• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ملکی افق پر کسی حادثے یا اہم پیش رفت کے بادل چھاتے ہیں تو کالموں کی برسات ہونے لگتی ہے۔ اس برسات میں نہاتے ہوئے بعض اوقات کوئی نہ کوئی کالم غورو فکر کے لئے ایک آدھ فقرہ پیچھے چھوڑ جاتاہے ورنہ تو کالموں کی برسات بھادوںکی برسات کی مانند ندی نالوں میں بہہ جاتی ہے۔ توقع کے عین مطابق میاں محمد نوازشریف کے غیرمتوقع بیان پر کالموں کی برسات کھل کر برسی اور بعض کالم نگار بہت دور نکل گئے۔ چند ایک ٹی وی حضرات نے تو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کچھ اس طرح کیا کہ مجھ جیسا گوشہ نشین بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک روز ایک ٹی وی چینل پر نظر پڑی تو اینکرپرسن کومیاں صاحب کے بیان پربرستے دیکھااور غصے سے لال پیلا ہوتے دیکھا۔ اگلے روز وہی صاحب بیان کادفاع کچھ اس طرح کر رہے تھے کہ بحث میں شریک تجزیہ نگاروں کے تجزیات کو رد کر رہے تھے۔ راتوں رات اس ’’انقلاب‘‘ کی وجہ ہرگز سمجھ نہ آسکی کیونکہ رات کی تاریکیوں میں رونماہونے والے انقلاب کسی کی سمجھ میںبھی نہیں آتے۔ حتیٰ کہ ہمیں آج تک ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے انقلابات کی بھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ وہ رات کے اندھیروں میں نازل ہوئے تھے۔ یحییٰ خان کا انقلاب سمجھ میں آتا ہے چونکہ وہ دن کے اُجالے میں تشریف لایا تھااور دن کے اُجالے ہی میں ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرکے رخصت ہوگیا۔
کالموں کی اس برسات میں مجھے ایک غصیلے کالم نگار کا ایک کالم یاد رہ گیا جس میں اس نے درباروں سے وابستہ خوشامدیوں اور حواریوںکو دو قسموں میں تقسیم کیا تھا۔ اول وفادار دوم غلام.... وفادار خوشامدی حکمرانوں کے اُس وقت تک وفادار رہتے ہیں جب تک ان کے مفادات وفاداری کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ حکمرانوں کا نمک کھاتےاور اس نمک سے خوب جھولیاں بھرتے ہیں لیکن جب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران حالات کے عتاب کا شکار ہو گیا ہے اور اب اقتدار میں اس کی واپسی ناممکن ہے تو وہ اپنی وفاداری کا رخ موڑ لیتے ہیں۔ دراصل یہ رویہ، مفاد پرستی ا ور وفاداری جمہوریت کی دین ہے بلکہ جمہوریت کااعلیٰ ترین حسن ہے اور اسی لئے اسے وفاداری بشرطِ استواری کہتے ہیں۔ یہ وفادار حضرات خاصے زیرک اور کاریگر ہوتے ہیں۔ جب حکمران کا اقتدار لڑکھڑانے لگتا ہے اور مستقبل غیریقینی نظر آنے لگتا ہے تو وہ پس پردہ جانے کی کوشش میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن اس خطرےسے اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے کہ لوگ انہیں بے وفائی کا طعنہ نہ دیں۔ اندرہی اندرسے یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید اقتداربچ جائے،شاید مشکلات اور مصائب کے بادل چھٹ جائیں اورشاید حکمران عتاب سےنکل کر پھر آفتاب بن جائے۔ چنانچہ وہ وفاداری کا تاثر اور بھرم قائم رکھتے ہیں۔ نمک حلال کہلانا پسند کرتے اور نمک حرامی کی گالی سے بچنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان حضرات کی وفاداری حکمران کی ذات سے ہوتی ہے چنانچہ وہ اس کے ہر کام، فیصلے اور سیاسی ادا پروارے صدقے جاتے اور قصیدے نچھاورکرتےہیں۔ چاہے وہ حکمران ملک کے وسائل پرڈاکے ڈالے، خزانے لوٹے اور اس طرح کی حرکتیں کرے جن سے ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچتا ہو۔ انہیں حکمرانوںکی حکمرانی، پالیسی، کردار اور انداز سے غرض نہیں ہوتی، انہیں اپنے مفادات اور حکمران کی حکمرانی سے غرض ہوتی ہے۔ جب تک مفادات کے چشمے ان کی حرص و ہوس کی پیاس بجھاتے رہیں اور حکمرانی کا سورج چمکتا رہے، وہ حکمران کے ہر کام میں خوشامد کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں حتیٰ کہ ایسے کارناموں کا بھی ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہیں جن سے خود ان کا ضمیر بغاوت کرتا اور ذہن مطمئن نہیں ہوتا۔ البتہ جب حکمران کےاقتدار کا سورج ڈوب جاتا ہے اور انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ سورج کبھی طلوع نہیں ہوگا تو وہ اپنے قیمتی قلم کو کانوں پر سجا کر نئے حکمران یا حکمرانوں تک رسائی کاراستہ بنا لیتے ہیں اورحاضرہوتے ہی پوچھتے ہیں کہ کوئی خدمت جناب، کوئی حکم جناب، بندہ اپنے ضمیر، ذہن اورتخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ حاضر ہے اور تاقیامت آپ کا وفاداررہے گا۔ آزمائش شرط ہے۔ ہر حاکم کو قصیدہ گو اور خوشامدی درباریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کروہ قرب ِ شاہی حاصل کرلیتے ہیںاور ہرروز اپنامنہ حاکم کے عطا کردہ موتیوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ رہا سوال آزمائش کا تو اس کاموقع ہی کب ملتاہے۔ حاکم تخت سے محروم ہو کر’’مرحوم‘‘ سا ہوجاتا ہے اور بیچارہ آزمائش کا دعویٰ کرنےوالوں کو آزمانے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہتا۔ ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ ’’اوچھے‘‘ وفادارحکمران کے سیاسی مقدر کے تیور بدلتے ہی اپنی وفاداری بدل لیتے ہیں جبکہ گھاگ اور سیانے وفادار یہ کام ہولے ہولے ، آہستہ آہستہ کرتے ہیں اور کچھ عرصہ خاموش رہ کر، پھر پس پردہ جاکر اور پھر خداداد حکمت سے کام لے کر نئے حکمران کے اقتدارمیں نقب لگاتے اوراس کے دل میں راستہ بناتے ہیں۔ دل میں راستہ بناناضروری ہوتاہے کیونکہ دل کے بالکل اوپر قمیص کی جیب ہوتی ہے اور اصل شے ہی حکمران کی جیب ہوتی ہے نہ کہ اس کا کردار، صلاحیت ا ور اندازِ حکمرانی۔ خوشامد اللہ تعالیٰ نے ایسی شے بنائی ہے جو بڑے بڑے بینا حضرات، بڑے بڑے صاحبان ِ بصیرت اور عقلمندوں کو اندھا کردیتی ہے۔ حکمران کو اندھا کرنے یعنی بینائی سے محروم کرنے کا بہترین طریقہ اس کی ہمہ وقت تعریف ہے۔ وہ چاہے قوم فروشی اورملک دشمنی کرے، اس کے ہر کام کی تعریف کرکے اسے بینائی اور بصیرت سے محروم کیا جاسکتا ہے اور یہی وہ فن ہے جس میں خوشامدی حضرات یکتائے روزگار اور ماہر ہوتے ہیں۔
