• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفید پوش لاہور کیلئے اورنج ٹرین کا تحفہ
آخر وہ اورنج ٹرین جسے بہت روکا گیا، وہ پٹڑی پر آہی گئی اور چل بھی پڑی، لاہور سفید پوش پیرس ہے اور اس میں یہ ٹرین سہولت ہی نہیں عجوبہ بھی ہے۔ اسے دیکھ کر حوصلے بلند ہوںگے، لاہور کے عوام جب اس میں بیٹھیں گے تو عارضی مدت کے لئے ہی سہی خواص دکھائی دیں گے۔ اب یہ لاہوریوں کا فرض ہے کہ اس خوبصورت تحفے کی حفاظت کریں، شروعات ہیں، یہ سلسلہ آگے بڑھے گا، وزیر اعلیٰ پنجاب اس ٹرین سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آرہے تھے جب وہ اس کے دروازے میں کھڑے لوگوں کی طرف فرط مسرت سے ہاتھ ہلاتے ہوئے نہایت خوش تھے۔ افتتاحی تقریر بھی اورنج ٹرین کے مشابہ تھی، شاعرانہ، ظریفانہ اور حریفانہ تھی۔ انہوں نے عمران خان کو پٹڑی سمجھ کر ان پر خوب چڑھائی بھی کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ قوم نے پھر موقع دیا خدمت کا تو سندھ اور پختونخوا کو بھی ایسا ہی تحفہ دوں گا۔ شعر بھی تراش تراش پی ٹی آئی کی طرف کاغذ کے جہاز بنا کر اڑائے اور ایک مشہورشعر میں ترمیم و تنسیخ کرکے اسے نیازی صاحب پر فٹ کیا۔ ہمیں ان کی خوشی اور فاتحانہ انداز سے پنجاب کا روایتی شعر یاد آیا؎
گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
جاتے جاتے یہ خوبصورت ٹرین سہولت دے کر خادم اعلیٰ نے پھر سے آنے کا گویا بیج بودیا۔ انہوں نے کہا منصوبہ تقریباً دو سال پہلے مکمل ہوجاتا مگر پی ٹی آئی نے دشمنی کی ،عوام الیکشن میں بدلہ لیں گے اور اورنج ٹرین کے بعد بلیو لائن بھی بنے گی، یہ بھی انہوں نے کہا، افسوس کہ بجلی کا بڑا بریک ڈائون ہونے کے باعث عین اس کے افتتاح کے دوران پورا لاہور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ٹی وی نشریات نہیں دیکھی جاسکیں ورنہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ لاہورئیے اس سنگترا رنگ ٹرین کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ، کچھ عرصہ اس پر وہ بھی سوار ہوں گے جنہوں نے سوار نہیں ہونا ہوگا، بہرحال یہ خادم اعلیٰ کا کارنامہ ہے۔
حریفوں کے لئے موٹر وے کیوں ؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف،دھرنوں میں عمران کے علاوہ بھی کردار تھے، بے نقاب کروں گا، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، نواز شریف، تحریک انصاف کا کام آسان بنارہے ہیں یہ دو بیان دو مصرعے ہیں ایک ہٹ سیاسی شعر کے اور اسی سے مطابقت رکھنے والا غالب کا یہ شعر بھی سن لیں شاید دونوں حریفوں کی سیاست سمجھ آجائے؎
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سربن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
پچھلے دنوں کسی کالم نگار نے بجا لکھا تھا کہ ن لیگ کو اب کسی دشمن کی ضرورت نہیں، وہی بات خان صاحب بھی کہہ رہے ہیں مگر بہ انداز دگر، سمجھ سے بالا ہے کہ اصل چیز تو پارٹی ہے کہ قائم رہے آگے بڑھے اپنا ووٹ بینک قابو میں رکھے، مگر نہ جانے کیوں میاں صاحب وڈے خود ہی کو مسلم لیگ ن سمجھ رہے ہیں۔ یہ بیانات در بیانات تو جماعت کو اپنی ہیئت قائم رکھنے میں دشواریوں سے دوچار کررہے ہیں۔ ہر کام کے پیچھے کوئی ہے کی رٹ نے تو اب تعین کردیا ہے کہ میاں صاحب کی مراد کیا ہے۔ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اس مسلم لیگ کو کمزور نہ کریں جسے وہ خون جگر دے چکے ہیں۔ آخر کب تک اور کیسے ان کے وفادار ان کے ارشادات کی مثبت تشریح کرتے رہیں گے، اپنے ہی وفاداروں، جاں نثاروں کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں اور حریفوں کے لئے راستہ ہموار کردیتے ہیں۔ بعض اوقات خاموشی بہت بڑی گویائی بن کر انسان کو فاتح بنادیتی ہے۔ یہ بات کیوں ایک کہنہ مشق وزیر اعظم و لیڈر نظر انداز فرمارہے ہیں، میاں شہباز شریف میں اتنا جوہر ہے کہ وہ پارٹی کو سنبھالا دیں اور ساکھ بگڑنے نہ دیں مگر یہ سابق وزیر اعظم کیوں اپنی ہی جماعت پر خود کش حملہ کررہے ہیں، عمران خان تو بجاطور پر کہیں گے کہ میاں نواز شریف ان کا کام آسان بنارہے ہیں، یہ رازوں کی باتیں، یہ بے نقابیاں یہ ہر حرکت کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے آخر یہ سب کچھ تو آبیل مجھے نہیں مارنا تو بھی مار کے مترادف ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی غیبی قوت ان سے یہ سب کچھ کرارہی ہے، ورنہ کوئی بھی اپنے گھر کے کواڑ پر کلہاڑا نہیں چلاتا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
بریک ڈائون اور نروس بریک ڈائون
بجلی کا بدترین بریک ڈائون، انسان اول تو ایسا دعویٰ نہ کرے جسے پورا نہ کرسکے اور اگر کرے تو پورا بھی کردکھائے ورنہ وہی دعویٰ گلے کا ہار بن جاتا ہے اور اس پر معاملہ شروع اسی پر معاملہ ختم اور پیسہ ہضم۔ تحقیق کرنا چاہئے کہیں اس عظیم الشان بجلی بریک ڈائون کے پیچھے بھی امپائر کی انگلی نہ ہو، کب تک ہم اپنی ناکامیوں کے پیچھے کسی نادیدہ ہاتھ کا حوالہ دے کر کام چلا پائیں گے۔ دھرنوں کے آگے پیچھے عمران ہی تھے اور کون تھا اور اس کون کو بھی اب اتنی بار بے نقاب کردیا گیا ہے کہ سیدھے سیدھے نام لے لیا جائے تاکہ جرأت رندانہ بھی بےنقاب ہو۔ اب تو کہنا پڑے گا کہ بےنقاب نقاب پوش تو ہر روز وطن کی آن پر قربان ہورہے ہیں کیوں ان کے حوصلے توڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں، کیوں دل جلانے کی باتیں کی جاتی ہیں، بجلی مسلم لیگ ن کے منشور کا جھومر تھا، جسے سب سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر پورا کیا جاتا، تو آج ن لیگ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے، بجلی ایران نے دہلیز پر رکھ دی ہم نے نہ لی، گیس پائپ لائن کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں پھر یہ آواز اٹھے گی کیوں دل جلانے کی بات کرتے ہو۔ بہرحال یہ بجلی کا بدترین بریک ڈائون رمضان کا چاند نظر آنے سے پہلے نظر آگیا تو گویا چاند تو اسی وقت نظر آگیا، ہر بندے کے دو ہاتھ ہوتے ہیں ایک سے غلطی ہو تو اسی کا دوسرا ہاتھ اس غلطی کے پیچھے ہوتا اور کوئی آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ اب یہ بریک ڈائون بھی متنازع بن رہا ہے کہ اس کی اصل وجوہات کیا تھیں، ہم سمجھتے ہیں مشینری ہے فیل ہوگئی کون سی آفت آگئی، کیوں ہر بات کو وہی ڈھاک کے تین پات بنادیا جاتا ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کوچۂ سیاست کی اپنی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں، سچ تو یہ ہے کہ حکومت کی جڑوں میں لوڈشیڈنگ ہی بیٹھی ہے، اگر صرف بجلی ہی کی فراوانی کردی ہوتی تو کسی نے کسی اور کا اعتبار ہی نہیں کرنا تھا، اگر یہ دعویٰ نہ کیا جاتا تو بھی بات نہ بگڑتی اور ہم یہ بھی کہتے چلیں کہ توانائی بحران کے حوالے سے بہت جھوٹ بولا گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، ترجیحات کی ترتیب غلط ہوجائے تو سب کچھ غلط ہوجاتا ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
دوپٹہ میرا ست رنگیا
٭...زرداری آج شمالی لاہور میں افطار ڈنر میں شریک ہوں گے۔
روزہ سیاست کا آغاز ہوگیا دیکھئے کہاں تک پہنچے۔
٭...ایاز صادق، آئندہ الیکشن منصفانہ ہوئے تو 4 کے بجائے 40حلقے کھولنا ہوں گے، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
٭...میر ظفر اللہ جمالی کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان۔
ترانہ شروع ہوتے ہی سینما ہال سے باہر آگئے۔
٭...نیب پراسیکیوٹر ، صدر نیشنل بینک کے اکائونٹس اسحاق ڈار استعمال کرتے ہیں،
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
٭...پورے عالم ا سلام میں ایک ہی دن رمضان المبارک کی ابتدا۔
یہ اچھا شگون ہے ، ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ اس رمضان میں عالم اسلام میں پس چہ باید کرد؟ (اب کیا کرنا چاہئے) کا جواب مل جائے گا، کیونکہ مسلم امہ کے سہارے بڑے کام اسی مبارک مہینے میں انجام پاتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین