• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس وہ دوپہر بھی عجیب تھی، سخت تیز دھوپ کے ساتھ کڑاکے کی گرمی۔ اٹک قلعے میں داخل ہوتے ہی سامنے لکھا تھا’’الصمصام بالٹین‘‘ میں بڑا خوش ہوا کہ پیارے دوست سید صمصام بخاری کے نام پر بٹالین بنی ہوئی ہے مگر میرے گائیڈ نے درستگی کی کہ نہیں یہ ایس ایس جی کی بٹالین ہے۔ میں مغلوں کے بنائے ہوئے اس مضبوط قلعے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ کیسے دریا کے کنارے اتنا مضبوط قلعہ بنایا گیا، کیسے دریا کے نیچے سے سرنگ بھی نکالی گئی، دشمن کی سپاہ کو ٹارگٹ کرنے کیلئے کس مہارت سے توپوں کی جگہ بنائی گئی تھی۔ سولہ سو میٹر احاطے پر مشتمل یہ قلعہ 1581ء میں مغل شہنشاہ اکبر کے حکم پر بنایا گیا تھا، چار دروازوں کا حامل قلعہ مغلوں کی جنگی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دہلی دروازہ درمیان میں ہے، یہ دروازہ قلعے کو بالائی اور زیریں حصے میں تقسیم کرتا ہے۔ موری دروازہ مشرق کی جانب ہے، قلعے کے زیریں حصے میں شمال کی جانب لاہوری جبکہ جنوب مغرب میں کابلی دروازہ ہے، دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم پر واقع اس قلعے پر 1812ء میں سکھوں نے اور پھر 1842ء میں انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا، ان دونوں نے قلعہ کے اندر کچھ نئی عمارتیں بنوائیں۔ یونہی چلتے چلتے میرے گائیڈ نے کہا ’’سر! نوازشریف کو جہاں رکھا گیا تھا، یہ سامنے وہ جگہ ہے یہیں وہ چالیس منٹ صبح اور چالیس منٹ شام واک کیا کرتے تھے اور یہ سامنے عدالت ہے‘‘ آج یہ پرانی بات مجھے اس لئے یاد آرہی ہے کہ ان دنوں نوازشریف کے حوالے سے اڈیالہ کی باتیں ہورہی ہیں۔ مشہور نوجوان وکیل فیصل چوہدری ایک شام بتا رہے تھے کہ ’’نوازشریف کا کرپشن میں سزائوں سے بچنا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کے دفاع میں کچھ بھی نہیں، انہیں صفائی کے بڑے مواقع ملے مگر ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے ان کے دفاع کیلئے کافی سمجھا جائے۔ ان کا تازہ بیان اسی چکر میں ہے کہ وہ کرپشن کی سزا سے ہر صورت بچنا چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ انہیں توہین عدالت میں سزا مل جائے، آئینی اداروں کی بے توقیری کرنے پر سزا مل جائے، ملک دشمنی کی سزا مل جائے مگر کرپشن پر سزا نہ ملے‘‘۔
جب قدرت کی طرف سے ہوا کسی کی مخالفت میں چل رہی ہو تو پھر جادو کیا کرسکتا ہے، شاید کسی کو معلوم ہو کہ 27مارچ 2017ء کی شام ڈھاکہ کے ریجینسی ہوٹل میں جادوگروں کی ایک ٹیم نے کسی سے ملاقات کی تھی، ملاقاتی نے مبینہ طور پر سات شخصیات کے نام جادوگروں کے سامنے رکھے۔ پانچ شخصیات کا تعلق نظام عدل سے تھا، ایک عسکری شخصیت تھی اور ساتواں سیاستدان تھا، حیرت ہے ساری جادوگری دھری کی دھری رہ گئی، کسی ایک شخصیت پر بھی اثر نہ ہوسکا۔ قدرت کی کارہ گری کے سامنے جادو کی سب نگریاں ہیچ ہیں۔
آج کل نیب عدالت میں نوازشریف کے ساتھ ایک شخصیت نعیم بٹ کمرہ عدالت میں جاتے ہیں، سنا ہے کہ وہ دوران سماعت کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں، یہ صاحب توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، حیرت ہے اس تمام پر، بہت حیرت اس لئے کہ اس غریب قوم کا سرمایہ لٹ گیا، گزشتہ پینتیس چالیس سال میں لوٹ مار کا کھیل پاکستان کو کہاں سے کہاں تک لے آیا اور آج وہی لوگ پاکستان کے خلاف بیان بازیاں کرتے ہیں، مزید حیرت شاہد خاقان عباسی اور میاں شہباز شریف پر ہے جو خواہ مخواہ بضد ہیں کہ بیان کو توڑ مروڑ کر شائع کیا گیا۔ حالانکہ بیان دینے والا اپنی بات پر بضد ہے کہ میں نے جو کہا وہ سچ ہے۔
گزشتہ شب بھی اسلام آباد کی بیٹھکوں میں یہی زیر بحث رہا کہ آخر میاں نوازشریف نے ایسا کیوں کیا، انہوں نے پوری مسلم لیگ ن کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ ایک محفل میں عمر مسعود فاروقی پاکستان کا معاشی نقشہ پیش کررہے تھے، لوگوں کو پاکستان کی معاشی مشکلات سے آگاہ کررہے تھے مگر حاضرین محفل نوازشریف کے تازہ بیان کو لیے بیٹھے تھے۔ ابھی محفل کے چراغ نہیں بجھے تھے کہ خوبصورت آدمی ندیم رضا بولے ’’جو بیان نوازشریف نے دیا ہے وہ اگر کسی دوسرے صوبے کے لیڈر نے دیا ہوتا تو وہ اب تک سلاخوں کے پیچھے ہوتا‘‘ میں نے عرض کیا کہ صرف لیڈر ہی نہیں بلکہ اس کے دور پار کے رشتہ دار بھی مشکلات کا سامنا کررہے ہوتے، شاید اب مزید انتظار کی ضرورت ہو ورنہ یہ حلف کی پاسداری کے خلاف ہے۔
حالات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے مگر ہمارے سیاستدان جھوٹ بولنا چھوڑتے ہی نہیں، حقیقت کو جھوٹ سے جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لندن سے مرتضیٰ علی شاہ کی خبر میرے سامنے ہے کہ ’’برطانیہ کرپٹ سیاستدانوں کیلئے منی لانڈرنگ کا پسندیدہ مرکز بن چکا ہے۔ خاص طور پر پاکستانی، روسی اور نائیجرین سیاستدان بڑے شوق سے برطانیہ میں دولت رکھتے ہیں مگر نئے قانون نے منی لانڈرنگ کرنے والوں کو پریشان کردیا ہے لیکن یہ پریشانی نوازشریف کے صاحبزادوں کیلئے نہیں ہے کیونکہ وہ برطانوی شہری ہیں‘‘۔
خواتین و حضرات! مذکورہ خبر صرف نوازشریف کے صاحبزادوں پر پریشانی نہیں لاسکی، یہ اس شخص کے صاحبزادے ہیں جو پاکستان سے محبت جگاتے تھکتا نہیں، پتہ نہیں ہمارے سیاستدان کب جھوٹ بولنا چھوڑیں گے، اب تو رمضان المبارک ہے، اب ہی کچھ خیال کریں، اب ہی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں۔ منی لانڈرنگ کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ جھوٹ جتنا بھی بول لیں، جھوٹ کا انجام ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ بقول وفا چشتی؎
آگہی کے دبیز اندھیروں میں
آگہی کا دیا جلاتے ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین