• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے طویل سوچ بچار کے بعد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو اپنی آئینی مدت کے اندر ہی صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لئے آئین میں تیسویں ترمیم لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جسے سیاسی افراتفری کے موجودہ ماحول میں ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، اس تجویز پر کافی عرصہ سے حکومت اور اپوزیشن کے حلقوں میں بحث مباحثہ جاری تھا۔ اپوزیشن اس کے حق میں مہم چلا رہی تھی اور حکومتی حلقے بھی اس کے حامی تھے مگر مسلم لیگ ن کی دو بڑی اتحادی پارٹیوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے تحفظات کی وجہ سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ فاٹا پانچ قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل بہت بڑے رقبے پر محیط، اور پاکستان کی سرحدی سلامتی کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل علاقہ ہے مگر انگریزوں کے دور سے اس کی کوئی سیاسی انتظامی اور قانونی حیثیت واضح طور پر متعین نہیں کی گئی۔ اب جبکہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت 31مئی کو ختم ہو رہی ہے اور یہ بات بھی بقینی ہے کہ جلد یا بدیر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ٗضم کرنا ہی پڑے گا، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلیٰ سطحی مشاورت کے بعد اس سلسلے میں حتمی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اس مقصد کے لئے آئین میں ترمیم کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں پہلے سے اس کے حق میں ہیں اس لئے توقع ہے کہ ترمیمی بل کو آسانی سے منظور کرا لیا جائے گا۔فاٹا تاریخی لحاظ سے خیبرپختونخوا کا ہی حصہ ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اسے قیام پاکستان کے وقت ہی اس صوبے میں مدغم کر لیا جاتا مگر اسے بلاجواز وفاق کے ماتحت رکھا گیا اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن جیسے استبدادی قانون کے تحت پولیٹکل ایجنٹ اس پر حکومت کرتے رہے علاقے کے قبائل اور ان کے سردار خیبرپختونخوا میں اس کے انضمام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ جے یو آئی اور بی کے میپ کے تحفظات بھی دور کئے جائیں گے اور قبائلیوں کی خواہشات کے مطابق فاٹا کے پی کے کا آئینی حصہ بن جائے گا حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کو اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین