• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں انسان کبھی خوش ہوتا ہے اور کبھی غم یا دکھ اس کا مقدر ہوتے ہیںلیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دکھوں اورغم کی پوٹلی سے بھی خوشیاں ڈھونڈ لیتے ہیں ۔کچھ لو گ اپنی گفتگو اور باتوں سے مزاحیہ پن پیدا کرنے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ویسے تو روز مرہ کی زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی لطیفہ جنم لیتا ہی رہتاہےلیکن ایسا لگتا ہے کچھ لوگوں کے توذہن بنے ہی لطیفہ بازی کے لیے ہیں ،وہ باتوں باتوں میں لطیفے گھڑ لیتے ہیں یا جگت بازی سے دوسروں کو لاجواب کرتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارا ملک مزاحیہ پن میں بڑا زرخیز ہے ۔بھارت جس کی فلم انڈسٹری بہت بڑی ہے لیکن سوا ارب نفوس کی اس آبادی کے مقابلے میں جتنے مزاح نگار، مزاحیہ فنکار اورکامیڈین ہمارے ملک میں پیدا ہوئے ہیں، بھارت کو نصیب نہیں ہو ئے حا لا نکہ بھا رت جہاں پر فارمنگ آرٹ کے لیے فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹس کے بھی لاتعداد چینلز مو جو د ہیں لیکن وہ ہمارے جیسے مزاحیہ فنکار پیدا نہیں کرسکے۔اس حوالے سے میں پہلے بھی اپنے مزاحیہ فنکاروں کا ذکرکرچکا ہوں ایک بار پھر کہے دیتا ہوں کہ ظریف برادران سے لے کر رنگیلا ،نذر، لہری، نرالا، البیلا،ننھا، خالد سلیم موٹا،عمر شریف، معین اختر، افتخارٹھاکر، سہیل احمد،امان اللہ،امانت چن ،وسیم وکی، علی میر، اور نہ جانے کتنے ہی نام ہیں جن کے فن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن میں کوئی آج مزاح پر کالم نہیں لکھ رہا بلکہ ایک محفل میں دو نابینا افراد کا برجستہ جملہ سن کر اتنا ہنسا کہ میرے جبڑے درد کرنے لگے اور کا لم کا آ غا ز بھی اس اندا ز میں کر دیا۔ ان کے فقرے میں اتنی معصوصیت اور برجستگی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ میرا اندا ز تحر یر اس کی چا شنی کو پوری طرح بیان نہ کرسکے۔ محفل میں اٹھتے ہوئے ایک نابینا اپنے دوسرے ساتھی نابینا سے ٹکراگیا تو اس نے پنجابی میں اسے کہا کہ’’ کی ہویا ہی، انا ہوگیا ایں‘‘( کیا ہوا ہے، اندھے ہوگئے ہو) اور پھر دونوں خود ہی قہقہ لگا کر ہنسنے لگے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے اس فقرے کو کسی تیسرے نے بھی بہت انجوائے کیا ہے لیکن اس سے بھی بڑا لطیفہ میرے ساتھ یہ پیش آیا کہ میںنے اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک ریسرچر کو کہا کہ پلیز مجھے ایک ڈیٹا نکال دو جس میں مجھے ’’بلائنڈز‘‘ کے بارے میں علم ہوسکے ۔دوسرے روزمیری ٹیبل پر جو ڈیٹا پڑا تھا اس میں لکھا تھا ۔اسلام آباد میں بلائنڈز کے بڑے بڑےا سٹورز کے نام یہ ہیں جبکہ اس وقت مارکیٹ میں دو سو روپے اسکوائر فٹ سے لے کر دو ہزار روپےاسکوائرفٹ تک ان کاریٹ ہے ۔میرا ریسرچر دوست یہ سمجھا کہ شاید میں نے کھڑکیوں میں لگانے والی بلائنڈز کے بارے میں پوچھاہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں بلائنڈز یعنی نابینا افراد کو ہماری حکومت اور ہم سب محض لطیفے کی طورپر ہی سمجھ رہے ہیں ان کے لیے مقررہ کردہ کوٹہ کے باوجود انہیں ملازمتیں تک نہیں دی جارہیں۔ حالانکہ آنکھوں کی روشنائی نہ ہونے کے باوجود نابینا افراد کے دماغ نہ صرف پوری طرح روشن ہوتے ہیں بلکہ دیکھنے والوں کے مقابلے میں قدرت نے انہیں کچھ صلاحیتیں زیادہ عطا کررکھی ہوتی ہیں۔آپ نے چند روز قبل روزنامہ جنگ میں یہ خبر ضرور پڑھی ہوگی جس میں یوسف سلیم نامی ایک نابینا نوجوان نے عدلیہ کے لیے تحریری امتحان میں تقریباً ساڑھے چھ ہزار امیدواران میںسے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے لیکن انٹرویو میں نابینا ہونے کی وجہ سے اسے جج بننے کے لیے نااہل قرار دیاگیا لیکن پھرجیو کی ہی خبر پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے نوٹس پر اب وہ جج بننے جارہے ہیں ان کی دوبہنیں بھی نابینا ہیں اور ایک بہن سی ایس ایس کرنے والی پہلی نابینا خاتون ہیں اور فارن سروس میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں اور اس وقت بھی سرکاری ملازمت کررہی ہیں لیکن درخواست یہ کہ کسی ایک نابینا نوجوان نہیں بلکہ تمام نابینا افراد کو ان کے حقوق ملنا ضروری ہیں ان کو کوٹہ کے مطابق ملازمتیں اور دیگرمراعات دیناچاہیں نہ کہ حقوق کے لیے احتجاج کرنے پر پولیس ان پر ’’انے وا‘‘ لاٹھی چارج کرے۔

تازہ ترین