• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلسطینیوں پر اسرائیل کا پھر ظلم

چودہ اور پندرہ مئی کو اسرائیل نے ایک بار پھر اپنا بھیانک چہرہ دنیا کو دکھایا اور درجنوں نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ لیکن امریکا نے اسرائیلی فوج کو اس بربریت کی آزادانہ تفتیش کرانے کے بارے میں پابند کرنے کی قرار داد روک دی۔

ویسے تو فلسطینی عوام 70سال سے اسرائیل کے ظلم وستم برداشت کررہے ہیں، لیکن امریکی صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے بعد غزہ کی پٹی میں فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا بہ راہ راست نشانہ بن رہے ہیں۔ فلسطین کے صدر محمود عباس اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اس قتل عام کی مذمت کررہے ہیں ،لیکن اقوام متحدہ صرف افسوس کا اظہار کررہی ہے۔محمود عباس ا س کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔انہوں نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی فوج کی اس بہیمانہ کارروائی کی تحقیق کرانے کے بارے میں قرارداد کو امریکا نے فوری ویٹو کردیا۔ ویسے تو امریکاستر سال سے منافقت کرتا آیا ہے، مگر اب صدر ٹرمپ نے اس منا فقت کا نقاب بھی اتار پھینکا ہے اور وہ کھلم کھلا اسرائیل کے ہرعمل کی حمایت پر اتر آئے ہیں۔انہوں نے اپنی ا نتظامیہ میںیہودیوں کے علاوہ بھارتی نژاد افسروں کو بھی شامل کرلیا ہےجو اسرائیل کی بھرپور حمایت کررہے ہیں۔

اس وقت وائٹ ہائوس کے ترجمان بھی راج شاہ نا م کے ایک بھارتی نژاد افسر ہی ہیں جنہوں نے حماس کو نشانہ بنایاہے۔ صرف تینتیس سالہ راج شاہ اس وقت وا ئٹ ہائوس میں پرنسپل ڈپٹی پریس سیکریٹری اور صدر ٹرمپ کے ڈپٹی اسسٹنٹ ہیں۔ ان کا تعلق بھارت کے وزیراعظم کی ریاست گجرات سےہے۔ اس بات سے بھارتی وزیراعظم مودی کے وائٹ ہائوس میں ا ثر و ر سوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب راج شاہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی تنظیم حماس خود ان فلسطینیوں کے قتل عام کی ذمے دار ہے کیوں کہ اسرائیل تو صرف اپنا دفاع کررہا ہے۔ اسی طرح کا بیان اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے حماس کے خلاف اپنا تحفظ کرتے ہوئے یہ کارروائی کی ہے کیوں کہ حماس اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔یاد رہے کہ غزہ کی پٹی پر حماس کومحدود اختیار حاصل ہے اور وہ چھ ہفتوں سے اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر ا سر ا ئیل کی طرف سے نئی باڑ لگانے کے خلاف مظاہرے کررہی ہے۔چودہ مئی کو ان مظاہروں میں شدت آگئی تو اسرائیل نے بہ راہ راست مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی اور درجنوں افراد کے قتل کے بعد بھی اسرائیلی بندوقیں خاموش نہیں ہوئیں۔

امریکا ، برطانیہ اور فرانس، جنہوں نے گزشتہ ماہ شا م میںاس لیے بم باری کی تھی کہ اس نے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیےتھے اب اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی کا نہیں سوچ رہے۔ ان کے علاوہ سعودی عرب کے نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان،جو اسرائیل کو اپنا دوست قرار دے چکےہیں، وہ بھی امت مسلمہ کی طرف سے کسی کارروائی کی قیادت کرنے کو تیارنہیں ،حالاں کہ وہ چالیس اسلامی ممالک کی فوج بنا چکے ہیں۔

اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر ہونے والے تازہ مظا ہروں میں ہر روز چالیس سے پچاس ہزار فلسطینی شامل ہوتے ہیں اور حفاظتی باڑ کے ساتھ کھڑے ہو کر اسرائیل پر پتھر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے جواب میں اسرائیلی فوج، جو جدید ترین اسلحےسے لیس ہے، فائرنگ کردیتی ہے۔ فلسطینی چوں کہ نہتے ہیں اس لیے وہ بے چارے دوچار پتھر پھینک کر اور درجنوں لاشیں اٹھا کر ان کی تدفین کے لیے چلے جاتے ہیں اور اگلے دن پھر سرحد پر جمع ہو جاتے ہیں۔ فلسطینی عوام کی یہ بے بسی عالم اسلام کے لیے تازیانہ ہے۔ مگر اس خطے کی دو بڑے اسلامی ممالک یعنی ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے ساتھ یمن میںلڑنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔

جب امریکا نے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا اسی وقت دنیا نے اس کی مذمت کی تھی۔ مگر صدر ٹرمپ اپنی روایتی ہٹ دھرمی میں اتنے پختہ ہیں کہ انہیں دنیا کی کوئی پروا نہیں۔ پھر اسلامی ممالک تو ان کے ہتھیا ر خرید ہی رہے ہیں، جس کی تازہ مثال سعودی عرب اور قطر کی طرف سے اربوں ڈالرز کے ہتھیار خریدنے کے معاہدے ہیں۔ 

سعودی عرب اور قطرمیں امریکی فوجیں موجود ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر غراتے رہے ہیں جس سے امریکا فائدے اٹھاتا رہاہے۔امریکا اسلامی ممالک کو ہتھیار بیچنے کے ساتھ اسرائیل کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں مصروف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں اگرچہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںہے پھر بھی تقریباً تمام اسلامی مما لک امریکا کے آلہ کار بننے کو تیار رہتے ہیں اور ان کےحکم راں برائے فر و خت رہتے ہیں۔

یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی سے عملی طو رپرامریکانے مشرق وسطی میں قیام امن کے تمام ا مکا نا ت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔اس سے قبل امریکی صدور، خاص طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے منتخب صدور،مثلا جمی کا رٹر ، بل کلنٹن اور بارک اوبامہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان قیام امن کے لیے دو ریاستی فارمولے کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ مگرصدر ٹرمپ نے اس فا ر مولے کو رد کردیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ستر سال تو اس تنازعے میں گزر ہی گئے، اب اگلے ستر سال تک بھی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا امکان نظر نہیں آرہا۔

حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے بھی حالیہ قتل عام کی کھل کر مذمت نہیں کی ہے، بلکہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیدریکا موزینی نے صر ف ایک بیان میں فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ مغربی طاقتیں اور ذرایع ابلاغ کی منافقت یہ ہے کہ وہ اس سارےعمل میں فریقین کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ اگر دونوں فریق ذمے دار ہیں تو اسرائیل کے کتنے فوجی بلاک ہوئے ہیں۔ 

یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں کو قتل کا ذمے دار ٹھہرایا جائے۔فلسطینی اس کے جو ا ب میں ایک اور عام ہڑتال کا اعلان کردیتے ہیں جس سے خود ان کا مزید نقصان ہوتا ہے۔ اس بار بھی پی ایل او کے راہ نما وصل ابو یوسف نے فلسطینی علاقوں میں مکمل ہڑ تا ل کا اعلان کیا ہے اور کہاہے کہ فلسطینی اپنے کاروبار مکمل طور پر بند رکھیں گے ۔مگر اس سے ہوگا کیا؟

اب تک صرف ترکی اور جنوبی افریقانے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے اور امریکا اور اسرائیل دونوں پر اس جارحیت کا مشترکہ الزام عاید کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی اسر ا ئیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقا وہ ملک ہے جہاں صرف پچیس سال پہلے تک ایک نسل پرست حکومت قائم تھی جو سیاہ فام اکثریت کے خلاف ویسے ہی اقدام کرتی تھی جیسے اسرائیل کرتارہاہے۔اس وقت جنوبی افریقا کو عالمی بر ا د ر ی نے بالکل الگ تھلگ کرکے اس کا بائیکاٹ کردیا تھا جس سے مجبور ہو کر سفید فام حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی پڑی تھی۔

اب اسرائیل کے خلا ف بھی ایسے ہی بائیکاٹ کی ضر و رت ہے۔لیکن جنوبی افریقاکے برعکس عالمی طور پر یہودی لابی بہت مضبوط اور سرگرم ہے جس کی وجہ سے مغربی طاقتیں تو ایسا بائیکاٹ کبھی نہیں کریں گی۔ البتہ اسلامی مما لک کو ضرور اس بائیکا ٹ کا آغاز کرنا چاہیےاور اسرائیل کے ساتھ امریکا کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ 

تمام اسلامی ممالک کو اسرائیل اور امریکاسےسفارتی تعلقات ختم کر نے کا اعلان کرنا چاہیے اور ان کے مقابلے میں روس، چین، جرمنی ، جاپان اور دیگر بڑی طاقتوں سے تعلقات مزید بہتر کرنے چاہییں۔بہ ظاہر یہ کام ناممکن لگتاہے، مگر اب دیگر بڑی طاقتوں اور معیشتوں کی موجودگی میں امریکا کا اثرورسوخ بہ تدریج کم ہورہا ہے۔اس عمل کو بڑھاوا دینے کے لیے مسلم ممالک کو ضرور اس بائیکاٹ کا آغاز کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ اسرائیل اور امریکا کو مجبور کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

تازہ ترین