• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان مسلسل بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ہر ہوشمند پاکستانی کے لئے بجا طور پر شدیدتشویش و اضطراب کا باعث ہے کیونکہ اس کے نتیجے میںملک و قوم کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے حکمراں جماعت کے رکن قومی اسمبلی رانا حیات کی جانب سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض کا نوٹس لیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو سابق وزیراعظم نواز شریف پر 4اعشاریہ 9ارب ڈالر بھارت بھجوانے کے الزام کی وضاحت کے لیے بدھ کو طلب کر لیا ہے۔قائمہ کمیٹی نے چیئرمین نیب کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر معاملے پر بریف کرنے اور اپنے ساتھ متعلقہ افسران کو لے کر آنے کی ہدایت کی ہے تاکہ پوائنٹ آف آرڈر کا جائزہ لیا جاسکے۔ اطلاعات کے مطابق کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں دن ڈھائی بجے چیئرمین چوہدری اشرف کی صدارت میں ہوگا، جبکہ قائمہ کمیٹی میں پیپلزپارٹی کے ارکان نوید قمر اور شگفتہ جمانی نے چیئرمین نیب کی طلبی کو ادارے کے کام میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ چیئرمین نیب کی جانب سے سابق وزیر اعظم پر عائد کیے گئے اس الزام پر اگرچہ بالعموم اس بناء پر حیرت کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس الزام کی واضح تردید اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہی نہیں بلکہ ورلڈ بینک کی جانب سے بھی کی جاچکی تھی تاہم ان کے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں طلب کیے جانے کو ، اداروں کی باہمی کشیدگی کو آخری انتہا تک پہنچادینے کے مترداف ہونے کی بناء پر اکثر تجزیہ کاروں کی جانب سے غیر مناسب قرار دیا جارہا ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے کے وقت تک یہ بات واضح نہیں کہ چیئرمین نیب طلبی کے حوالے سے کیا فیصلہ کریں گے لیکن بظاہر اس کے نتیجے میں اداروں کی باہمی محاذ آرائی میں مزید شدت کے خدشات نمایاں ہیں۔ملک میں اداروں کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا ایک اور تازہ سبب سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے اپنے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں کے حوالے سے کیا گیا متنازع اظہار خیال ہے جسے قومی سلامتی کمیٹی نے فوری طور پر بلائے گئے اجلاس میںغلط اور گمراہ کن قرار دیا لیکن مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں ۔ منگل کو احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کو افسوسناک ، تکلیف دہ اورحقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اب یہ پتہ لگنا چاہئے کہ ملک کو اس نہج پر کس نے پہنچایا،ملک میں دہشتگردی کی بنیاد کس نے رکھی ، اس کا ذمہ دار کون ہے،فیصلہ ہوجانا چاہئے کہ کون محب وطن ہے اورکون غدار‘پاکستان دنیامیں تنہاہورہاہے‘‘۔ اکتوبر 2016میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے انگریزی اخبار میں شائع ہونیوالی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے نواز شریف نے مزیدکہاکہ اُس وقت بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں باتیں ہوئی تھیں کہ گھر کو ٹھیک کریں، اس اجلاس میں جو باتیں میں نے کی تھیں ان کو نیوز لیکس بنا دیا گیاجبکہ وہ تو حقیقت تھیں، اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ پہلے گھر کو درست کیا جائے ، ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ حقائق کا تعین کیا جاسکے۔ ان تفصیلات سے صورت حال کی سنجیدگی اور سنگینی بخوبی واضح ہے۔ سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے ممکن ہے کسی فریق کو کسی حد تک کوئی وقتی فائدہ حاصل ہو سکے لیکن اس صورت حال کا جاری رہنا ملک کے لیے بہرحال سخت نقصان دہ ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کو درپیش داخلی اور بین الاقوامی چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لیے معاملے کے تمام فریق افہام و تفہیم ، حقیقت پسندی اور ماضی کی غلطیوں کی درستگی کی راہ اپنائیں کہ قومی بقا و سلامتی کو یقینی بنانے کااس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔

تازہ ترین