آپ اخبارات غورسے پڑھتے رہیں، ٹی وی چینلوں پر تجزیات سنتے رہیں، بیانات پر نظر رکھیں اور میڈیا سے منسلک حضرات یا اینکر پرسنوں کی مہارت کو دیکھتے رہیں، آپ کو خود پتا چل جائے گا کہ کون حق گو ہے اور کون خوشامدی، مصلحت پسند، گھاگ یا کاری گر ہے۔ یقیناً آپ کی ماضی پر بھی نگاہ ہوگی ۔ آپ دانشوروں کی ’’تجلیاں‘‘ برسوں سے دیکھ رہے ہوںگے۔ جودرباری حکمران کی اقتدارسے رخصتی کے ساتھ آہستہ آہستہ پائوں پیچھے سرکانا شروع کردے، خوشامد کی خُو سے تائب ہو کر میانہ روی کی راہ اپنالے یا اندھی حمایت کا چلن چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے موضوعات پر لکھنا، بولنا، یا ’’بلوانا‘‘ شروع کردے تو سمجھ لیں کہ یہ ’’حضرات‘‘ کاری گر اور دور اندیش خوشامدی ہیں۔ انہوں نے حالات کا رخ مڑتے دیکھ کر اپنا رخ بھی موڑ لیا ہے مگر خیرجوحضرات اس کے باوجود رخ نہ موڑیں، اپنی عادت پہ قائم دائم رہیں اور حکمرانوں کی کشتی ڈوبنے کے باوجود ان کے قصیدہ گو اور درباری بنے رہیں تو سمجھ لیں کہ وہ اعلیٰ حضرت خوشامدی نہیں تھے بلکہ وہ غلام ہیں۔ خوشامدی حالات کا تابع ہوتا ہے جبکہ غلام اندھی تقلید، اندھی عقیدت اور اندھی وفاداری کی اعلیٰ ترین مثال ہوتا ہے۔ خوشامدی صرف حکمران یامقتدر شخصیت سے وفاداری کے تقاضے نبھاتا ہے جبکہ غلام حکمران کے سارے خاندان کا وفادار، خوشامدی اور درباری ہوتا ہے۔ اس کی غلامانہ ذہنیت اور غلامانہ شخصیت دائمی وفاداری کے سانچے میں ڈھل کر پروان چڑھی ہوتی ہے۔ حکمران اقتدار سے رخصت بھی ہو جائے تو وہ اپنی نمک حلالی کے نشے میں ان کی حمایت کے طبل بجاتا رہتا ہے۔ وہ ایک ہی شخصیت کا اسیر اور ایک ہی خاندان کا وفادار رہتا ہے اور اس پر ناز کرتا رہتا ہے۔ اسی لئے اسے وفادار نہیں بلکہ غلام کہا جاتا ہے کیونکہ وفاداری عارضی جبکہ غلامی دائمی ہوتی ہے۔ وہ خوشامدیوںکے مقابلے میں گھاٹے میں رہتا ہے لیکن اسے اپنی اس ’’فطرت‘‘ پر فخر ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ ساری اقسام بندوں کی غلامی ہیں، اقتدار اور دولت کی پوجاہیں۔ مجھے تو ان پر رحم آتا ہے جو اپنی صلاحیتیں، ضمیر اور جسم و جان کسی ایک انسان کے لئے وقف کردیتے ہیں اور اپنی ذات کو ’’فنا‘‘ کردیتے ہیں۔ وہ اقتدار کے قریب ہوتے ہیں تو خود ان کے بھی خوشامدی اور فین ہزاروں ہوتے ہیں جنہیں ان سے کام نکلوانے ہوتے ہیں لیکن جب ان کے اقتدار کو گرہن لگتا ہےتو پھرتے ہیں میرؔؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ وہ خوشامدی ہوںیا غلام مجھے تو ان پر اس وقت بھی رحم آتا ہے جب لوگ ان پر رشک کرتے ہیں اورحیلے بہانے سے ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ البتہ اس وقت ان پر زیادہ رحم آتا ہے جب وہی لوگ انہیں اگنور کرتے ہیں۔ یہ تو خیر میری رائے ہے آپ اس حوالے سے کیا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین