• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہانی بہت ہی دلچسپ ہے ۔ ایلاٹوولاپل سری دھرن12جون 1932کو کیرالہ کے ضلع پلاکاڈ کے گائوں پٹمبی میں پیدا ہوئے۔ سول انجینئر نگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انڈین انجینئرنگ سروس میں شمولیت اختیار کرلی۔دسمبر1954میں پہلے اسائنمنٹ پرجب جنوبی ریلوے میں تعینات ہوئے تو عمر محض 22برس تھی۔انھیں بھارتی ریلوے کوبہتر بنانے کی زبردست آرزو تھی جس کیلئے وہ دنیا بھر کے ریلوے نظاموں کے بارے میں مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ہر شخص کی زندگی کی طرح انکی زندگی میںٹھیک 10 سال بعد ایک فیصلہ کن موڑ آیا۔ دسمبر1964کی بات ہے جب زبردست طوفان بادو باراں کے باعث بھارتی ریاست تامل ناڈو کو شہر رامیش ورم سے ملانے والا واحد پل بہہ گیا۔ریلوے حکام نےپل کی تعمیر کی چھ ماہ ٹائم لائن مقرر کی۔محکمانہ اجلاس میں کسی نے بھی اس منصوبے کو 6 ماہ سے پہلے مکمل کرنے کی گارنٹی نہیں دی۔ 32سالہ سری دھرن نے چیئرمین سے درخواست کی کہ میں اسے 3 ماہ میں مکمل کر سکتا ہوں۔سب نے اسکا مذاق اڑایا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ یہ سری دھرن اور اسکے باس کا طے شدہ جوا تھا۔قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی اورسری دھرن کو ہی اس منصوبے کا انچارج بنادیا گیا۔یہ اس کا پہلا بڑا منصوبہ تھا۔ریلوے کی دس سالہ نوکری میں اس نے اپنے دماغ کو زنگ نہیں لگنے دیا ۔ذہانت،تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعی قوتوں سے مالا مال یہ نوجوان بہت ہی حساس واقع ہوا تھا ۔ وقت ضائع کرنے کو گناہ سمجھنے والےسری دھرن نے چار ٹیمیں تشکیل دیں اور دن رات ایک کرکے محض 46 دنوں میں یہ پل بنا ڈالا۔ دو محکمانہ اور ایک بیرونی ٹیم نے پل کے معیار کو بخوشی کلیئر کر دیا۔ سری دھرن کی پہلی کامیابی پر انھیں ریلوے منسٹر کا خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔جہاں اس نے کہا میں خوابوں کو حقیقت بنانے کیلئے عملیت پسندی پر یقین رکھتاہوں اور ہندوستان میں ریل کا نیا نظام بنانا چاہتا ہوں تاکہ عوام کو سستے ذرائع آمدورفت دستیاب ہوں۔صرف چھ سال بعد1970میں سری دھرن کا خواب حقیقت بننا شروع ہوگیا۔یہ انڈیا کی لاٹری نکلی تھی کہ38سالہ سری دھرن کوبھارت کی پہلی کولکتہ میٹرو کو ڈیزائن ،منصوبہ بندی اور تعمیر کا انچارج بنا دیا گیا۔انھوں نے ایک بار پھر ٹائم لائن سے بہت پہلےاس منصوبے کو بہترین طریقے سے مکمل کرکے ماہرین کو حیران کردیا۔یہیں سے بھارت میں جدید انجینئرنگ انفراسٹرکچر کی بنیاد پڑی ۔امنگوں کو جوان رکھنے اورہنگامی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اورمشاہدے کی اعلیٰ قوتوں سے مزین سری دھرن کی جولانی انھیں کچھ نیا کرنے پر ابھار رہی تھی۔1979میںبھارتی ریاست کیرالہ میں واقع سب سے بڑی بندرگاہ پر کام کرنے والی کمپنی کوچن شپ یارڈ میں سری دھرن نے شمولیت اختیار کرلی۔ کمپنی خسارے میں تھی اور پہلے جہاز رانی پدمنی کی تیاری کئی مہینوں سے معطل تھی۔لیکن سری دھرن نے ٹھان لی اور محض دو سالوں میں ہی یہ جہاز تیار کر ڈالا اب تو جیسےکمپنی کا ستارہ چمک اٹھا۔ قسمت کی دیوی سر دھرن کو محنت اور ایمانداری کا صلہ ایسے دے رہی تھی کہ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا وہ سونا ہوجاتا۔ 1990میں انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن حکومت نے انھیں کونکان ریلوےکا سربراہ بنا دیا ۔7 سالہ دورمیں پہلا عظیم الشان ریلوے منصوبہ مکمل کیا گیا جس میں82کلومیٹر طویل 93سرنگیں بھی شامل تھیں جس نے انڈیا کی شکل ہی بدل ڈالی۔کل منصوبے کی طوالت 760کلومیٹر تھی جس میں 150پل بھی بنائے گئے۔1995میں کونکان ریلوے دہلی میٹرو کا منیجنگ ڈائریکٹر اور1997میں انھیں دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کا ایم ڈی بنایا گیا۔ایک بار پھر انھوں نے مقررہ وقت سے پہلے ہی یہ منصوبہ مکمل کردکھایا۔مہا مایا ٹیکنیکل یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی ۔2001میں بھارتی حکومت نے انھیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پدم شری سے نوازا۔ٹائم میگزین نےانھیں 2003میں ایشیا کا ہیرو قرار د یتے ہوئے ڈاکٹر میٹرو مین کا لقب بھی دے دیا۔2005میں فرانسیسی ایوارڈ2008پدم بھوشن ایوارڈسیاسی رہنمائوں کی طرف سے انھیں بھارت رتن ایوارڈ دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔وہ ترقیاتی منصوبوں کو سیاسی دبائو سے مبرا کرنے اور ان کی تکمیل سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے خلاف تھے۔2005کے اختتام پر انھوں نے ریٹائرمنٹ کاا علان کیالیکن میٹرو ٹرین کے دوسرے فیز کی تکمیل تک انکی مدت ملازمت کا بڑھا دیا گیا۔بانکی مون نے انھیںاقوام متحدہ کے پائیدار ٹرانسپورٹ کے منصوبے کا اعلیٰ ترین ایڈوائزر مقرر کیا جس میں انھوں نے تین برس تک خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے 31 دسمبر 2011میں ریٹائرمنٹ لے لی۔اس کے بعد انھیں کوچی میٹرو ریل پروجیکٹ کا پرنسپل ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ابتدا میںاس منصوبے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنی دھن کے پکے رہے۔حکومت اور کوئی سیاستدان عوامی فلاحی منصوبوں میں نہ کوئی دخل اندازی کرتا اور نہ اسے روکتا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی عوامی مظاہرے ہوئے۔
مسائل کے باوجود 2013میں انھوں نے اعلان کیا کہ تین سال میں کوچی میٹرو ٹرین مکمل ہوجائیگی۔بھارت کے مختلف شہروں میں میٹرو ٹرین کے16منصوبے مکمل 7زیر تکمیل اور6مزید بنانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ان منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئےمیٹرو ایکٹ منظور کرکےانھیں مرکزی حکومت کے منصوبےقرار دیا گیاجسے کوئی نہ روک سکے گا۔کوریا، فرانس اور جرمن کمپنیوں نے بھاری سرمایہ کاری کرتے ہوئےان منصوبوں کیلئے 1164میٹرو کوچز بھارت میں ہی تیار کرنے کے معاہدے کئے ہیں جس سے روزگار کے وسیع مواقع میسر آرہے ہیں۔ بھارت میں 760کلومیٹر کی میٹرو ٹرین بنائی جارہی ہے۔کیا اس کی تعمیر میں مشکلات نہیں آئی ہوں گی؟ضرور آئی ہوں گی۔لیکن کسی سیاسی گروہ کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ایک چھوٹا سا گھر ہی بنانا ہو تو عام آدمی تنگ ہو جاتا ہے۔ چند مہینوں کی دقت پر سیاسی شر پسند سیاسی بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں ۔لاہور کاایک بہت بڑا بزنس مین سیاسی جماعت کی ایما پر اورنج ٹرین کے خلاف مظاہروں کو فیڈ کررہا ہے۔نجی یونیورسٹی میں سیمینار اور ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر لاہور کو بچانے کی نام نہاد مہم کو بھی چمک کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ اسی کے کرتا دھرتا پی آئی اے کی ہڑتال اور مظاہروں کے پیچھے تھے۔ وہ مسلسل ہر میڈیا پلیٹ فارم سے محض27 کلومیٹر لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کو متنازع بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے چند سو افراد کو استعمال کررہے ہیں ۔تحریک انصاف بھی اپنے منفی سیاسی کارڈز کھیلنے کیلئے پرتول رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اورنج ٹرین بھارت یا اسرائیل کے باشندوں کیلئے بنائی جارہی ہے؟ عوام بھولے نہیں ایک ماہ قبل ہی بلاول بھٹو لاہور میںمیٹرو اور اورنج ٹرین پر لال پیلے ہوئے تھے۔ لاہورمیٹرو بس سروس کو جنگلہ بس قرار دینے والی حکومت سندھ نےکراچی میٹرو بس سروس شروع کرنے کاباضابطہ اعلان مشتہرکردیا ہے ۔اور سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی بل سندھ اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی میٹرو بس سروس شروع ہوجائیگی تو تب یہ سب سیاستدان عوام کوکیا منہ دکھائیں گے؟
تازہ ترین