہری بم حاصل کرنے کے لیےکوشاں ہے۔ شمالی کوریا اس نوعیت کی سودے بازی پہلے کرچکا ہے۔ حزب اللہ لبنان سے ا سر ا ئیل پر حملہ کرسکتی ہے،اسے ایران ہتھیار دے گا۔ یمن کے حوثی باغی سعودی عرب پر بڑا حملہ کرسکتے ہیں۔اس طرح خد شات ہیں کہ پورا جزیرہ نما عرب اور مشرق وسطیٰ جنگ کے شعلوں میں گھر جائے گا۔ دوسری طرف اس صورت حال میں امریکی آئل کمپنیز،شیل آئل اور ایل این جی وغیرہ کی ترسیل میں اضافہ کرکے اور امریکی اسلحہ ساز کمپنیز مشرق وسطیٰ کو اسلحہ فروخت کرکے بہت منافع کمائیں گی۔

اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین کے ترجمان نے عندیہ دیاہے کہ اگر ایران معاہدے کی پا س داری کرتا رہا تو یورپی یونین اس کے ساتھ تجارتی معا ملات جاری رکھے گی۔یورپی ممالک صدر ٹرمپ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں ۔مگر لگتا نہیں کہ صدر ٹرمپ اپنا فیصلہ تبدیل کریں گے۔ادہر یورپی تجا ر تی اور آئل کمپنیز نے امریکا کا فیصلے رد کرکے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران میں بڑے پیمانےپر سرمایہ کاری کرچکی ہیں اور ا نہیں ایرانی تیل درکارہے، اس لیےوہ اپنے تعلقات بر قر ا ر رکھیں گی۔ یورپی ممالک نے صدر ٹرمپ سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ ان کے تجارتی اور اقتصادی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ 

مگر صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں اور وزیروں کو تاکید کی ہے کہ وہ سفارتی سطح پر یورپی ممالک کے ایران کے ساتھ تعلقات اور تجارت کے معاملے میں احتیاط برتیں اور یورپی ممالک کو ایران کے بائیکاٹ پر راضی کریں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت برا ہوگا۔ البتہ روس اور چین نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ دونوں ممالک ایران کے ساتھ تعلقا ت اور تجارتی معاہدے برقرار رکھیں گے۔ مگر امریکی صدر کے سیکیورٹی کے مشیر جان بولٹن نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی پابندیاںعاید کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ایسے میں سعودی عرب ہر طرح سے امر یکا کو اپنےتعاون کا یقین دلاتے ہوئے ایران کے خلاف ڈٹ جانے پر زور دے رہا ہے۔

دوسری جانب ایران کے معروف اسکالر، احمد خاتمی نے حال ہی میں اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ احمقانہ انداز میںایران کے خلاف اقدام کرتا ہے تو اس کے نتائج بہت خراب ہوں گے اور ہم ہر اسرائیلی شہر کو نشانہ بنانے پر مجبور ہوں گے۔ الجزیرہ ٹی وی کے ایک مبصر کے مطابق 9/11کے بعد سعودی عرب نے امریکاپر زور دیا تھا کہ عر ا ق پر حملہ کرنے کے بجائے ایران کو نشانہ بنایا جائے۔ کچھ عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب خطے میں ایران کو اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ امریکااپنے آخری سپای تک ایران سے جنگ لڑتا رہے۔

بیش تر امریکی سفارت کاروں اور تھنک ٹینکس نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایران پر زیادہ دبائو نہ بڑھائیں، کیوں ایسے میں ایران تنگ آمد، بجنگ آمد کے مترادف جوہری بم بنانے پر مجبور ہوجائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ وائٹ ہائوس ایک سال تک غیریقینی کیفیات اور الجھنوں کا شکار رہا۔پھر وہ جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور ایران پر نظر ڈال کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ایران آسان ہدف ہے اس لیے اسے نشانہ بنانے پر غور کیا جارہا ہے اوربعض عرب ریاستیں اس خیال کی بھرپور تائید کرکے صدر ٹرمپ کی توجہ ایران پر مرکوز رکھنا چاہتی ہیں۔ مگر صدر ٹرمپ کا ایک اہم امتحان جون میں ہے جب وہ شمالی کوریا کے صدر سے مذاکرات کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ شمالی کوریا سے معاہدہ کرلیں گے؟ اگر ایسا ہوگیا توپھر وہ اپنی ساری توجہ ایران پر مرکوز کردیںگے۔

تازہ ترین